۹۰۰ کالے چوہے کھا کر سفید بلی حج کو چلی

نوٹ کے بدل کر ووٹ نہ مانگو ، ووٹ کے بدلے چوٹ ملے گی
ساری دنیا کی نگاہیں جس وقت امریکی انتخاب پر لگی ہوئی تھیں اور تشویش تھی کہ کہیں امریکہ کی عظیم ترین جمہوریت بھی ہندوستان کے مودی اور فلپائن کے بدنام زمانہ ڈیٹرائیٹ کی طرح ٹرمپ کو اقتدار سےنہ نواز دے بھارت میں ایک ایسا دھماکہرونماہوا کہ جس نے ٹرمپ کی کامیابی کو مات دے دی ۔ چہار جانب سے مسائل میں گھری ہوئی ناکام و نامراد مودی سرکارکے کالے دھن کے خلاف چھیڑے گئے دھرم یدھ نے ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ۱۰۰۰ اور ۵۰۰ کے نوٹوں پر پابندی نےپہلے تو دنیا بھر کے مغالطوں سے عوام کی نیند حرام کی ا ور اس کے بعد بے انتہا بدنظمی کے مظاہرے نے جینا دوبھر کردیا۔پابندی کے بعد اے ٹی ایماور بنکوں پر لگے قفل سرکار کی عقل پر پڑے ہوئے تالوں کے غماز تھے جن کو لکڑی کی کنجی سے بھی نہیں کھولا جاسکتا۔ ایسے میں عوام کا غم غلط کرنے کی خوشگوار ذمہ داری کسی حد تک سوشیل میڈیاکےلطیفوں نے ادا کی ۔

اس معاملے میں میرے اپنے تجربات بھی لطائف سے کم دلچسپ نہیں تھے۔ مجھے دہلی کے اندر ایک ہاسٹل میں غمخوار پڑوسی نے جب یہ اطلاع دی تومیں یہ مضمون لکھ رہا تھا۔ اس نے کہا ۱۲ بجنے میں ابھی دو گھنٹے باقی ہیں چلوکسی اے ٹی ایم کے کچھ رقم نکال کرلاتے ہیں ورنہ کل بغیر سحر و افطار کےروزہ رکھنا پڑے گا۔ میں نے جواب دیا کہ اس سردی میں میرے لئے باہر جانا مشکل ہےاس لئے میرے لئے بھی دوچار سو نکال کر لے آو تو نوازش ہوگی۔موسم توبس بہانہ تھا اصل رکاٹ سستی تھی خیر دوگھنٹے بعد جب وہ دوست تھکاماندہ لوٹا تو میں نے بڑی امید سےسوال کیا بھائی کچھ ب ہوا کیا؟ وہ خالص بمبیا انداز میں بولا کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ ۔ مودی جی کے فیصلے کی طرح یہ معمہ بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔

میرے استفسار پر اس نے اپنی داستانِ الم یوں بیان کی کہ پہلے تو طویل قطاروں سے سابقہ پڑااور اس کٹھن مرحلے سے گزرنے کے بعد جب مشین کو دو ہزار روپئے دینے کا حکم دیا تو اندر سے ہزار ہزار کےدو نوٹ نکل آئے ۔ میں نے کہا میرے دوست ہوکر بھی آخرتم بے وقوف ہی نکلے۔ چار سو روپئے نکالتے تو مشین ۱۰۰ کے نوٹ دینے پر مجبور ہوجاتی ۳۰۰ تم رکھ لیتے اور ۱۰۰ مجھے دے دیتے دونوں کا کام چل جاتا۔ وہ بولا میں نے کئی مشینوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر ہر کسی نے معذوری کا اظہار کردیا اس لئے کہ مجھ سے پہلے ہی اورتیز طرار لوگ ان پر ہاتھ صاف کرچکے تھے۔ اپنےہمسائے کی ناکامی سے میں اسی طرح خوش ہوا جیسے کہ پڑوسی ملک کے خسارے سے ہر بھارت واسی باغ باغ ہوجاتا ہے۔ میں مودی سرکار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی نااہلی اور کاہلی کو دانشمندی قرار دیتے ہوئے بولا مجھے پتہ تھا یہی ہوگا حالانکہ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا ۔ یہ تو ایسا ہی انکشاف ہے کہ جیسے اچانک بھارت واسیوں کو اچانک پتہ چل گیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کا سوتردھار ہندوستان کا رہنے والا اویناش ہے۔ جس نے اب کی بار ٹرمپ سرکار کے جادوئی نعرے سے ہیلری کی کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا۔

