مخصوص نشستوں کا الیکشن (ن) لیگ کا امتحان

سیاست بھی عجب کھیل ہے کبھی کبھی سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سخت امتحان درپیش آتے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو بھی اس وقت چکوال میں ضلع کونسل کی مخصوص نشستوں کے انتخاب میں اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ ضلع کونسل کی مخصوص نشستوں کی ووٹنگ 15 نومبر کو ہو گی اور سیاسی پنڈتوں کے مطابق ضلع کونسل کی کسان اور ٹیکنو کریٹ کی سیٹیں ہی فیصلہ کریں گی کہ آئندہ ڈسٹرکٹ چیئرمین کس کا ہو گا کیونکہ ان سیٹوں پر عجب تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے خصوصاً اُن لوگوں کے لئے یہ بڑے امتحان کی بات ہے جو یہ کہہ رہے تھے کہ سردار غلام عباس کے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے سے اب چکوال میں مسلم لیگ (ن) کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اُس وقت میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ سردار غلام عباس کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اسی طرح ہے جیسے ایک عربی اپنے خیمے میں کسی اُونٹ کو تھوڑی سی جگہ دیتا ہے۔ اُس کے بعد اُونٹ خیمے کے اندر ہوتا ہے اور عربی بیچارا باہر…… اور سردار غلام عباس نے اُسی اُونٹ والا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات اور پھر چکوال جلسے کی دعوت دینا جبکہ چکوال مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر شریف النفس اور کٹر مسلم لیگی چوہدری لیاقت علی خان کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ اس وقت ضلع کونسل کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کے لئے چکوال مسلم لیگ (ن) میں شدید اختلافات نظر آتے ہیں۔ اندرونی ذرائع کے مطابق مسلم لیگی قائدین ایک پیج پر نہیں ہیں اور نہ ہی آنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی ایک جگہ، ایک میز پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کو میٹنگ کے لئے بلایا جائے تو آتے نہیں ہیں یا پھر اپنے نمائندے بھیج دیتے ہیں جس کی وجہ سے اختلافات بڑھتے بڑھتے یہ صورت حال ہو چکی ہے کہ ضلع کونسل میں 90 فیصد اکثریت رکھنے کے باوجود بھی ہو سکتا ہے لاٹری کسی اور کی نکل آئے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر چوہدری لیاقت علی خان جیسی شخصیت کے لئے بھی یہ چیلنج بن چکا ہے حالانکہ ان پر مقامی رہنماؤں کو اعتماد ہونا چاہئے۔ اس وقت ضلع کونسل کی 3 کسان نشستوں کے لئے 4 اُمیدوار میدان میں ہیں، ان میں مسلم لیگ (ن) کے نشان شیر کے چوہدری سلیم رضا جن کا نام ایم پی اے چوہدری لیاقت نے دیا اور ایم این اے میجر طاہر اقبال نے حمایت کی۔ دُوسرے اُمیدوار اقرار حیدر ہیں جن کو سردار ممتاز ٹمن اور سردار ذوالفقار دُلہہ کی حمایت حاصل ہے جبکہ تیسرے اُمیدوار چوہدری عرفان سدوال ہیں جن کو سردار عباس کی نا صرف حمایت حاصل ہے بلکہ ان کے پاس بھی ٹکٹ (ن) لیگ کا ہے اور نشان بھی شیر کا ہے جبکہ چوتھے اُمیدوار کا نام فیروز خان دودیال ہے جس کو ملک سلیم اقبال کی حمایت حاصل ہے جبکہ ان کی حمایت ملک اسلم سیتھی بھی کر رہے ہیں۔ اب ان اُمیدواروں میں سے 3 اُمیدوار کسان ممبر بننے ہیں۔ سردار غلام عباس کا اُمیدوار چوہدری عرفان سدوال یقینا جیت جائے گا، اُس کے پاس ووٹ پورے ہیں جبکہ باقی اُمیدواران اپنی اپنی انا کی جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ شیر کا نشان ہونے کے باوجود اپنی اپنی کرسی کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال میں ماسوائے سردار غلام عباس کے کسی کو اپنے لوگوں پر کنٹرول نہیں جبکہ اسی طرح ضلع کونسل میں ٹیکنو کریٹ کی 1 سیٹ ہے، اس پر مسلم لیگ (ن) کے امجد بشیر ایڈووکیٹ کھائی جن کا نام ملک اسلم سیتھی نے پیش کیا تھا جبکہ ان کا مقابلہ (ق) لیگ کے ڈاکٹر ظہیر تلہ گنگ سے ہو گا اور جیسے اندرونی حالات بتا رہے ہیں (ق) لیگ کے ڈاکٹر ظہیر کی لاٹری نکل سکتی ہے