مرزا ظفر الحسن ۱۹۱۶ء میں سنگاریڈی(دکن)
میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ وسطانیہ سرکاری عالی میں مڈل تک حاصل
کی۔ مڈل پاس کرنے کے بعد حیدرآباددکن آگئے اور سٹی ہائی اسکول سے میٹرک اور
سٹی کالج سے ایف اے کیا۔جامعہ عثمانیہ سے بی اے کیا۔ آپ اسٹیج ڈراموں اور
تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔۱۹۳۶ء میں ریڈیو دکن سے تعلق رہا مگر سقوطِ
حیدرآباددکن کے بعد آپ نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور جنوری ۱۹۴۹ء میں
پاکستان آگئے۔پاکستان میں دوبارہ ریڈیو سے منسلک ہوئے تو انھیں پشاور
تعینات کیا گیااور پانچ سال بعد ان کا تبادلہ کراچی میں ہوا۔۱۹۵۸ء میں
الیکشن کمیشن میں درجہ اول کے افسربنے۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۷۲ء تک الیکشن کمیشن میں
خدمات انجام دیتے رہے اوراپنی ملازمت کے دوران ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ادارۂ یادگارِ غالب‘‘ کا قیام ہے۔آپ کی اہم
کتابوں میں’’دکن اداس ہے یارو‘‘، ’’تماشاے اہل کرم‘‘، ’’ذکرِیارچلے‘‘،’’پھرنظرمیں
پھول مہکے‘‘، ’’عمرگزشتہ کی کتاب‘‘اور’’صلیبیں میرے دریچے میں‘‘شامل
ہیں۔’’عمرگزشتہ کی کتاب‘‘ سے اُن کے روابط فیض احمد فیض اور مخدوم محی
الدین اور ساتھ ہی ساتھ ترقی پسند تحریک سے اُن کی وابستگی کسی سے ڈھگی
چھپی نہیں۔ یہاں مرزا ظفرالحسن کی اس تحریرسے ڈاکٹرصاحب سے اُن کے تعلق
کاایک ثبوت ملتا ہے:
’’ادارۂ یادگارِ غالب میں میرے نوجوان شریک کار اور اردو کے ممتاز شاعر اور
ادیب سحرانصاری نے مشورہ دیا بلکہ اصرار کیا کہ میں اپنی دوسری کتاب کو محض
اپنی یادوں تک محدود کرنے کے بجائے اس میں وسعت پیدا کروں۔ یہی بات ممتاز
ادیب اور استاد اور ریڈیو میں میرے رفیق کار ڈاکٹر اسلم فرخی نے بھی کہی۔‘‘(۱)
درجِ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے مرزا صاحب اور
ڈاکٹر صاحب کا تعلق کتنا گہرا تھا۔اس کے علاوہ غالب لائبریری سے ڈاکٹرصاحب
کی قلبی وابستگی اور علم وادب میں ہونے والے کاموں پر آپ کی گہری نظرتھی جس
وجہ سے مرزا ظفرالحسن سے آپ کا رابطہ مسلسل رہتا تھا ۔
ڈاکٹراسلم فرخی محقق، استاد، خاکہ نگار، براڈکاسٹر اور شاعرتو تھے ہی مگر
آپ کے خطوط دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ آپ نجی زندگی میں بھی کسی بناوٹ اور
تصنع کا شکار نہیں ہیں بلکہ صاف، سادہ اورواضح تحریر آپ کی شخصیت کی عکاسی
کرتی ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی کے دو غیرمطبوعہ خط جو مرزاظفرالحسن (معتمد ادارۂ
یادگار غالب ، کراچی) کو لکھے گئے تھے ،ادارۂ یادگارِ غالب کے شکریے کے
ساتھ نذرقارئین ہیں۔
درجِ ذیل خط میں ڈاکٹر اسلم فرخی نے مجلہ ’’غالب‘‘اور اس میں شائع ہونے
والے خاص مضامین کا ذکر کرتے ہوئے تعریف کی ہے اور ساتھ ہی اس بات کا
اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ کہیں ’’غالب‘‘ بند نہ ہوجائے۔پہلا خط جو ۱۵ مارچ
۱۹۷۵ء کو لکھا۔ ملاحظہ ہو:
۱۵؍۳؍۷۵]۱۹ء[
مکرمی مرزا صاحب السّلام علیکم
سحرصاحب(۲) کے ذریعے سے ’’غالب‘‘(۳) پہنچا۔ کاش آپ وقت سے بہت پہلے
ریٹائرہوکریہ کاروبارشروع کردیتے۔ مومن کے بارے میں یہ سُنا تھا کہ اُس کی
آن اور شان ہر لمحے نئی ہوتی ہے لیکن آپ کی آن اور شان کو بھی ہر لحظے نیا
پایا اور یہ باور کرنا پڑا کہ کافر بھی مومن ہوسکتا ہے۔پرچے کو ہر اعتبار
سے پسندیدہ اور قابل تعریف پایا۔ فیض صاحب کا مضمون(۴)۔ مشفق خواجہ کا
مضمون(۵) اور آپ کا مرتب کردہ ابن انشا کا مضمون(۶) بسب ہی خاصے کی چیز ہیں
اور اس بات کی داد نہ دینا بھی بے انصافی ہوگی کہ بعض مضامین آپ نے کتنی
احتیاط سے چھپاکر رکھے تھے اور کیسے سلیقے سے پیش کیے۔ بہرحال، حسن ذوق،
نفاست طبع، ادبی دید ودریافت ہر اعتبار سے ’’غالب‘‘ کو غالب ہی پایا۔
مرزا صاحب یہ سب باتیں تو آپ کو بڑی بھلی معلوم ہوئی ہوں گی اب ذرا دو چار
تلخ باتیں بھی سُن لیجیے۔ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ غالب کی اشاعت میں
’’ساہوکارکا دخل‘‘بڑھنا شروع نہ ہوجائے اور ہم سب ایک اچھے ادبی مُجلّے سے
محروم نہ ہوجائیں۔ آپ نے بڑے حوصلے سے کام لیا ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ
ادبی رسالے سسِک رہے ہیں۔ بہتوں نے دم توڑ دیا ہے۔ بہتیرے نہیں بلکہ جو
گِنے چُنے باقی رہ گئے ہیں ان پر نزع کا عالم طاری ہے۔ اس صورت حال کو
بدلنے کے لیے ہم سب کو غیرمعمولی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ مایوس ہوکر ہاتھ پیر
ڈالنے سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرکے کوئی
لائحہ عمل مرتب کرنا پڑے گا۔ ادبی ذوق کی ترویج واشاعت اور قارئین کا حلقہ
وسیع کرنے کے لیے محنت سے کام لینا ہوگا۔ آپ اس کے اہل ہیں۔ قدم اُٹھائیں۔
ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ غالب کو زندہ رہنا ہے۔ ایک تحریک کی شکل اختیار کرنا
ہے۔ آپ نے پرچہ نکالا ہے تو پھر اسے زندہ رکھنے کی مہم بھی چلائیے۔ ایک
جائزہ علمی اور تحقیقی یوں بھی سہی کہ ادبی پرچے تادیر جاری کیوں نہیں
رہتے۔ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں اور دونوں سے رائے لیجیے۔
امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔ بہت دن سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ہمت کرکے کسی شام
یونی ورسٹی آجائیں۔ غالب لائبریری کے لیے بہت کچھ جمع کر رکھا ہے۔ نیاز مند
مرزا ظفرالحسن کے نام اسلم فرخی
دوسرا خط ۲۶ نومبر ۱۹۷۹ء میں لکھا گیا تھا۔اس خط میں ڈاکٹراسلم فرخی شعبہ
تصنیف وتالیف وترجمہ میں ہونے والے علمی وادبی کاموں کے حوالے سے آگاہ
کررہے ہیں اور مجلہ ’’جریدہ‘‘ کی اشاعت کے حوالے سے بتارہے ہیں اور ساتھ ہی
