3 نومبر 2016ء جمعرات کی صبح کراچی کے
نواحی ریلوے اسٹیشن لانڈھی کے قریب زکریا ایکسپریس ٹریک پر پہلے سے کھڑی
فرید ایکسپریس سے جاٹکرائی ۔جس کے نتیجے میں زکریا ایکسپریس کے انجن سمیت
چار بوگیاں بالکل تباہ ہوگئیں ۔(گویا اس حادثے میں ریلوے کو ایک ارب کا
نقصان اٹھانا پڑا ) بائیس مسافر موت کی وادی میں جا سوئے اور ستر کے لگ بھگ
زخمی ہوئے ۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک بار پھر پہلے سے رٹا
ہوا بیان دھرادیا کہ ڈرائیور ہی قصور وار ہے ۔ جبکہ ڈرائیور نے کہا کہ مجھے
سامنے کھڑی ہوئی گاڑی نظر نہیں آئی ۔ ڈرائیور کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا
پر کسی دل جلے نے ایک پوسٹ اپ لوڈ کی ۔" جیسے سعد رفیق کو نواز شریف کے
کرپشن دکھائی نہیں دیتی اسی طرح زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور کو ٹریک پر کھڑی
گاڑی نظر نہیں آئی ۔یہ تو ایک طنز تھی اور طنز کی حیثیت سے ہی اسے
دیکھاجانا چاہیئے ۔ اس سے پہلے عوام ایکسپریس کا ملتان کے قریب جو بدترین
حادثہ ستمبر کے مہینے میں ہوا تھا۔ اس حادثے کی ذمہ داری بھی ڈرائیور پر
ڈال کر باقی افسران اور بوسیدہ سسٹم کو بچا لیا گیا ہے۔
اس مرتبہ بھی زکریا ایکسپریس کے ڈرائیور کو ذمہ دار قرار دے کر اصل مجرموں
کو چھپایا جارہاہے ۔کہا یہ جارہا ہے کہ ڈرائیور پر نیند کی غنودگی طاری تھی
۔ اگر وہ بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرے گا تو یقینا اس پر نیند طاری ہو گی ۔
سٹاف کی قلت پر قابو پانے کے لیے رننگ سٹاف بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر
مجبور ہے اور اگر کوئی ملازم بیمار ہوجاتاہے تو ڈیوٹی چوبیس گھنٹے بھی
ہوسکتی ہے ۔ پہلے معمول کے مطابق ڈرائیورسمیت تمام رننگ سٹاف دن میں تین
الگ الگ شفٹوں میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے ۔ بے شمار ملازمین
ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ بھرتی پر پابندی کی وجہ سے باقی ماندہ ملازمین سے ہی
کام چلایاجارہاہے ۔جس کی وجہ سے حادثات ایک معمول کی شکل اختیار کرچکے ہیں
۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بات وفاقی وزیر ریلوے کے علم میں لانا
ضروری سمجھتا ہوں کہ رننگ سٹاف میں ڈرائیور ، کیبن مین ، اسسٹنٹ اسٹیشن
ماسٹر ( اے ایس ایم ) کے فرائض بہت حساس نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے بارہ بارہ
گھنٹے ڈیوٹی لینا نہ صرف زیادتی ہے بلکہ وقت کی زیادتی سے مستعدی میں حد
درجہ کمی آ جاتی ہے ۔اسی طرح ایک ٹرین کے ساتھ اگر ایک کی بجائے دو
ڈرائیورمقرر کیے جائیں تو باری باری کام چلا سکتے ہیں۔ چونکہ ٹرین میں سوار
ہزاروں مسافروں کی جان ڈرائیور کی ہتھیلی پر ہوتی ہے۔ اس لیے یہ اقدام بہت
ضروری ہے ۔اسی طرح اے ایس ایم ، کیبن مین ، پھاٹک والا کی ڈیوٹی بھی صرف چھ