اس زلزلے کا دوسرا جھٹکا مجھے اس وقت لگاجب ٹیکسی والے نے ۵۰۰ کا نوٹ لے کر مجھے ہوائی اڈے لے جانے سے انکار کردیا حالانکہ ہاسٹل سے ائیر پورٹ کا واجبی کرایہ صرف ۴۰۰ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا جب میں نے ہوائی اڈے تک ۲۵ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طےکرنے کا ارادہ کیا توایک اور دوست کو مجھ پر رحم آگیا اور اسنے بتایا کہ شام میں کسی صاحب کو لانے کیلئے ایک گاڑی ہاسٹل سےہوائی اڈہ جارہی ہے اس لئے اگر ڈرائیور کے ساتھ میں نکل جاوں تو ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ آجائیگا چوکھا جیسے کہ نوٹوں کی پابندی سے آرہا ہے۔ راستےمیں مجھے ایک صاحب نے ترکیب سجھائی کہ ہوائی اڈے پر نوٹوں کا تبادلہ ہوجاتا ہے اس لئے میں وہاں سے سعودی ریال یا ڈالر خرید لوں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ مودی جی کرپا سے ائیرپورٹ کے اندراپنے گیٹ تک جتنے بھی ایکسچینج مجھے ملے سب کے سب اے ٹی ایم مشینوں کی مانند ویران پڑے تھے۔ بقول افتخار راغب ترمیم میں معذرت کیساتھ؎
آپ کی نظر کرم کا شکریہ ،اے ٹی ایم سنسان ہوکررہ گئے
۵۰۰ کی نوٹ والے سارے لوگ ، بے سروسامان ہو کررہ گئے

