وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے نام کھلا خطـ’’میں بھی خودکشی کروں گا‘‘

آداب بغرض عافیت،اطلاع و عمل !

امید عافیت ، دعا سلامتی کی اور حوصلہ و گزارش برائے عملی اقدامات بوساطت علم و انصاف ، سی پیک منصوبہ و دیگر پیش خدمت ہے۔

جناب والا! گلگت بلتستان کے عوام آپکی موجودہ حکومت اور قائدانہ صلاحیت سے متاثر ہے اور ترقی کی خاصی توقعات لیئے بیٹھی ہیں۔ ان توقعات میں سرِ فہرست پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا دیرینہ منصوبہ جبکہ تعلیم سمیت دیگر محکمہ جات میں کرپشن جیسی وباء کی خاتمے کی حکمت عملیاں ہے اور اس سے متصل دوسری ذرائع سے بھی ہیں۔ ہم دعا گو ہیں اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایسے منصوبے بھی ہونے جا رہے ہیں۔ترقی اور خوشحالی کے لئے نئی راہوں کی تلاش موجودہ دور حکومت کی ترجیحات میں نمایاں نظر آرہا ہے ۔ جس پر آپ سمیت تمام فرزندانِ خطہ کو مبارکباد اور شاباشی کے مستحق ہیں۔ مگر کہتے ہیں کہ ـ’’ہیں اور بھی غم دنیا میں محبت کے سوا‘‘۔ تا ہم سب سے پہلے سی پیک کے حوالے سے بلخصوص عوام الناس کی طرف سے آپ جناب کی خدمت میں عرض گزارنا چاہتے ہیں۔ اس سر زمین کو اپنی قسمت پربار بار اشک بار ہونے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ جیسے کشمیر اور فلسطین کے مجاہدین اور عوام الناس کی دلوں اور زندگی سے خوف اور موت سے ڈر نام کی چیز مٹ سی گئی ہے ویسے ہی اس خطے کی قسمت سے دیر پا ترقی اور ایمانداری کے تقاضے نایاب ہوتے جا رہے ہیں اور آہستہ آہستہ ترقی کو بھولتے جا رہے ہیں۔ جب بھی عوام کو موقع ملا انہوں نے اپنی اقتدار پر مکمل بھروسہ کرکے اقتدار اعلیٰ سے دعا اور امیدکی وابستگی ظاہرکی ہے۔ان سطور میں سابقہ دورِ حکومت کی شاہی نامے راقم طراز کروں تو مضمون کی اہمیت سے زیادہ اردو زبان کی کم تری تصور کی جائیگی۔ گزشتہ صلوات اور ’’ اب‘‘ احتیاط کی ضرورت فہم کی بات ہے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہماری سر زمین ترقی اور دیرپا حل سے دور ہونے کی عادی ہو چکی ہے۔ اب تو بس صرف اور صرف اقتدار اعلیٰ پر ہی ایمان مرکوز کرنا ہو گا۔ کہتے ہیں اچھے لیڈر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ماضی اور دوسروں سے نہ صرف سیکھنے کا جستجو رکھتے ہیں بلکہ کامیاب رہنا بھی چاہتے ہیں۔ تو لیجئے ہم یک سوچ ہو کر ارضِ گلگت بلتستان کی ’’ سپوتوں‘‘ کا سیاسی تجربہ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ ماضی والوں نے ماضی سے کیا سیکھنے کی کوشش کی اور اب ماضی سے کیا سیکھا جا رہا ہے۔ جناب والا ! CPEC کا عظیم منصوبہ جن مراحل سے گزر کر آیا ہے ان میں جناب سید مہدی شاہ صاحب کی دور ِ ’’ اقتدار‘‘ میں 72فٹ کی شاہراہ جہاں پر ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ تک ممکن تھی جسے زرداری ’’صاحب‘‘(جنہوں نے نئی سیٹ اپ دیکر ہماری بجٹ کا گلا گھونٹنے کا منظم تحفہ ہمیں دیا تھا) کی امریکہ سے دوستی یا کمیشن کی ڈیل کر کے اور مہدی شاہ حکومت کی لاچاری کے بہترین ثبوت ہمیں دیتے ہوئے 35 فٹ تک لے آئی۔ لیکن ’’جس ‘‘ نے اپنی ماضی سے نہیں سیکھا انکی قسمت کا آنکھوں دیکھا حال قریہ قریہ عیاں ہے۔ اب آپ جناب کی موجودہ دور میں اس شاہراہ پر یہ عنایت کرنے کی مکمل تیاری ہوچکی ہے کہ سر زمین گلگت بلتستان پر بوجھ کم کر کے اس شاہراہ کی چوڑائی 22 فٹ کر دی جائے گی۔
