صوبائی حکومت کے زمہ داران جس وقت پریس
کانفرنس کرنے کے لئے پریس کلب گلگت تشریف لائے تو ان کے چہرے پر مایوسی
پھیلی ہوئی تھی ہر لفظ لفظ پر ایک دوسر ے کے منہ کی طرف دیکھتے رہے کہ کہیں
کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے صحافی کیڑے نکالے ۔۔۔۔
صوبائی حکومت کے زمہ داران نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں یوم حسین کے
انعقاد ، دنیور میں دھرنے اور امامیہ کونسل سے مذاکرات پر تفصیلی گفتگو کی
۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ بدھ کی رات کو عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے ہمیں
اطلاع ملی کہ امامیہ کونسل کی طرف سے ہمیں مکمل اور بلامشروط مینڈیٹ دیا
گیا ۔۔۔جس پر ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔حکومت نے
وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کے ہدایات کی روشنی پر عوامی ایکشن کمیٹی سے
ملاقات کی جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جس طرح عوامی ایکشن کمیٹی
کو امامیہ کونسل نے مینڈیٹ دیا ہے اسی طرح حکومت بھی ہمیں مینڈیٹ دیں
۔۔۔۔۔۔جمعرات کے روز 2گھنٹے کی طویل نشست ہوئی جس میں تحریری سفارشات پر
غور و خوض ہوا جس کے بعد حکومت نے 6پوائنٹ پر مشتمل تحریری سفارشات کو
تقریباً قبول کرتے ہوئے آگے کیا اور اس فیصلے کو ایپکس کمیٹی کے زمہ داران
تک پہنچایا ۔۔۔۔۔۔۔ ایپکس کمیٹی نے ان سفارشات کو قابل عمل قرار دیکر اس کے
مستقبل پر اثرات اور غور و خوض کرنے کے لئے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا
۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ حکومتی سطح پر یہ بات ہورہی تھی کہ ان سفارشات میں ترجیحی
بنیادوں پر کون سے چیزوں کو حل کرنا ہوگا اور ان کے حل کے لئے طریقہ کار
کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جمعرات کے بعد جمعہ کے روز عوامی ایکشن کمیٹی خود ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے 4ز مہ داران نے تحریری طور پر
سفارشات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو آگاہ کردیا (عوامی ایکشن
کمیٹی کے 6سفارشات آخر میں تحریر ہونگے ) ۔۔۔۔۔ جس کے بعد صورتحال دوبارہ
تبدیل ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس صورتحال کو دیکھنے اور مسئلے کے پر امن حل کے لئے
وزیراعلیٰ نے سپیکر حاجی فدا محمد ناشاد کی سربراہی میں 12رکنی کمیٹی تشکیل
دیدی ہے جن میں اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام اضلاع کے ممبران بھی شامل ہیں جو
آج اتوار کو اہم اجلاس میں اس مسئلے پر غور وخوض کرینگے ۔۔۔۔۔۔ہم نے عوامی
ایکشن کمیٹی کو پہلے ہی بتایا تھا کہ اس واقعہ کے بعد آپ عوام کو منہ
دکھانے کے قابل نہیں رہینگے ۔۔۔۔۔۔ غیر مشروط اور مکمل مینڈیٹ ۔۔۔۔۔
صوبائی حکومت کے زمہ داران میں صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال ،
پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف اورنگزیب ایڈوکیٹ ، معاون خصوصی
حاجی عابد علی بیگ ، معاون خصوصی فاروق میر شامل تھے جنہوں نے صحافیوں کے
بعض الٹے سیدھے سوالات کا بھی اطمینان بخش جواب دیدیا ۔۔۔۔انہوں نے دنیور
دھرنے کے حوالے سے بتایا کہ حکومت اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ اس واقعہ پر
کون سیاست چمکارہا ہے ۔۔۔ہم نے دنیور میں انتخابی جلسے بھی کے کے ایچ پر
نہیں کئے ۔۔۔پیپلزپارٹی نے کے کے ایچ پر جلسہ کرکے نئی ریت ڈالی ۔۔۔دنیور
دھرنے کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ جس میں
پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف کے علاوہ اسلامی تحریک اور ایم ڈبلیو ایم کے
کارکنان بھی شامل ہیں ۔۔۔۔جبکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا انتہائی منفی کردار
ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ شیخ مرزا علی سے الگ خصوصی نشست رہی ہے جس میں انہوں نے اپنی
تجاویز پر دی ہیں ہم ان پر غور و خوض بھی کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دنیور کی بڑی
آبادی دنیور میں جلسے کی حامی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مظاہرین دنیور پر دھرنا دینے کی
بجائے وزیراعلیٰ ہاؤس یا قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے
سکتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اس دھرنے کی وجہ سے دنیور کے تاجر اور عوام پریشان ہیں
بلکہ سی پیک منصوبہ بھی متاثر ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔ ریاست کو اس بات میں کوئی