میری کاہلی و قنوطیت میرے پیروں کی زنجیر بن گئی اور اس سے پہلے کہ میں تھک کر بیٹھتا مجھے ہوائی اڈے کی عمارت میں ہلدی رام کی ایک شاندار مٹھائی کی دوکان نظر آگئی۔ میں مودی جی کی طرح اپنی پیٹھ تھپتھپا کر ہلدی رام کی دوکان میں یہ سوچ کر داخل ہوگیا کہ اس مرتبہ خلاف عادت اپنے دوست احباب کیلئے ان بیکار کے نوٹوں سے مٹھائی خرید لوں گا تاکہ ان کی خاطر مدارات کا کچھ تو کفارہ ادا ہوسکے۔ مٹھائی کے چار ڈبے اٹھا کر جب میں ادائیگی کیلئے کاونٹر پر پہنچا تو وہاں موجود ملازم نے مجھ سے کہا صاحب ہم قانون کے پابند ہیں اس لئے پابند ی لگے نوٹ نہیں لےت ۔ میں نے یاددلایا بھائی تم ہوائی اڈے پر ہو جسے بذاتِ خود راجہ جی نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اگر انکار کروگے تو میں چغلی کروں گا ۔ اس نے ڈھٹائی سے کہا صاحب مجھے ہلدی رام جی تنخواہ دیتے ہیں مودی جی نہیں اس لئے میں اپنے مالک کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ۔ آپ جس سے چاہیں میری شکایت کریں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وزیراعظم کی کھلے عام توہین میرے لئے ناقابلِ برداشت تھی میں بولا بھائی یہ تو گزٹ میں بھی لکھا ہےپردھان سیوک کی نہ سہی تو کم ازکم دستوری احکامات کا تو احترام کرو۔ وہ بولا صاحب آپ نے شاید گزٹ کو نہیں پڑھا یہ اجازت صرف سرکاری ہوائی کمپنی کے لئے ہے ہمارے لئے نہیں ۔ میں نے کہا وہاں تو کوئی موجود ہی نہیں ہے تو اس نے مسکراکرجواب دیا جناب سرکار بھی ہر جگہ موجود تو ہے لیکن کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ان کا نہیں آپ کی اپنی نظر کا قصور ہے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا میں جھنجھلا کر کہا تو اب میں اس مٹھائی کا کیا کروں ؟ وہ بولا آپ اس کی ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے کردیں میں بولا بھائی ہم جیسے غریب کی کوئی کریڈٹ نہیں ہوتی اس لئےہمیں کوئی بنک کریڈٹ کارڈ نہیں دیتا ۔ وہ بولا کوئی بات نہیں صاحب آپ باہر جارہے ہیں آپ کے پاس غیر ملکی کرنسی تو ضرور ہوگی اسی سے ادائیگی کردیں۔ یہ تجویز سن کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ میں نے کہا بھائی میں ایک محب وطن شہری ہوں ۔ میرے پاس ہندوستانی کرنسی ہے اب ایسے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں کسی دوسرے ہندوستانی کو بھارت ماتا کی پاون دھرتی پرودیشی کرنسی میں ادائیگی کروں ۔ وہ پھر مسکرایا اور بولا جناب دیش بدل رہا ہے آگے نکل رہا ہے اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

میں جدہ جانے والی فلائیٹ کے انتظار میں سوچ رہا تھا کہ کالا دھن اور نقلی نوٹ جس کے خاتمہ کیلئے ہماری سرکار مشقت کررہی ہے وہ سعودی عرب اور امارات میں کیوں نہیں ہوتے جبکہہمارے ملک میں دنیا کا سب اچھا جمہوی نظام نافذ ہے اور ہماری تہذیب و ثقافت پر فخر جتانے سے ہم کبھی نہیں تھکتے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کا ۹۰ فیصد کالا دھن غیر ملکی بنکوں میں ۵۰۰ اور ۱۰۰۰کے نوٹوں کی شکل میں نہیں بلکہ ڈالر کی کرنسی میں جمع ہےجو دس فیصد ہندوستان کے اندر ہے اس کے صرف ۳ فیصد کی لاگت کے ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹ ہیں ۔ یعنی اگر سارے نوٹ بلیک مان لئے جائیں تب بھی یہ ۳ فیصد ہی ہوتے ہیں حالانکہ یہ ناممکن ہے اس لئے اس مشقت کے نتیجے میں جملہ کالے دھن کا صرف ایک فیصد باہر آئے گا باقی سب یونہی چھپا کا چھپا رہ جائیگا۔ حکومت کے اس قدم سے چونکہ روپئے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہےاس لئے اس کالے دھن کی قدروقیمتبھی اپنے آپ بڑھ گئی ۔ حوالہ والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔انتخاب سے قبل سوئزرلینڈ سےکالے دھن کی واپسی کے خواب دکھلائے گئے تھے لیکن اب وہ انتخابی جملہ بازی میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جرمن حکومت نے توپیشکش کی تھی کہ اگر حکومت ہند گزارش کرے تو وہ ان سرمایہ داروں معلومات فراہم کرسکتی ہےجن کی دولتباہرجمع ہے لیکن حکومت اپنے بہی خواہوں کو ناراض کرنے کی غلطی کیسے کرسکتی تھی اس لئے ایک معمولی خط تک نہیں لکھا گیا۔ اب کالے دھن کو چھوڑئیے اس فیصلے کے صادر ہوتے ہیں شئیر بازار ۱۵۰۰ پوائنٹ گرا اور یہ گرواوٹ جمعہ تک جاری رہی جس سے ہزاروں کروڈ کا سفیددھن ہوا ہوگیا۔