گھنٹے ہونی چاہیئے تاکہ وہ لوگ بھی اپنے فرائض کو انتہائی مستعدی اور ذمہ
داری سے انجام دے سکیں ۔ اس سے بھی بڑا ظلم سگنل ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین پر
ہورہا ہے جنہیں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر مجبور کیاجارہاہے ۔ وہ جہاں بھی
تعینات ہوتے ہیں رات دن وہیں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔کیا وہ انسان نہیں
ہیں کیا ان کی معاشرتی ذمہ داریاں نہیں ہیں کیا وہ بیمار نہیں ہوسکتے ۔
لیکن ریلوے سگنل ڈیپارٹمنٹ کے تمام ملازمین کی کوک فریاد سننے کے لیے تیار
نہیں ہے ۔
مزید برآں پشاور سے کراچی تک سٹاف کے رہائشی کوارٹر مسمار ہوچکے ہیں جس کی
وجہ سے رننگ سٹاف کی اکثریت ذہنی طور پر ڈسٹرب اور منتشر رہتی ہے ۔پلیٹ
فارم پر چارپائیاں بچھا کر بے چارے کتنی نیند پوری کرسکتے ہیں۔انگریز پاگل
نہیں تھے جنہوں نے ہر ریلوے اسٹیشن پر ملازمین کی رہائش کے لیے کوارٹر
تعمیر کر رکھے تھے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جہاں بھی کوارٹرز مسمار
ہوچکے ہیں یا بوسیدہ حالت میں ہیں ان تمام کو از سر نو تعمیر کرکے ملازمین
کو رہائش کے لیے فراہم کیے جائیں۔اس کے علاوہ دور دراز اسٹیشنوں پر تعینات
ملازمین اور ان کے بیوی بچوں کو صحت کی میعاری سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ آج
میڈیکل سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے لیکن ریلوے ملازمین پچھلی صدی کے حالات
کے مطابق ہی زندگی گزار رہے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے ۔میری رائے میں جس
طرح ان ملازمین کو ہر مہینے کیشئر ٹرین پر سوار ہوکر بار ی باری ہر اسٹیشن
پر اتر کر تنخواہ دیتا ہے اسی طرح ہفتے میں ایک بار ایم بی بی ایس ڈاکٹر
اپنے معاونین کے ہمراہ تمام ضروری ادویات ساتھ لے کر ڈویژن کے تما م
اسٹیشنوں پر تعینات ملازمین اور ان کے خاندان کو مفت چیک کرکے انہیں علاج
کی سہولتیں فراہم کرے ۔ اس مقصد کے لیے کیرن ہسپتال لاہور کے ڈاکٹروں کی
خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں ۔
ڈی ایس کراچی نے حادثے کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ
کراچی اور حیدر آباد میں ریلوے کا آٹو لاکنگ سسٹم نصب ہے۔ اگر سگنل خراب ہو
تو وہ خود بخود سرخ ہوجاتاہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سگنل اگر پہلے ہی سرخ
تھا تو پھر اس کے خراب ہونے کا جواز کیا بنتا ہے ۔ مشاہدے کے مطابق جب کوئی
بھی ٹرین ہوم سگنل عبورکرکے پلیٹ فارم پر پہنچتی ہے تو کیبن مین اوٹر اور
ہوم سگنل کو اپ کردیتا ہے اور اس ٹرین کے لیے سیٹ کیے جانے والے تمام کانٹے
ریورس کردیے جاتے ہیں ۔ پھر کانٹے اس وقت دوبارہ سیٹ کیے جاتے ہیں جب
کنٹرولر کی طرف سے اے ایس ایم کو کسی گاڑی کی آمد کی اطلاع ملتی ہے ۔پلیٹ
فارم پر جو لائن بھی خالی ہوتی ہے اس پر گاڑی کی آمد کا حکم بذریعہ سلاٹر
