اتباع رسول ﷺکی ضرورت
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
انسان اپنی عقل سے خود کامیابی کا فیصلہ
نہیں کر سکتا ۔حالانکہ ہر انسان کامیابی کا خواہشمند ہے اس کامیابی کو حاصل
کرنے کے لئے ایک ہستی کا وجود ضروری ہے جو کامیاب وکامران ہو، تا کہ انسان
اس ہستی سے رہنمائی حاصل کرے اور کامیاب ہو جائے۔ اس ہستی کا نام پیغمبر
اور رسول ہے لہذا محمد رسول اﷲ ﷺکا آخری رسول قیامت تک آنے والے انسانوں
کیلئے عملی نمونہ ہے اس لئے اﷲ تعالی نے چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی آپکی
ہر ہر ادا اور عمل کو محفوظ کر رکھا ہے اگر آپﷺ کی عملی زندگی محفوظ نہ
ہوتی تو کامیابی کا راستہ بند ہو جاتا۔یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی عبادات،
معاملات، معاشرت، کھانا پینا ،سونا جاگنا غرض ہرہر عمل محفوظ ہے ۔اوراس بات
پر تو ہر مسلمان بحیثیت ِمسلمان گواہی دے گاـ بلکہ اس کے ایمان کا جزاور
عقیدہ ہے ـکہ دونوں جہاں کی کامیابی اور سعادت محمدﷺ کے اتباع میں ہے ـ اﷲ
پاک نے اتباع سنت کو اپنی محبت کے لئے جز ِلازم قرار دیا۔ ـاسی کو مناطقہ
جز لاینفک کہتے ہیں ـ کہ جو کبھی ملزوم سے جدا نہ ہوـ ،گویا کہ اتباع سنت
کے بغیر اﷲ سے محبت کرے ،یہ دعوی جھوٹا ہے ـ اس لئے ارشاد فرمایا کہ
(قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ )(اٰل عمران ۱۳)
ترجمہ :کہ اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار ہو ـ تو میرا اتباع کرو ـ
کہ اسکے بغیر تیرا دعوی محبت جھوٹا ہے ـ
افسوس صدا فسوس !کہ ہم نے مسلمان ہو نے کے باوجود سب سے بڑاگناہ یہ کیا کہ
آپﷺ کا اتباع چھوڑ دیا ـ دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ کیا کہ آپﷺ کے دشمنوں کی
تہذیبوں کا اتباع شروع کیا ـ اور پھر آہستہ سے کہہ دیا کہ سنت ہے کوئی فرض
تونہیں۔ ـ حالانکہ امت کا زوال اسی دن سے شروع ہوا جس دن سنت کو سنت سمجھ
کر ترک کر دیا گیا ․ یہ تو ــ’آبیل مجھے مار‘ والی بات ہے ـ حالانکہ یہ
اتنا سنگین مسئلہ ہے ـ کہ اتباع سنت چھوڑ کر کوئی اور رخ اختیار کرنا اﷲ کی
نصرت ، حفاظت اور حمایت و و لایت کو مکمل طور پر مسلوب کرتا ہے۔ بلکہ الٹا
اسی غیر کو اپنی حفاظت اور نصرت روک کر مسلط کر دیتا ہے ـ ارشاد باری تعالیٰ
ہے ـ !