منموہن سنگھ نےگزشتہ ۱۵ سالوں میں کالے دھن کو بغیر کسی شور شرابے کے ملک کی جملہ معیشت کے ۴۰ فیصد سے ۲۰ فیصد تک پہنچا دیا لیکن اس نئے تماشے سےنہ ان سرمایہ داروں کا کوئی نقصان ہوگاجنہوں نےبیرون ملک کالے دھن کو چھپا رکھا ہے اور ان لوگوں کے مفادات پر کوئی آنچ آئے گی جو سرکاری بنکوںکے ۶ لاکھ کروڈ روپیہ قرض دبائے بیٹھے ہیں۔ ان غاصبوں سے دھن واپسی کی خاطر عدالت عالیہ نے مداخلت کی پھربھی جب سنیاّ (یعنی سرکار) بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا کی مصداق وہ محفوظ و مامون ہیں۔ سرکار کے اس احمقانہ اقدام سے تو ان ۸۷ فیصد لوگوں کی دقتوں میں اضافہ ہوا ہے جو مہنگائی کے اس دور میں ۵۰۰ اور ۱۰۰۰کے نوٹ کو لے کر بازار جاتے ہیں اور خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ جن کے دلوں میں کالا ہو وہ کالےدھن کا مسئلہ حل نہیں کرسکتےہیں۔

کالے دھن کے نام پر کھڑا کئے گئے بونڈر کے پیچھے بھوپال کے جعلی انکاونٹر کی بدنامی ، جے این یو کے نجیب نامی طالب علم کا اغواء اوراین ڈی ٹی وی پر ایک دن کی پابندی کے نافذالعمل ہونے سے قبل اٹھانے کی خفت پوشیدہ ہے ۔اس چینل پرپابندی کا مقصد اپنے دشمن نقصان پہنچانا تھا مگر رویش کمار کے باغوں میں بہار کی بے پناہ مقبولیت اور اس کے دوسرے ہی دن پرائم ٹائم پر جے این یوکے اغواء طالب علم مجیب پر خصوصی پرائم ٹائم نے مودی سرکار کے ہوش اڑا دئیے ۔ مجیب کو نظر انداز کرنے والی مفلر والی دہلی سرکار ہوش میں آگئی ۔ کمبھ کرن کی نیند سونے والے دہلی کے گورنر جنرل نے نجیب کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعاون کا یقین دلایا ۔احتجاج کرنے والے طلباء کی حوصلہ شکن پولس کو بھی خوف لاحق ہوگیا ۔ این ڈی ٹی وی کی دلیری اور جرأت مندی کے مظاہرے کے بعدبزدل حکومت نے اپنی عزت بچانے کیلئے چینل والوں کو بلایا اور پابندی اٹھا کر یہ کہہ دیا کہ فریق ثانی کی گذارش پر ایسا کیا گیا جبکہ چینل کی جانب سے اس کی تردید کی گئی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ گزارش کی گئی یا نہیں بلکہ پابندی لگائی کیوں گئی اور لگا ہی دی تھی تو اٹھائی کیوں گئی ؟ اس سوال کا صرف اور صرف ایک جواب یہ ہے کہ سرکار خوفزدہ ہوگئی یعنی ڈرانے والے خود ڈر گئے۔