کیبن مین کو حکم جاری کیا جاتا ہے۔ کیبن مین گاڑی کا نام ، آمد کا ٹائم
اپنے رجسٹر میں درج کرکے متعلقہ لائن کے کانٹے سیٹ کردیتا ہے۔ کانٹے سیٹ
کرنے کے بعد پھر سگنل ڈاؤن کیے جاتے ہیں ۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھی جائے
کہ کانٹے سیٹ ہونے کے بغیر نہ تو سگنل ڈاؤن کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی اپ
کیے جاسکتے ہیں۔ ریلوے کا سسٹم اس قدر محفوظ ہے اور موثر ہے جس پر عمل کرتے
ہوئے ٹرینوں کی نقل و حرکت کو بہت اچھے انداز سے مانیٹر کیاجاتاہے ۔سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ زکریا ایکسپریس اوٹر اور ہوم سگنل عبور کرکے اسٹیشن کی
حدود میں داخل کیسے ہوگئی اور پہلے سے کھڑی فرید ایکسپریس سے کیسے جاٹکرائی
۔ اگر اسٹیشن پر کوئی لائن خالی نہیں تھی تو کنٹرولر نے زکریا ایکسپریس کو
دو اسٹیشن پہلے کیوں نہیں روکا ۔ لائن کلیئر کیوں دے دیا ۔ یہاں یہ عرض
کرتا چلوں کہ جتنی بھی ایکسپریس ٹرینیں چلتی ہیں ان کی نقل و حرکت کو بطور
خاص کنٹرولرخود کنٹرول کرتا ہے ۔ اگر مین لائن پر کوئی گاڑی کھڑی ہو تو
ایکسپریس ٹرین کو لوپ لائن پر لے لیا جاتاہے ۔یہ ممکن ہی نہیں کہ لوپ اور
مین لائن دونوں پر گاڑیاں کھڑی ہوں ۔ اگر ایسا ہو ا بھی ہے تو
زکریاایکسپریس کو پچھلے اسٹیشن پر کیوں نہیں رک لیا گیا ۔ میں سمجھتا ہوں
یہ کوتاہی سراسر کنٹرول کی ہے جس نے ایکسپریس ٹرینوں کی نقل و حرکت کے لیے
مناسب انتظام نہیں کیااور نیند کی وجہ سے دونوں ایکسپریس ٹرینوں کو ایک
اسٹیشن پر پہنچا دیا ۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جیسے رات کے وقت
اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر خود سو جاتا ہے اور اس کی جگہ کانٹے والا ہی کام
سنبھالتا ہے اسی طرح کنٹرول خود سو گیا ہوگا اور اس کی جگہ کوئی نا سمجھ
ماتحت ملازم ٹرینوں کو کنٹرول کررہا ہوگا۔ یہ پاکستان ہے اس میں سب کچھ
چلتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ زنگ آلود سسٹم کی مکمل اوور ہالنگ ہونے والی ہے ۔ نہ
ٹریک صحیح حالت میں ہے اور نہ ہی سگنل سسٹم ٹھیک ہے۔ملازمین بھی معاشی
بدحالی کا شکار ہوکر ذہنی طورپر مفلوج ہوچکے ہیں ۔ سگنل سسٹم ناکارہ
ہوچکاہے جسے فوری طور پر تبدیل کرنے اور جدید ترین سگنل سسٹم متعارف کروانے
کی اشد ضرورت ہے ۔دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے لیکن کنٹرولر آفس اب بھی صدیوں
پرانے طریقے پر ہی کام کررہا ہے ۔جسے سب سے پہلے تبدیل کرنا ضروری ہے ۔
ایک دن میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا تو ٹی وی پر انگلش فلم چل رہی تھی۔ ٹریک
پردوڑتی ہوئی ٹرین کو دیکھ کر میری دلچسپی بڑھ گئی ۔میرے والد چونکہ ریلوے
ملازم تھے اور ہماری زندگی بھی ریلوے کے اردگرد ہی گزری ہے ۔والد صاحب نے