جناب والا! ماضی سے تو سیکھا جاتا تھا مگر آپ بھی وہی سیکھنا چاہ رہے ہیں جو ماضی نے ماضی والوں کو سکھایا تھا۔ کیا اس خطے کی مستقبل کیساتھ زیادتی کر کے آپ اپنی سیاسی بصیرت اور قابلیت کا ثبوت دینا چاہتے ہیں؟ کیا یہ آپکی کابینہ کی ملی بھگت ہے جو ماضی کی طرز پر سیکھتے ہوئے دہرانے جا رہے ہیں؟ کہیں یہ آپکی سیاسی تربیت میں فقدان کی وجہ سے تو نہیں؟ جن علاقوں تک سی پیک منصوبے کے ثمر پہنچانا طے تھا وہ اب صرف کاغذ ی کاروائی تک محدود رکھی جا رہی ہے ۔آپکے ایوان میں بیٹھے چند ’’ منتخب لیڈرز‘‘ جن کا تعلق ایک پسماندہ ضلع کی سادہ لوح مزاج سے وابستہ اور یقیناًنا مکمل آشنا ئی رکھتے ہیں ۔جو اب ایسا لگتا ہے کہ انہیں ا س علاقے کی مستقبل کیساتھ زیادتی کے لئے منتخب کیا ہو۔ اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں کی عوام سے سنگین غلطی سرزد ہوئی ہو۔ آپکی گزشتہ مہینے کی سرکاری دورے کے دوران ’’مقامی لیڈران‘‘ کی کردار کشی قابل بیان نہیں تھی۔ کسی کو اپنے چہیتے یا سیاسی الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ چیف سپورٹر کو ٹھیکہ دینے کی فکر تھی تو کسی کو عام سپورٹر کو نوکری دلانے کی بڑی پرواہ تھی جنہیں آپ کے سامنے عدالتی گواہوں کی طرح پیش کرتے رہے اور آپکی کانوں میں سرگوشی بھی کرتے رہے۔ عوام کی جانب سے کوئی مفادہ عامہ کی بات آئی نہ ہی علاقے کی لا شعورِ کُل، تجربہ سے نا بلد اور فکر سے بالا ترنمائندوں کی طرفسے کوئی روشن مستقبل سوچ سننے میں آئی۔ جناب قائد گلگت بلتستان! یہاں کے عوام میں ان نمائندوں کے لئے عزت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے جسکی مثال آپ نے ’ ’ ماضی قریب ‘‘ میں پولو کی اختتامی تقریب میں اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سماعتوں سے محضوص کئے تھے۔ ہم خوفزدہ ہوتے جا رہے ہیں کہیں ان پانچ سالوں میں اس ضلع میں چند پل اور دو سٹرکیں میٹل کر کے قلم کی بوجھ دوسرے آنے والے نمائندے کو سونپ نہ دے۔

جناب والا! اگر آپ کا ایوان بھی ماضی سے ماضی ہی سیکھیں گے تو ہمارے گلے شکوے اپنے پاس رکھتے ہیں۔اگر ماضی سے سیکھ کر کچھ تبدیلی کا سوچتے ہیں تو ہم آپ جناب کی توجہ ایک ایسے پٹی پر مرکوز کروانا چاہتے ہیں جہاں آپ الیکشن کے فوراً بعد سرکاری پروٹوکول میں تشریف لائے تھے۔ یہ ہمارے لئے خوشی کی بالکل بات نہیں تھی کہ آپ تشریف لائے بلکہ آپ کی تشریف آوری پر آپ کی تعلیم پر اصلاحات کی گفتگو ہماری خوشی کی وجہ تھی۔ بلاشبہ ترقی کے لئے ہمیں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسکی شروعات آپ اور آپکی ٹیم میں شامل ناتجربہ کار ( چند نمائندے)کی میز پر ہی شنوائی ہو سکتی ہے۔ جس قسمت مسخ شدہ پٹی کی بات کرنا چاہ رہا ہوں وہاں کی صرف تعلیمی گریہ و زاری سننے کے لئے آپ کو مستعد رہ کر اپنی ضمیر سمیت ہوش و ہوس کو قابو میں رکھنا ہو گا۔ آپ کے لئے دکھ کا مقام ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار ترقی کے دور میں بھی آپ ایک ایسے حلقے پر حکومت کر رہے ہیں جہاں 28 کے قریب ـ ’’ عالیشان‘‘ مڈل سکولز موجود ہیں۔ جن سکولوں کو مڈل سکول کہہ رہے ہیں ان میں سے اکثر میں طلباء کی تعداد نظام تعلیم پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز گھٹتی جا رہی ہے ۔ مگر کلاسوں کی تعداد مڈل نہیں بلکہ ہائی کلاسسز کی ہیں۔ میں صدقے جاواں ان سکولوں کے انتظامی کمیٹیوں پر جنہیں آرٹس کی کلاسوں کے لئے نتائج پر رونا پڑتا ہے وہاں سائنس کی کلاسیں چلا رہی ہیں اور اوپر سے ظلم یہ کہ اساتذہ کی تنخواہوں یا انکریمنٹ روک دی جاتی ہے با عوض نتائج کی خرابی۔ ان سکولوں میں اساتذہ کی تعداد اوسطاً پانچ ہیں جبکہ یونیسکو کی تعلیمی ماہرین ہر 25 بچے کو ایک استاد کا ہونا لازمی قرار دیتا ہے جو کہ پاکستان میں بھی آئینی اور قانونی جواز ہے۔ جناب والا ! حیرت یہاں ختم نہیں ہوتی۔ کسی ایک ’’براے نام ہائی سکول‘‘ مڈل سکول میں بھی بالغ لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے واش روم نہیں ہے۔ اگر غلطی سے کہیں موجود ہو تو انکی حالتیں دیکھنے کے لائق ہی نہیں۔ جن اداروں سے قوم کی مستقبل سنوارنی ہو ان اداروں کی باونڈری وال کا صرف جنازہ باقی ہے بلکہ اکثر بچے باونڈری وال سے آشنائی ہی نہیں رکھتے۔ رواں سال میں تعلیمی نظام میں بہتری کی کچھ امکانات نظر آنے لگے ہیں مگر ضرورت سے زیادہ وقت لے رہے ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر ایجوکیشن صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں تو مضمون ناقصی کی تمام شرائط پوری کریں گے۔جن کی کوششیں اور صاف و شفاف خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ مگر راقم آپکی ضمیر کی متوجہ اس طرف چاہتا ہوں جہاں ایک باشعور لیڈر یا آدمی کی ضمیر جاگنے میں دیر نہیں کرتی۔ یتیم علاقے کی خستہ حال بے یار و مددگار 28 ’’ برائے نام ہائی سکولوں‘‘ میں زیرِ تعلیم بچے آپ جناب اور ’’ علاقہ پرست وزیرِ تعلیم‘‘ کی طرف سوراخ شدہ کھڑکیوں کے جالیوں، بارش کی پانی ٹپکتے رنگ برنگے چھت تلے ، ٹوٹی پھوٹی چند کرسیوں پر بیٹھے، واش روم کی سہولت پر نوحہ کناں ہوتے، روشنی اور پنکھے کی خواب بھنتے، بلیک سکرین کمپیوٹر کی تصویر خیالوں میں سمائے، استادوں کی عدم دستیابی میں انگلیوں کو دانتوں میں دبائے انتہائی حسرت بھری خاموش نگاہوں سے سوالات کی بوچھاڑ کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

ان بچوں کا چہرہ پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کیونکہ ان پر بے بسی کے سوالات نقش ہیں۔ امجد کی نظروں میں کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب بھرپا کرنے کا طوفان اُٹھتے نظر آتے ہیں۔ ساجدہ کو سڑک پر چلتے اُن خواتین کی خدمت کا خیال کھائے جا رہی ہے جو اپنی صحت کے حوالے سے بالکل نالاں اور بے بسی میں سفر کرتے نظر آرہی ہیں۔ بھلا شاہینہ کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے ہیں۔ وہ تو پر لگائے اڑان لینے کو تیار ہے جو اس پریشان معاشرے کی ہر خاتونِ خانہ کے لئے کسی معجزہ کی تلاش میں کھوکر پانا چاہتی ہے۔ جناب والا! موسیٰ کی خموش چہرے کا تاثر سب سے بھیانک تھا۔ وہ اپنی سکولوں میں ہر وہ سہولیات دینے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور ساتھ ہی حقیقی یعنی موجودہ زمانے سے اپنی سوچ کا موازنہ کرتی ہے تو اس کی عقابی آنکھو ں میں غصے کی نہ ختم ہونے والی ایک لہر ابھر آتی ہے۔ وہ تو آپ جناب سے سوال کر کے ہی دم لینا چاہ رہے ہیں۔ اس کاسوال عجیب مگر برحق تھے۔ موسیٰ آپ سے پوچھتا ہے کہ جن سکولوں میں ہر وہ سہولت آپ دیتے آئے ہیں جسکی ان سکولوں کو فی الحال ضرورت بھی نہیں پڑی۔مگر ہماری سکول میں موجود بچے تو ہمارے ’’پیارے‘‘ قریبی ملک کے فراری بچے ہیں۔ ہمیں یہ حق بالکل نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ ہم تو بارڈر پر اپنی آباء و اجداد کھونے کے لئے تیار ہی نہیں تھے جسکی وجہ سے آپکو آپکی شہر میں سکھ کا سانس نہ مل سکا۔ ہم تو نا اعوذ بااﷲ کلمہ گو بھی نہیں لگتے ۔ شائد ہمارے آباء و اجداد نے یہ بڑی غلطی کی تھی کہ جب بھی ملکِ خداداد پاکستان کو ضرورت پڑی ، سب سے پہلے میدان میں کود کر گلیشرز اور اونچی ترین محازوں پر یک صف ہو کر پاک فوج اور اپنی دھرتی ماں کی خاطر اپنی جوانی قربان کی تھی۔ ہم یتیم ہیں اس لئے آپکا رویہ درست ہے۔ اگر ایسی حرکت ہمارے باب دادا کی موجودگی میں کرتے تو شائد ہماری نششت میں ٹوٹی کرسی اور ٹپکتے چھت نہ ملتے۔ شمائلہ کا خواب اسکی چہرے پر سے بکھرتی نظر آرہی ہے۔ بائیولوجی کی تجربات کے لئے وسائل کی کمی کی وجہ سے پودوں اور تتلیوں پر لا چار نظریں مرکوز کئے بیٹھی ہیں۔ رخسانہ کو اپنی والدین سر آنکھوں پر بٹھاکے رکھتی ہیں کیونکہ وہ اپنی والدین کی شہزادی ہے ۔ لیکن وہ جب سکول جاتی ہے تو وہ سارا پیار، محبت، توجہ، خلوص اور ماں کی ممتا سارے گھر سے نکلنے سے پہلے دروازے پر لٹکا کے جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ سکول جا رہی ہے جہاں ماں کی ممتا، عزت نفس، حقوقِ انسانی و نسواں جیسی بڑے بڑے الفاظ نایاب سمجھے جاتے ہیں۔ خیر چھوڑیئے آپکو ان باتوں سے کیا لینا دینا۔ ہم آپکی بات کرتے ہیں،آپ بھی اپنی شہزادی کو بھلا کیوں کر کسی چیز کی کمی ہونے دیں۔ وہ تو آپکی جان ہو گی جیسے رخسانہ اپنی ابو کے جان ہیں۔ بہت جلد وہ آپکی پہچان بن جائیگی، جیسے طاہرہ اپنی خاندان کی پہلی لڑکی جو ڈاکٹر بن کر اپنی والدین کی پہچان بنے گی۔ وہ آپکا غرور، وہی آنکھوں کا تارا وہی آپکی زندگی ہوگی جیسے شمائلہ،نادیہ اور سینکڑوں ایسے سائرہ جو اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا ہے۔ آپکی شہزادی جیسی خوش قسمت کو ہم فاطمہ نہیں سمجھ اور کہہ سکتے کیونکہ فاطمہ اور مریم تو ان آسائیشوں کو صرف اپنی اردو کی کتابوں میں کہانیوں کی صورت میں پڑھتی ہیں۔ آپکی شہزادی کو سکول کی چاردیواری کی کیوں کر فکر ہو گی اور کیوں کر اسے اپنی صحت اور عزت نفس کی پرواہ ہوگی۔ اسے تو آپ جیسے طاقت اور دولت سے مالا مال وزیرِ اعلیٰ ہونے کا شرف حاصل ہے جو اپنی شہزادی کے لئے اچھے سے اچھے سکول کا بندوبست کرتے ہیں جہاں دورِ جدید کے تمام تقاضے پورے ملتے ہیں۔ عزت نفس کا خیال کھائے جا رہے ہیں تو صرف اور صرف یتیم خلقہ کی نادیہ، شمائلہ، طاہرہ اور ہر وہ سائرہ جو واش روم کو صرف گھر پر دیکھتے ہیں باقی دورانِ سکول کھلی فضاء میں حاجتیں بروے کار لاتے ہیں۔ یہ اسلئے کیونکہ آپ کو اپنی شہزادی کے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ دنیا کی تاریخ میں کسی شہزادی کا اصول نہیں رہا کہ وہ علم کے لئے گھر سے نکلے اور ایسی درسگاہ میں جا بیٹھے جہاں سینکڑوں طاہرہ اور نادیہ فاطمہ کے ہمراہ ٹپکتے چھت تلے آدھی فٹ لرزتے کسی ویران قبرستان میں نکلتی آوازوں جیسی کرسیوں پر بیٹھے،
خستہ حال کمرہ جماعت میں انتہائی سکون سے علم کا سفر جاری رکھ لے۔ یقینا وہ ہرگز ایسا نہیں چاہتی اور نہ ہی ایسی احمقانہ عمل شاہی خاندان کے روایات میں سے ہیں۔

جناب والا !
جن سکولوں میں اکبر، علی، اکرم اور محمد کریم جیسے مستقبل کے درخشاں ستارے اپنی قوم اور ملک کے لئے بہتر لائحہ عمل بنانے کا خواب بھنتے نکلے ہوئے ہیں ان سکولوں کی اساتذہ پر رحم کیا جائے۔ انہیں مڈل درجہ کی مضامین کے لئے بھرتی کر رکھا ہے اور اسی کی ہی تنخواہیں ملتی ہیں اور انکی سالانہ انکریمنٹ بھی اسی نسبت سے ملتی ہے ۔ مگر وہ مراعتیں ہائی کلاسسز چلانے پر بھی من و عین رہیں تو یوں سمجھا جائے تو کوئی قہر نہیں ’’نیم حکیم خطرہ جان، نیم حکمران خطرہ مستقبل‘‘۔ ہمیں مکمل خوف ہے کہ ہماری مستقبل بہت تابناک بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری اساتذہ پر دوگنا بوجھ ڈالا جارہا ہے اور اس بوجھ کے نتیجے میں طلباء کا تعلم بڑھنے سے قاصر ہے۔ قراقرم یونیورسٹی کی سالانہ نتائج اگر متعلقہ استاد کی خراب نکلنے کی صورت میں انکی انکریمنٹ بند کر دی جاتی ہے ۔ ایک تو ہائی کلاسسز کو پڑھوانے کی جبر اوپر سے خراب تنائج پر اسی تنخواہ پر بھی ڈھاکہ ڈالا جاتا ہے۔ جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جناب والا یا تو یہ ہائی کلاسسز اس وقت تک کے لئے ملتوی کر دیا جائے جب تک آپکی حکومت اس اہل نہیں ہوتی۔ اگر اسکے برعکس آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں تو خدا کا واسطہ ان تمام منظور شدہ مڈل سکولوں کو ہائی سکول کا درجہ دے کر ان کلاسسز کے لئے اسی قابلیت کے اساتذہ فراہم کر ے۔ مگر آپکی ضمیر اور شہزادی کا واسطہ، یہ نہ کہیے گا کہ وسائل کی کمی ہو رہی ہے لہٰذا ہم اپنے ’’گھر‘‘ کو پہلے پھر نادیہ اور شمائلہ کا سوچیں گے۔ اس بات کو لکھتے ہوئے راقم کا قلم افسوس اور ملامت کے آنسو رو رہے ہیں جبکہ اس سے لکھی ہوئی الفاظ کاغذ پر مہر ثبت ہونے سے کترا رہے ہیں۔ جدید دور کی بنی ہوئی یہ کاغذ بھی شرم سے پانی پانی ہو رہی ہے اور لفظوں سے جھگڑا کر رہے ہیں۔ انکی لڑائی اور شرم کا مدعا یہ ہے کہ اس دورِ جدید میں بھی ایک ایسا یتیم حلقہ بھی وجود رکھتی ہے جہا ں حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک بھی سرکاری ہائی سکول نہیں بنا سکا۔ آپ کو یہ بات جان کر حیرانی ہو گی کیونکہ یہ بات ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیتا ہے اور قابلِ یقین بھی نہیں ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس یتیم حلقے میں واقعی میں کوئی ایک سرکاری منظور شدہ ہائی سکول موجود نہیں ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات تو احمقانہ ہو گی کیونکہ جہاں ہائی سکول کا درجہ نہیں وہا ں ان باتوں کا سوچناسود مند نہیں۔ جناب والا! آپ نے بڑی عنایت کر دی کہ وزارت تعلیم کا قلمدان اس ضلع کی فرزند کو سونپ دی۔ مگر جس کو قلم سونپی ہے وہ تعصب کی عینک پہنے صرف این ٹی ایس کو متعارف کرانے کا فخر اور میرٹ کی بالادستی کا نعرہ لکھے پھر رہے ہیں۔ جس حلقے میں ایک بھی سرکاری منظور شدہ ہائی سکول نہیں ہے اس حلقے کی سکولوں کے بارے میں ابھی تک ان صاحب کی توجہ قیمتی بنی ہوئی ہے۔ سکولوں میں قدم رکھنا تو دور کی بات ان نام نہاد ہائی سکولوں میں اساتذہ کی کمی پر الف تک لکھنا گوارہ نہیں سمجھا ہے۔ ہماری بہنیں، بھائی، بچے اور مائیں سب آپ جناب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا آپکی’’ شہزادی‘‘ اس دور میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے مستفید نہیں ہو رہے ہیں؟ اگر نہیں ہو رہے ہیں تو ہم یہ گلہ ہی نہیں کرتے کہ ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی، ادب و ثقافت، تحقیق و تجربے کے موقعے سے کیوں محروم رکھا ہے؟مگر آپ اور آپ کے شہر کے بچے پرائمری سے ہی ان سہولیات سے استفا دہ حاصل کر رہے ہیں۔ تو ہمارے بچوں کا کیا قصور ہے جو ان سہولیات سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے؟کیا انہیں انسانیت کا درجہ دینا گوارا نہیں یا یہ لو گ کسی دوسرے قریبی ملک سے فرار ہو کر آئے ہیں؟یہی وہ نڈر لوگ ہیں جو سیاچن اور کارگل جیسی بارڈرز پر دشمن کو ٹھکانے لگانے کے لئے ہر لحاظ سے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ کہیں یہ اُن قربانیوں کا صلہ تو نہیں بخش رہا ؟ یا شائد ہمیں ( گنگ چھے حلقہ تین)کو گلگت بلتستان کا حصہ ہی تصور کرنے سے کترا رہے ہیں؟ہمارے بچے تعلیم سے کیوں محروم رکھے جا رہے ہیں؟ اب تو وہم ہونے لگا ہے کہ وزارت تعلیم کی قلمدان کو آپ جناب کا مکمل حکم نامہ جاری ہوا ہو گا کہ اس حلقے کو خصوصی جبکہ گنگ چھے کو عمومی طور پر تعلیی امور میں ممکن حد تک نظر انداز کرتا رہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان صاحب میں صلاحیت ہے نہ ہی احساس، شعور ہے نہ ہی تجربہ یا پھر وہ جان بوجھ کر ان بچوں سے سوتیلی ماں جیسی سلوک کر رہے ہیں ۔میرے مولا۔ اب کچھ باتیں صرف کتابوں اور آئین کے سطور میں ہی اچھے لگتے ہیں جیسے ’’ مفاد عامہ کا خیال رکھنا حکومت اور کابینہ کا فرض ہے‘‘۔ جناب والا ! ان امور پر فوری اور ترجیحاً تصفیہ طلب حل درکار ہیں۔ بصورت دیگر میجر امین کی سکردو گلگت روڈ کی تمنا سمیت میری ہاسکول کا مقصد لئے ہم دونوں ’’ خود کشی کریں گے‘‘ ۔ ( جاری ہے۔)
Kamal Anjum
About the Author: Kamal Anjum Read More Articles by Kamal Anjum: 13 Articles with 13755 views I belong to skardu Baltistan and now I am a student of Masters in Educational Planning and Management from NUML Islamabad. 2013.. View More