حضور والا ۔میں ملک بے آرام کی ایک ادنی
شہری ہوں ۔ایک وقت تھا جب میرا ملک ۔ملک آرام تھا یہاں کی فضا میں خوف و
ہراس نہ تھا ۔ہم چین کی نیند سوتے تھے ۔پھر آہستہ آہستہ ان دیکھی غلامی کی
زنجیروں میں جکڑے گئے اس میں کچھ غلطی ہماری بھی تھی ہم نے ایسے لوگوں پہ
اعتماد کیا جو دولت کے پجاری تھے انہوں نے آکے وہ ات مچائی کہ الا امان و
الحفیظ۔ہمارے اعتماد منہ تکتے رہ گئے ۔خیر سوچا اگلی بار شاید کچھ بہتری
آجائے مگر کتھوں جی پھر وہی خیر جناب والاروتے دھوتے ہم نے چار سال گذار
دیے اس دوران بہت ہلا گلا مچتا رہا تبدیلیوں کے نعرے لگے دھرنے دیے گئے ۔ہم
اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں کے ہاتھوں زک اٹھاتے رہے اپنے بال و پر کھو
دیے ۔ہمارے مستقبل کے گلوں کی گردنوں پہ خار کے نیزے کھبو کر لہولہان کر
دیا گیا ۔سیاسی تشفیوں نے زخموں پہ مرہم کیا لگانا تھا قیادت اپنی فسادانہ
حرکتوں سے ہی الٹا ہمارے زخموں پہ نمک چھڑکتی رہی۔انہوں نے تو جو کرنا تھا
سو کیا ۔مگر حضور والا قدرت نے اس ملک کا ذمہ دار آپ کو بنایا ہم نے تو
نمائندے منتخب کیے ان نمائندوں نے آپ کا چناؤ کیا۔ سو سارا بار آپ کے
کندھوں پہ تھا آپ خلیفہ مملکت ہیں ۔یاد کریں حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے
فرمایا تھا اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرے گا تو قیامت کے دن اس
کا بار بھی مجھ پہ ہو گا تو جناب کیا آپ بطور خلیفہ اس عہد سے مستثنی ہیں
بلکل نہیں ۔ آپ جوابدہ ہیں ہمارے سامنے ہی نہیں اس ذات بابرکت کے سامنے بھی
یہ نے آپ کو یہ مرتبہ عطا کیا ۔ قصہ مختصر جناب عالی قدر ۔آپ خود اس بات کے
گواہ ہیں کہ ہم نے چار سال میں آپ کا دیدار بمشکل گنتی کے شمار دن ہی کیا ۔اس
کے علاوہ آپ کی مو جودگی اور غیر موجودگی کا توازن برابر ہی رہا ببانگ دہل
تو یہی کہوں گی کہ آپ اپنے اختیارات سے انصاف نہیں کر رہے آہ فغاں بپا ہو
پھر بھی آپ کی گوشہ نشینی خلوت سے جلوت میں نہیں بدلتی۔اور آپ کی ملک اور
عوام سے اتنی بے اعتنائی سمجھ سے باہر ہے۔ذرا حجرہ مقیم سے باہر آ کر
دیکھیں کہ آخر ہو کیا رہا ہم کس طرح اپنے مدار سے ہٹ کر غلام گردشوں کا
شکار ہیں ۔آپ کے پاس اختیار ہے عہدہ ہے مگر اس کا استعمال نہیں آخر کیوں
کیا آئینی ترمیم نے آپ کواسقدر بے دست وپا کر دیا کہ آپ کٹھ پتلی بن گئے کہ
سال میں ایک دفعہ محض تاریخ میں لکھنے کی خاطر آپ کا دیدار کروا دیا جائے
جناب عالی آخر ماجرا کیا ہے ہمیں بھی کوئی خیر خبر دیں۔
خدارا کوئی تو حل نکالیے اس ملک کو کچھ تو دیں ذیادہ نہیں تو
بدعنوانی۔کرپشن۔سفارش۔اقربا پروری۔بیروزگاری سے ہی نجات دلا دیں ۔کچھ تو اے
صاحب دل اس پہ کرم کر
اس مٹی کے وجود سے باقی ہے نمو تیری۔
یہ نہ کہ بہت دیر ہو جائے کیا وہ آگ جس میں آج ہم جل کر خاکستر ہو رہے اس
ذرا سی بھی تپش آپکے ایوان تک نہیں جاتی ؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ کے قصر کی
فصیلیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ آہیں جو عرش العلی کو ہلا دیتی ہیں آپ کی
فصیلوں کو پار کرنے سے قاصر ہیں؟ اگر ایسا ہے تو افسوس صد افسوس اس کے سوا
کچھ نہیں خدارا جاگیے کچھ تو حق ادا کیجیے اس ملک کا ۔کچھ تو قرض چکائیے اس
دھرتی ماں کا۔ تاکہ آپ بھی روز جزا سرخرو ہوں۔
|