مشکل نہیں کہ دنیور کے مظاہرین کو طاقت کے زریعے منتشر کرایا جائے لیکن
ہماری خواہش ہے کہ مسئلے کا حل بات چیت کے زریعے نکالا جائے ۔۔۔۔۔ریاست سے
مضبوط کوئی چیز نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
امام عالی مقام حضرت حسین کے شہادت کے مناسبت سے ’یوم حسین ‘ منانے کے
حوالے سے حکومت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یوم حسین پر کسی نے پابندی عائد
نہیں کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی نوٹیفکیشن سامنے آیا ہے جس میں یہ لکھا ہو
کہ یوم حسین نہ منایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیکٹا نے تعلیمی اداروں میں مذہبی
پروگرامات پر پابندی عائد کی ہے ۔۔۔۔۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں
مذہبی پروگرامات پرپابندی کی تفصیلات بتاتے ہوئے حکومتی زمہ داران خصوصی
طور پر اورنگزیب ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ماضی کے تجربوں کو جب سامنے رکھا جائے
مذہبی پروگرامات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے پر امن ماحول کو سخت نقصان
پہنچا ہے ۔۔۔۔۔ درجنوں عام شہریوں ، طلباء سمیت سیکیورٹی فورسز کے افراد
بھی زخمی ہوئے ہیں اور کئی ایک قیمتی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔
حکومت نے اس بات کا حلف لیا ہے کہ عام عوام اور شہریوں کی جان و مال کی
حفاظت کریں ۔۔۔۔۔ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے مذہبی پروگرامات پر پابندی
عائد کی گئی ہے جو کہ نیکٹا نے لگایا ہے حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں
ہے ۔۔۔۔۔۔آج فدا محمد ناشاد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اس پر غور
و خوض کیا جائیگا ۔۔۔۔۔قراقرم یونیورسٹی میں حالات 2012سے خراب ہونا شروع
ہوئے جس میں 7افراد جاں بحق جبکہ 13افراد زخمی ہوئے ۔۔۔۔۔2015میں مسلم لیگ
ن کی حکومت آنے کے بعد ہی ایک بار پھر حالات اسی انداز پر چلے گئے لیکن
حکومت نے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب بھی پر امن حل نکال
کر مخالفین کے منہ بند کردینگے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ سفارشات جن پر حکومت راضی تھی مگر عوامی ایکشن کمیٹی پیش کرنے کے بعد
مکر گئی بلکہ لاتعلق ہوگئی وہ مندرجہ زیل ہیں ۔۔
1۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان میں ملت تشیع کو عقیدت کے
اظہار کا حق دیتے ہوئے یوم حسین کو قراقرم یونیورسٹی میں منانے کا حق دیا
جائے اور متعلقہ پروگرام میں مقررین کا انتخاب بھی ادارہ کرنے کا پابند
ہوگا ۔
2۔ شیعہ سنی تفرقے سے بچنے کے لئے اس روز اختیاری چھٹی کا اعلان کیا جائے
اور بیرونی مداخلت پر مکمل پابندی ہو مداخلت کی صورت میں یونیورسٹی
انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد طلب کریں ۔
3۔ اسی طرح اس مسئلے کے پر امن حل اور طلبہ کو مقدس شخصیات کی سیرت سے
آگاہی پیدا کرنے کے لئے محرم الحرام کے مہینے میں سید نا عمر فاروق کے
عنوان سے پروگرام کا انعقاد کرتے ہوئے اس روز بھی اختیاری تعطیل کا اعلان
کیا جائے ۔
4۔اس سال یوم حسین کے پروگرام کو یونیورسٹی کے باہر منعقدکیا جائے اور
آئندہ سال سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اپنے سالانہ تعلیمی کلینڈر میں
محرم الحرام کے پروگرامات شامل کرے اور یونیورسٹی انتظامیہ خود ان
پروگرامات کے انعقاد کے لئے اقدامات اٹھائے ۔
5۔موجودہ بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس عنوان سے قائم شدہ فریقین کے
طلباء پر قائم مقدمات کو ختم کرکے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا موقع
فراہم کیا جائے ۔
بعد ازاں پر امن دھرنے کو منتشر کراکر امن و امان کو برقرار رکھنے میں
فریقین اپنا کردار ادا کریں ۔
٭ موجودہ صورتحال کو من و عن آپ کے سامنے رکھنے کے بعد ایک سوال یہ اٹھتا
ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا مستقبل کیا ہوگا ؟ عوامی ایکشن کمیٹی کے دعوے ؟
بین المسالک ہم آہنگی کا کریڈٹ؟وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
بہرحال دعاہے کہ آج سپیکر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جس میں تمام
اضلاع اور اپوزیشن کے ممبران بھی شامل ہیں کسی ایک نقطہ پر پہنچ جائیں ۔
۔۔۔۔
ایک شعر گلگت بلتستان پر اور اجازت ۔۔۔۔۔۔۔جمشید خان دکھی عرض کرتے ہیں کہ
چارہ گر پر بھی خوف طاری ہے
کس قدر بے بسی ہماری ہے
ڈاکٹر!چیک کرے تو کس کو کرے
آئی سی یو میں قوم ساری ہے
|