(ولئن اتبعت اھوائھم بعد الذی جاء ک من العلم مالک من اﷲ من ولی ولا نصیر
)( البقرہ ۱۲۰)
ترجمہ :کہ اے نبی ﷺ ! بالفرض اگر تو نے بھی حق دین کی وحی کا اتباع چھوڑکر
ادیان باطلہ کا اتباع شروع کیا ـتو اﷲ کی طرف سے تیری نصرت اور حفاظت بند
کر دی جا ئیگی ـ اور پھر اﷲ کے عذاب سے کوئی تیری حفاظت نہیں کر سکے گا ۔
ـ تفسیر جلالین نے (لامن ولی یحفظک ولا نصیر یمنعک منہ):’ کی تقدیر نکالی
ہے ـ جو اس جگہ بالکل درست اطلاق ہے ـ اب ہمیں اندازہ لگاناچاہئے ۔ـکہ ہم
کیا کر رہے ہیں کس کا اتباع کر رہے ہیں ـ اور اسکے رد عمل میں ہمارے ساتھ
کیا کچھ نہیں ہو رہا ـ صاف ظاہر ہے کاش ہماری دل کی آنکھیں کھل کر حالات کا
جائزہ لے سکیں ـ آج مسلمان کیوں خوار ہوا،ـ؟کیوں غیر اس پر مسلط ہوا؟ ـکیوں
ہر طرف سے مار کھا رہا ہے؟ ـ مذکورہ خطاب اگر چہ خصوصی ہے مگر اسکا حکم عام
ہے ۔ بلکہ حکم میں تاکید اور بھی بڑھ جاتی ہیـ کہ ایک عام امتی توکیا
بالفرض پیغمبرِخدابھی رسول ہونے کے باوجود،محبوب ہونے کے باوجود اگر غیروں
کا اتباع کر یگا ـتو انکا بھی یہ حال ہو گا ـ چہ جائیکہ ایک عام امتی کو
معاف کیا جائے ـ لیکن افسوس کہ آج امت اجتماعی طور پر غیر کے قدم پر قدم
رکھ کر لا پرواہی کے ساتھ محمدﷺکے اتباع کو چھوڑ رہی ہے ، پھر چیخ وپکار
دربار ایزدی میں کیسے سنی جا ئیگی ـ کہ چیخ وپکار ، آہ و فغان کرنے والا
شخص غیر کی وردی میں ملبوس ہے۔ ـ مفتیان کرام اگر چہ لباس میں وسعت کے قائل
ہیں ـ لیکن دور حاضر میں امت نے اس وسعت سے اتنا ناجائزہ فائدہ لینا شروع
کیا ـکہ بعض لباس کو لباس کہنا بھی لباس کی تو ہین ہے ـجس میں انسان کے
اعضاء تک نظر آتے ہیں ـ ایسے لباس کی شریعت میں نہ گنجائش ہے اور نہ ہی
کوئی مفتی صاحب اس طرح کا لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے ۔ایک اور ڈرامہ جو
روشن خیالی کی پیداوار ہے ۔وہ یہ کہ عبادات میں تو ہم آپﷺ کے اتباع کے
پابند ہیں ۔مگر معاشرت ، معاملات اور دین کی دوسری لائنوں میں ہم اتباع
رسول ﷺ کے پابند نہیں، ـ ہمیں یہ غلط فہمی دور کرنی ہو گی ـ ہمیں سمجھناہو
گا کہ یہ دین کا مزاج ہرگز نہیں یہ دین کی ہیئت ِاصلےّہ کو تبدیل کرنے کی
ایک ناکام کوشش ہے ـ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو دین تاقیامت دین ہے ـ اس میں
کلچر، تہذیب وتمدن ، فنانس ،سیاست اور دوسرے شعبوں کی گنجائش نہ ہو۔ـ ہمیں
اپنے اقدار جاننے ہونگے، ہمیں اسلامی کلچر کو رواج دینا ہوگا ، دین کو بیوہ
خاتون کی طرح نہیں سمجھنا چاہیئے ـ کہ پسند آئے تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دے ـ ۔ہمارا
دین مکمل ضابطہ حیات ہے ـ صحابہ کرام ؓ نے کیسے اتباع کیا ، ہمیں اسی طرح
اتباع کرنا چاہیئے ـ ورنہ بات وہی ہے کہ جہاں دین ہاتھ سے گیا، وہاں اﷲ کی
نصرت کٹ گئی ـ۔اور اتباع رسولﷺ ہی دین ہے ،قرآن میں ہے!
’ ’وما اٰتکم الرسول فخذوہ‘ وما نھاکم عنہ فانتھوا‘‘ ( الحشر ۷)
ترجمہ :کہ جو رسول ﷺؐ اوامراور احکامات لیکر آپ کو دیتے ہیں ،ان کو مضبوطی
سے پکڑوـاور جن چیزوں سے روکتے ہیں ـان سے رک جاؤـ۔اس آیت کے بعد اتباع ِرسول
ﷺ سے نکلنا بہت خطرے کی بات ہے۔ ـ اس مسئلے کو معمولی مسئلہ نہیں سمجھنا
چاہئے ۔اے مسلمانوں ! روشن خیالوں کے فلسفہ سے متاثرمت ہو جایاکروـیہی لوگ
جو دین کے مزاج سے بہت دور ہیں ، یہ آپکے دین کے رہنما نہیں بن سکتے ،بلکہ