چونکہ اسلم سیتھی کسان ممبر کی نشست پر این اے 61 کے اُمیدوار کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اس لئے امکان ہے ان کو بھی تھوڑا سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نشست پر بھی شدید اندرونی اختلافات نظر آتے ہیں اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ خواتین کی 15 مخصوص نشستیں ہیں جبکہ ٹکٹ بھی 15 ہی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ ان نشستوں پر بھی شدید اختلافات نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مخصوص نشستوں کے انتخابات کے بعد ضلع کونسل کے چیئرمین کا چناؤ ہو گا اور لگتا ایسے ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے ہی ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شیر، شیر کا مقابلہ کیسے کرتا ہے۔ اس تمام صورت حال میں مقامی مسلم لیگی قائدین کو اندرونی اختلافات اور کرسی کو ذہن سے نکال کر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا یہی انتخابات ہی اُن کا محور و مرکز ہیں یا پھر اُنہوں نے 2018ء کے الیکشن میں بھی حصہ لینا ہے۔ میری معلومات کے مطابق ضلعی صدر کو اتنے اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کس اُمیدوار کی حمایت کرنی ہے لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اتنی بڑی جماعت اور پھر حکمران جماعت کے نمائندے ہونے کے باوجود صرف اور صرف کرسی کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک جگہ اجلاس بلایا جاتا، اُس کی صدارت ضلعی صدر ایم پی اے چوہدری لیاقت کرتے اور پھر باہمی مشاورت سے جو فیصلہ کر لیا جاتا پھر اُس پر سب متفق ہو جاتے لیکن ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔ ابھی جتنے منہ اتنی باتیں والا کام چل رہا ہے۔ تمام مقامی قائدین یہ چاہتے ہیں کہ وہ جس اُمیدوار کی حمایت کر رہے ہیں وہی جیتے جبکہ عددی لحاظ سے فوقیت صرف سردار غلام عباس کو حاصل ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے سب کے پاس بے پناہ وسائل بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ایک پیج پر نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جیسے جیسے چناؤ کا وقت قریب آرہا ہے حالات بدلتے نظر آرہے ہیں۔ ابھی اصل معرکہ پیچھے ہے۔ ڈسٹرکٹ چیئرمین کا فیصلہ ہونا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تمام قائدین متفقہ طور پر اپنا ایک قائد چن لیتے اور جس طرح وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ ڈسٹرکٹ چیئرمین اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین بناتے وقت کسی ایسے شخص کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا جس کا کوئی رشتہ دار ایم این اے، ایم پی اے یا سینیٹر ہو۔ اور خالصتاً مسلم لیگ (ن) کے ورکر کو ٹکٹ دیا جائے گا۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس فیصلے کو ہوا میں اُڑا دیا جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑے میاں صاحب کو اب یہ یاد ہی نہ ہو کیونکہ اس کو اب کافی ماہ گذر چکے ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ چکوال کی ضلعی چیئرمینی ایک ایسے شخص کو دی جاتی جس نے سعودی عرب میں مقیم ہو کر اپنا بہترین کاروبار چھوڑ کر صرف اور صرف عوام کی خدمت کی خاطر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے جدہ قیام کے دوران اُن کی بے پناہ خدمات کی۔ کیا چوہدری ضمیر خان ڈھاب جو کہ چیئرمین یو سی ہرچار ڈھاب ہیں اور خالصتاً صوم و صلوٰۃ کے پابند اور مسلم لیگ (ن) کے کٹر ورکر کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں دیا جا سکتا جبکہ اُنہوں نے باضابطہ ٹکٹ کے لئے درخواست بھی دے رکھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
 
javed Malik
About the Author: javed Malik Read More Articles by javed Malik: 79 Articles with 56836 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.