مرزا صاحب سے درخواست کررہے ہیں کہ کچھ وقت نکال کر شعبے میں آئیے اور ان
کاموں کو ملاحظہ فرما کر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیے۔
۲۶؍نومبر۱۹۷۹ء
مخدومی مکرمی، السلام علیکم
آپ کو غالباً اس بات کا علم ہوگا کہ جامعہ کراچی کا شعبہ تصنیف وتالیف
وترجمہ عرصہ دراز سے علمی خدمت انجام دے رہا ہے۔ شعبے نے اردو میں علمی
اصطلاحیں وضع کرنے کے سلسلے میں کافی کام کیا ہے اور متعدد علوم وفنون کی
اصطلاحوں کے تراجم بھی شائع کیے ہیں۔ شعبہ ایک رسالہ بھی جریدہ(۷)کے نام سے
شائع کرتا ہے جس میں مختلف علوم کی اصطلاحوں کے ترجمے شائع کیے جاتے ہیں۔
وضع اصطلاحات کے علاوہ شعبے نے وقیع سائنسی کتابوں کے تراجم شائع کرنے کا
اہتمام بھی کیا ہے۔ شعبے نے سائنسی تراجم کے علاوہ بعض طبع زاد علمی کتابیں
بھی شائع کی ہیں جنھیں ملک اور بیرون ملک قدرکی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔
آپ کے علمی شغف اور ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ
وقت نکال کر اس شعبے کو بھی ملاحظہ کیجیے۔ جو کام انجام دیا جارہا ہے اسے
دیکھیے۔ ہماری رہنمائی فرمائیے اور ہمیں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیئے۔
ہماری خواہش ہے کہ ہمیں ملک کے تمام ارباب دانش کا تعاون اور سرپرستی حاصل
رہے تاکہ ہم علمی سطح پر ملک وقوم کی بہتر خدمت انجام دے سکیں۔
ہمیں امید ہے کہ آپ جلد اپنی تشریف آوری کی تاریخ اور وقت سے مطلع فرمائیں
گے۔ ہمیں آپ کی تشریف آوری اور مشوروں کا انتظار ہے۔
مرزا ظفر الحسن صاحب نیاز مند
معتمدادارہ یادگارغالب،کراچی اسلم فرخی
حواشی
(۱)ظفرالحسن، مرزا، پھرنظر میں پھول مہکے(ذکرِیارچلے کی طرح دکن کی یادوں
کا مجموعہ)، کتب پرنٹرزوپبلشرزلمیٹڈ، کراچی، اپریل ۱۹۷۴ء
(۲)پروفیسر سحرانصاری ادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں۔ تدریس سے طویل عرصے سے
وابستہ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
(۳) یہاں غالب سے مراد ادارۂ یادگارِ غالب کا ادبی مجلہ ’’غالب‘‘ہے۔ اس کا
پہلا شمارہ ’’جلد۱، شمارہ۱۔جنوری تامارچ۱۹۷۵ء،میں شائع ہوا تھا جس کے
مدیراعلیٰ فیض احمد فیض اور مدیر مرزا ظفرالحسن تھے۔
(۴)فیض احمد فیض کا یہ مضمون’’ غالب‘‘ جلد۱، شمارہ ۱، جنوری تا مارچ ۱۹۷۵ء
میں بعنوان صفحاتِ فیض (اردو شاعری) شائع ہوا۔ص۷ تا ۱۰۔
(۵)مشفق خواجہ کا یہ مضمون ’’ غالب‘‘ جلد۱، شمارہ ۱، جنوری تا مارچ ۱۹۷۵ء
میں بعنوان ’’پرانے شاعر نیا کلام(جسونت سنگھ پروانہ) شائع ہوا۔ص۸۲ تا ۱۱۷۔
(۶) ابن انشا کا یہ مزاحیہ مضمون ’’ غالب‘‘ جلد۱، شمارہ ۱، جنوری تا مارچ
۱۹۷۵ء میں بعنوان ’’شاعری کر مشاعرے میں ڈال‘‘ شائع ہوا جسے مرزا ظفرالحسن
نے مرتب کیا تھا۔ص۳۵ تا ۵۶
(۷) شعبۂ تصنیف ،تالیف وترجمہ، جامعہ کراچی سے شائع ہونے والا پہلا شمارہ
’’جریدہ‘‘ہے۔ |