مودی سرکار کے بزدل اور دغاباز حامی چینل زی ٹی وی کے سربراہنے بھی اس معاملے میں نہایت شرمناک بیان دیا۔ ایسے میں جبکہ میڈیا کے سارے لوگ اپنی مسابقت اور اختلافات کو بھلا کر اس جبر کی مخالفت کررہے تھے زی ٹی وی کے کم ظرف مالک سبھاش چندرا نے کہا یہ پابندی عارضی نہیں بلکہ دائمی ہونی چاہئے۔ جن کے اندر لڑ کر جیتنے کا حوصلہ نہیں ہوتا وہ چاہتے ہیں مخالف کے ہاتھ پیر باندھ کر کامیابی کا پرچم لہرا ئیں ۔ اس طرح گویا ظاہر ہوگیا کہ جس بیساکھی کے سہارےیہ حکومت چل رہی ہے وہ کس قدر کمزور ہے ۔ دونوں کے اندر ہمت اورجرأت نہیں ہے کہ اپنے مدمقابل کو برابر کا موقع دےکر اس کو شکست دے سکیں اسی لئے بزدلانہ حربے استعمال کئے جاتے ہیں جو بالآخر ناکامی و رسوائی پر منتج ہوتے ہیں ۔

مودی جی میڈیا کی اہمیت خوب جانتے ہیں گجرات فساد کے متعلق جب ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا انہیں اس پر افسوس ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں میڈیا کو مینیج نہیں کرسکا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہانہیں اپنے جرائم پر عار نہیں بلکہ پردہ پوشی میں ناکامی کا قلق ہے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے مودی جی کی نقاب کشائی میں این ڈی ٹی وی اور راجدیپ سردیسائی نے سب سے اہم کردار ادا کیا تھا جس کابغض اب بھی ان کے دل میں ہے ۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعداکشر دھام ، جعلی دھماکوں اور انکاونٹرس کا انہوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی خاطر بھرپور استعمال کیا۔گجرات کے اندر وہ جو کچھ۱۲ سالوں تک کرتے رہے وہی سب انہوں نے قومی انتخاب میں بھی کیا اور اب بھی کررہے ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر سرجیکل اسٹرائیک کی کہانی بیچنے میں ب وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ مودی سرکار اس لئے ناکام ہوئی کہ اقوام متحدہ نے سب سے پہلےتردید کردی اس کے بعد پاکستان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو سرحد کے ان علاقوں میں لے گیا جہاں حملے کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ظاہر ہونے والے شکوک و شبہات قومی میڈیا کو متاثر کرنے لگے۔ آگے چل کر بی بی سی کے ایک صحافی کا دورہ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ اس موقع پر مودی جی نے اعتراف کیا کہ ہمارے پاس عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے والامیڈیا نہیں ہے اور اسی کے ساتھ ایک عالمی سطح کا میڈیا ہاوس قائم کرنے کی کھچڑی پکنے لگی ۔مودی جی نے محسوس کرلیا ہے کہ قومی سطح پر ذرائع ابلاغ کی مدد سے عوام کواپنے سحر میں گرفتار کرنے میں انہیں جو کامیابی انہیں ملتی ہے عالمی سطح پر وہ جادو نہیں چل پاتا۔

اس کام کیلئے مودی سرکار کی نظر انتخاب اپنے سب سے وفادار مہرے ارنب گوسوامی پر پڑی اور پھر ارنب کے استعفیٰ کی خبر سامنے آگئی ۔عالمی سطح پر ایک باوقار میڈیا ہاوس قائم کرنے کی ذمہ داری سنگھ پریوار کے علاوہ کوئی اور ارنب جیسے نااہل کو نہیں سونپ سکتا۔ ٹائمز ناؤ کے شروع ہونے سے بہت پہلے ٹائمز آف انڈیا ملک کے ایک نہایت معتبر اخبار تھا ۔ ارنب نے اس کا فائدہ کر اپنی دوکان چمکائی مگر شور وپکار اور جانبداری سے ٹائمز کےبرسوں پرانی ساکھ کوخاک میں ملادیا لیکن چونکہ ٹائمز بھی ایک بنیا اخبار ہے اور اس کو اپنی عزت سے زیادہ دولت عزیز ہے اس لئے ارنب برداشت کیا گیا ۔ جس فرد نے ایک اچھے بھلے میڈیا ہاوس کی اعتباریت کو مشکوک بنادیا اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ عالمی رائے عامہ کا اعتماد حاصل کرسکے گا خوش فہمی نہیں تو کیا ہے؟