رشوت دے کر مجھے بھی اے ایس ایم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ریلوے حکام
نے رشوت تو وصول کرلی لیکن مجھے اے ایس ایم بھرتی نہیں کیا ۔ یہ میری خوش
قسمتی تھی ۔وگرنہ آج میرے بھی بیوی بچے کسی دور دراز ویران اسٹیشن پر صدیوں
پرانے ماحول میں رہ رہے ہوتے ۔ بہرحال اس فلم کا نام Non stop able train
تھا۔ اس فلم کی کہانی مختصر یہ تھی کہ ایک ٹرین بغیر ڈرائیور کے چل پڑتی
ہے۔ جب کنٹرولر آفس کو اس بات کی خبر ملتی ہے تو ٹرین کو روکنے کے لیے
مختلف طریقوں آزمائے جاتے ہیں ۔جواس فلم کی سنسنی خیزی میں اضافہ کرتے ہیں
۔اس فلم میں بطور خاص کنٹرولر آفس کاکردار بہت نمایاں تھا۔ کنٹرولر اپنے
آفس میں بیٹھ کر نہ صرف ٹرین کی نقل وحرکت دیکھتا ہے بلکہ وائرلیس کے ذریعے
ریلیف ٹرین کے ڈرائیور کو لمحہ بہ لمحہ ہدایات بھی جاری کرتا ہے۔ بہرکیف یہ
گاڑی روک تو لی جاتی ہے لیکن اسے روکنے کے لیے جس مہارت اور تکنیک کا سہارا
لیا جاتاہے وہ واقعی کمال کی بات ہے ۔اس فلم کو دیکھ کر مجھے امریکہ کے
ریلوے سسٹم کو سمجھنے ،دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔
اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ریلوے پربھاری تنخواہ والے افسروں کا
بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور چھوٹے ملازمین کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے ۔
اسی وجہ سے ریلوے کے حادثات حد سے زیادہ بڑھتے جارہے ہیں۔ایک انجن کی قیمت
54 کروڑ پاکستانی روپے ہے ، اب تک ساڑھے تین سالوں میں ایک درجن سے زائد
انجن تباہ ہوچکے ہیں جبکہ بوگیوں کی قیمت بھی کروڑوں میں بتائی جاتی ہے
۔ایک حادثے میں تین سے چار بوگیوں کی تباہی تو ایک عام سی بات ہے ۔ ریلوے
کی آمدنی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا نقصان ہوجاتا ہے ۔
یہ پیپلز پارٹی کے دور کی بات ہے۔ وزیر مملکت ریلوے کا ایک بیان اخبارات
میں شائع ہوا تھا کہ جس نے ریلوے میں سفر کرنا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر سفر
کرے۔ وہ خیریت سے منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں ،اس کے بارے میں ہم
کوئی ضمانت نہیں دے سکتے ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سابق وفاقی
وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے ریلوے میں ان گنت نااہل اور منظور نظر
افرادکو بغیر میرٹ اور آسامیوں کے بھرتی کیا۔ایک جرات مند پرسانل آفیسر نے
اعتراض کیا تو اسے ملازمت سے فارغ کردیاگیا ۔
پیپلز پارٹی دور ریلوے اپنے آخری انجام کو پہنچ رہا تھا جس میں زندگی کی
نئی روح پھونکنے کے لیے خواجہ سعد رفیق دن رات کوششیں کررہے ہیں ۔بدانتظامی
کی حالت یہ ہے کہ چلتی ہوئی ٹرین کے پہیئے الگ ہوکر کھیتوں میں جاپہنچتے
ہیں۔چند ماہ پہلے دوبوگیاں (آرمی کانوائے ) پل کی بوسیدگی کی بنا پر نہر
میں جا گری ۔ جس سے ایک لیفٹیننٹ کرنل ، میجر اور کتنے ہی جوان شہید ہوگئے
۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں قصور جانے کے لیے فرید ایکسپریس پر سوار
ہوا ۔ چلتی ہوئی ٹرین کا انجر پنجر ایسے کھڑک رہا تھا جیسے یہ مرزا کی
بائیسکل ہو ۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے گاڑی اب گری اب گری ۔ کچھ ایسی ہی
آوازیں ریلوے ٹریک سے بھی نکل رہی تھیں ۔ جب یہ ٹرین رائے ونڈ پہنچی تو میں
نے گارڈ سے پوچھا ۔ جناب یہ گاڑی کہاں تک جاتی ہے ۔ گارڈ نے فخر سے بتایا
یہ ایکسپریس کراچی تک جاتی ہے ۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا اس کی چال ڈھال
دیکھ کر یقین نہیں کیاجاسکتا کہ یہ واقعی کراچی تک صحیح سلامت پہنچ جاتی
ہوگی ۔ میری بات پر گارڈ مسکرایا اور اس نے کہا جناب ہم اس بارے میں کچھ
نہیں کہہ سکتے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انجن اور بوگیاں ورکشاپ اور شیڈ سے باہر نکلتی
ہیں تو ان کی ٹھیک طرح سے چیکنگ کیوں نہیں کی جاتی ۔ ہر ورکشاپ میں سینکڑوں
افسر اور ملازمین کام کرتے ہیں ۔ شنید ہے کہ ریلوے ورکشاپوں میں بھی منتھلی
دینے والوں کو بغیر ڈیوٹی روزانہ چھٹی دے دی جاتی ہے ۔ ایسا کیوں ہے ۔ریلوے
کرپشن میں تو سب سے آگے ہے ہی ، رشوت خوری میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ہے
۔ پہلے یہ کہاجاتا تھاکہ کچہری کی دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں لیکن اب ڈی
ایس آفس کی دیواریں بھی رشوت مانگتی ہیں اور پہلے سے بدحال ملازمین کا خون
نچوڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ۔ملازمین نے چھٹی لینی ہو ، تو رشوت دینی
پڑتی ہے ، قرض لینا ہو تو رشوت کے بغیر نہیں ملتا ، پنشن میں حکومتی اضافہ
بھی مٹھی گرم کیے بغیر نہیں ملتا ۔یہ سب کچھ افسران کے سامنے ہوتا ہے ۔وہ
اس لیے خاموش ہیں کیونکہ انہیں بھی رشوت کی رقم کا معقول حصہ مل جاتاہے جسے
وہ بونس سمجھ کر وصول کرلیتے ہیں ۔کسی نے ایک جگہ سے دوسرے جگہ ٹرانسفر
کروانی ہوجب تک فائل کونوٹوں کے پہیئے نہیں لگتے اس وقت تک ٹرانسفر نہیں
ہوسکتی ۔ خواجہ سعد رفیق اپنی طرف سے اصلاح احوال کی کوششیں مسلسل کررہے
ہیں لیکن سسٹم اس قدر کرپٹ ،نااہل اور بوسیدہ ہوچکا ہے کہ نتائج سو فیصد
نہیں حاصل ہورہے ۔
اس وقت جہاں ریلوے سسٹم ( جس میں سگنل سسٹم ، کنٹرولر سسٹم) کو اپ ٹو ڈیٹ
نہیں کیا جاتا ۔ جب تک رننگ سٹاف کے ڈیوٹی ٹائمنگ کم نہیں کیے جاتے ، جب تک
ملازمین کو اسٹیشن کے قریب رہنے کے لیے رہائش فراہم نہیں کی جاتی ، جب تک
ملازمین کے بیوی بچوں کو صحت کی معیاری سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں ۔ اس وقت
تک حادثات کا رکنا تقریبا ناممکن ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھرتی پر
پابندی ختم کرکے خالی آسامیوں پر نیا سٹاف بھرتی کیا جائے اور انہیں تربیت
دے کر رننگ سٹاف میں شامل کیا جائے ۔
|