تم انکی ذہن سازی کرـو ۔یہ تو قابل ِترس لوگ ہیں ـکہ کل قیامت کو اﷲ ان سے
پو چھے گا کہ میرے دین کی غلط تشریح تم لوگوں نے کیوں کی ؟کیونکہ ( ماجاء ک
من العلم ای من الوحی )کے ما سوا کو دین نہیں کہا جاسکتا ـاور آپﷺؐ صرف
عبادات کے ساتھ دنیا میں تشریف نہیں لائے ،بلکہ مکمل ضابطہ حیات لیکر آئے۔
ـ آج معاملات لوگ اپنی مرضی سے طے کر رہے ہیں، ـآج داڑھی رکھنا بوجھ سمجھا
جارہا ہے، ـ آج سود کو بعض لوگ جائز سمجھ بیٹھے ہیں ـ، آج جنسی خواہشات کی
تکمیل کو انسانی ہمدردی کانام دیاجارہاہیـ اور اسکو انسان اپنی عقل سے
((Fundamental Rights بنیادی حقوق سمجھنے لگا ہے ـمسلمان اپنے بچے کے گلے
میں ٹائی لٹکاکر کہہ رہاہے ـ کہ یہ کوئی اتنا بڑامسئلہ نہیں،ـخواتین کا
پردہ جو ایک قرآنی حکم ہے اور کروڑوں حکمتوں پر مشتمل ہے ـ،اسکو رواج
دینامسلمان اپنی بے عزتی اور تو ہین سمجھنے لگا ہے ـ یہ آ پﷺ کے اتباع سے
دوری نہیں تو اور کیا ہے ؟ مسلمان نے گویا اتباع رسول ﷺ کو ترک کرکے ذلت کو
اپنی دہلیز پر آنے کی دعوت دی ہے ـبلکہ اتباع ِ سنت چھوڑ نے والا اور غیر
کی راہ پر چلنے والا تو ظالم ہی ہے اور ظالم کے ساتھ حفاطت اور نجات کا
کوئی وعدہ نہیں ہے چنانچہ فرمایا
’’ ولئن اتبعت أھوآء ھم من بعد ما جاء ک من العلم ا نَک اذاًلمن الظالمین‘‘
( البقرہ ۱۴۵)
ترجمہ :اے نبی ﷺ ! اگر بالفرض تو نے علوم وحی کے بعد ان کی ہوائے نفس کا
اتباع کیا تو تیرا انکی اتباع کرنے کی وجہ سے نام ظلم کرنے والوں کی فہرست
میں شامل ہو جائیگاـ اب اگر پوری امت اجتماعی طور پر اتباع ِرسول ﷺکے خلاف
چلے گی ـاور غیروں کے طریقے پر چلے گی ـتو پوری امت ظالم ہو گی ـاور ظالم
کے ساتھ اﷲ کی مدد نہیں ہوتی ـ،لہذا امت کے ساتھ اﷲ کی مدد و نصرت نہیں
ہوگی ـاس لئے ضروری ہے ،کہ اتباع ِرسولﷺ چھوٹنے نہ پائے ورنہ شرمندگی اور
رسوائی کے بغیر کچھ نہیں،ـیہ مسئلہ چھوٹا مسئلہ نہیں ـ،اسکو اتنا لائٹ نہیں
لینا چاہیئے۔ ـبلکہ اتباع ِرسول ﷺ اور اسلامی کلچر وتہذیب میں اپنے آپ کو
ڈالنا ہی مسلمان کو تباہی سے بچا سکتا ہے ـغیر اسلامی تہذیبوں کو زندہ کرنا
امت مسلمہ کی موت ہے ـاور اسلامی کلچر اور اقدار پر عمل پیرا ہونا امت
مسلمہ کی حیات ہے ـ گویا کہ موت و حیات کا مسئلہ ہے، کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں
ـ یہی وجہ تھی کہ حضرات صحابہ کرامؓ آپﷺ کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کا
قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے ـآپﷺؐ کی عمومی زندگی حضرات صحابہؓ کے رواج میں
مکمل طور پر آگئی تھی، اس لئے اس زمانے میں دین سو فیصد موجود تھا، اور یہی
انکی کامیابی کا راز تھاـ ۔ آج بھی اگر امت ِمسلمہ محمدﷺؐ کی حیات مبارکہ
کو رواج دے اور اس سے پہلو تہی نہ کرے تو یہ بات یقینی طور پرکہی جا سکتی
ہے کہ امت ِمسلمہ ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو جا ئیگی ـاور ساتھ
ساتھ غیر اسلامی کلچر و تہذیبیں مختلف زاویوں اور راستوں کے ذریعے جو ہمارے
اندر جگہ کر گئی ہیں ـ مٹتی چلی جا ئینگی۔،ـاور آنے والوں کے لئے اسلامی
اقدار محفوظ ہوتے چلے جائیں گے ـ اس لیے امت مسلمہ کو یہ فیصلہ کرنا ناگزیر
ہے کہ ہم کسی غیر تہذیب کو اپنی زندگی میں کبھی بھی جگہ نہ دیں ـ ہم بے
ضمیر روشن خیالوں سے متأثرہو کر اپنے دینی اقدار کبھی نہ چھوڑیں اور ہر ہر
عمل میں آپﷺ کا مکمل اتباع کریں ـ |
|