کالے دھن کی ہی مثال لیں ۔ ارنب کا اگر اپنا دیش بھکت چینل ہوتا تووہ ساری دنیا کو دکھلاتاسرکار نے اس فیصلے سےکئی ہزار کروڈ روپئے عوام کی جیب سے نکال کر خزانے میں داخل کرلئے ہیں۔ عالمی سطح کے نامہ نگار تو صرف اتنے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ سرمایہ کا استعمال سے،تعلق پوچھتے کہ کیا یہ روپیہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا؟ اس سوال کا جواب مودی سرکار کے پاس نہیں ہے۔ ملک کے لوگ سوچتے تھے کہ اگر کوئی شخص چائے بیچتے بیچتے وزیراعظم بن جائے تو ملک کی نہ جانے کون کون سے مصنوعات کو دنیا بھر میں بیچ آئے گا لیکن گزشتہ ڈھائی سالوں میں ساری دنیا نے یہی دیکھا کہ یہ صاحب جہاں بھی جاتے ہیں کچھ بیچنے کے بجائے خرید کر ہی لوٹتے ہیں ۔ ویسے اگر یہ کوئی ایسی ٹکنالوجی خرید کرلاتے کہ جس سے عوام کو روزگار ملتااور ملک میں خوشحالی آتی تب بھی ٹھیک تھا لیکن یہ تو بیشترسرمایہ اسلحہ خریدنے پر صرف کردیتے ہیں جس سے عوام کا براہِ راست کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ ہتھیاروں کےان سودوں سے دلالوں کامفادضرور وابستہ ہے لیکن ان کےمٹھی بھر ووٹ سے سرکار دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتی ۔ اس لئے اسلحہ کی دلالی سے حاصل شدہ کالے دھن کو میڈیا پر خرچ کے اپنا رنگ اجلا کرنے کی سعی کی جاتی ہے ایسے سفید پوش بھکتوں پر کبیر کا یہ دوہا صادق آتا ہے ؎
تن اجلا من سانولا ،بگلا کپٹی بھیک
یاسو تو کاگا بھلا، باہر بھیتر ایک

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ کالے دھن کا شوروغل کرنے والی سرکار نے ہندوستان سے باہر روپیہ بھیجنے میں دوبار سہولت عطا کی جس کے نتیجے میں بھارت سے باہر بھیجی جانے والی رقوم میں تین گنا کا اضافہ ہوا اور گزشتہ ۱۱ ماہ میں ۳۰ہزار کروڈ روپئے ملک سے باہر روانہ کئے گئے ۔ یعنی غیر ملکی سرمایہ کاری بھارت کے اندر تو نہیں ہوسکی الٹا خود ہندوستانیوں نےبیرونی ممالک میں اپنا قیمتی سرمایہ لے جاکر لگایا یا چھپایا۔ اس طرح آنکھیں موند کر ۹۰۰ کالے چوہے کھانے والی ایک سفید بلی اب حج کیلئے نکل کھڑی ہوئی ہے تاکہ پارسائی کا ڈھونگ رچا سکے ۔ باہر سے بڑی مچھلیوں کا کالا دھن واپس لاکر ملک میں خوشحالی بڑھانے کے بجائے اندر ہی کے ۱۰ فیصد کالے دھن کی دھول عوام کےآنکھوں میں جھونک کر وہ اپنے سیاسی حریفوں کیلئے مشکلات کھڑی کرنے میں مصروف ہےلیکن اس طرح کے کھیل میں ممکن ہے جو گڑھا اس حکومت نے دوسروں کی خاطر کھودا ہے وہ خود اسی کی قبر بن جائے۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223051 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.