امریکہ میں مسلم تعصب پسند امریکی
صدرات جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوگئے ، لیکن سب کو حیران کرگئے ۔ تمام
تجزیہ نگار ، سروے ، اندازے ، تُکے کچھ بھی کام نہیں آئے ، ایسا لگا کہ
جیسے پاکستانی ٹیم کرکٹ کھیل رہی ہو ، سب کو 100 فیصد میچ جیتنے کا یقین ہو
، پھر ایک دم سب کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم کی یاد آتی ہے اور جیتا ہوا میچ
یکدم ہار جاتے ہیں۔حالیہ امریکہ انتخابات میں یہی کچھ ہوا ۔ ہیلری کو بھی
سو فیصد اپنی کامیابی کا یقین تھا ، لیکن انکا حال بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم
کی طرح ہوا۔امریکا میں دھاندلی کا سب سے پہلے الزام نو منتخب صدر نے ہی
لگایا ، کہ ایک پولنگ اسٹیشن میں مخالف کو دو گھنٹے زیادہ ووٹ ڈالنے کیلئے
دیئے گئے ۔ جبکہ اس سے قبل بھی نو منتخب صدر اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے
تھے کہ انتخابات میں ان کو ہرانے کیلئے دھاندلی ہوسکتی ہے ۔ امریکی انتخابی
نظام نہایت پیچیدہ ہے ۔ لیکن غیر جانبدار ذرائع کے مطابق یہ بات بھی سامنے
آئی کہ ’ گدھے ‘ کو ماضی کے مقابلے میں ووٹ کم پڑے ہیں۔ اور پاکستانی عوام
کی طرح انھیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کی لیڈر جیت جائیں گی ، ہماری
پاکستانی بھی یہی کرتی ہیں کہ ووٹ ڈالنے سے زیادہ ووٹنگ کے نتائج اور اس کا
جشن منانے کے لئے بہت بڑی تعداد میں جمع ہوجاتی ہیں۔اور جب فیصلہ ان کے
خلاف آتا ہے تو دھاندلی کا نعرہ لگا دیا جاتا ہے ۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ
ملک میں دھاندلی کی باتیں ، انہونی سی لگتی ہیں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کہ
یہودیوں کا نظام جمہوریت ہو ، اور اس میں کسی قسم کاسقم نہ ہو، پاکستان کی
طرح ہر جمہوری ملک میں انتخابی دھوکہ دہی یا دھاندلی میں انتخابی عمل میں
رکاوٹ ڈالنا، ووٹنگ مشینوں میں کسی قسم کی گڑبڑ یا ووٹوں کی گنتی میں ہیرا
پھیری سے نتائج کو تبدیل کر دینا شامل ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان
میں ہم نے متعدد بار دیکھا ہے کہ انتقال ہونے والوں کے بھی ووٹ کاسٹ ہوتے
رہے ہیں ، اب جا کر پتہ چلا کہ ایسا امریکہ میں بھی ہوتا ۔"ڈیلی سیکرز "کے
مطابق ووٹر دھوکہ دہی میں انفرادی طور پر ووٹر کسی دوسرے شخص یا کسی فوت ہو
چکے شخص کی جگہ دے سکتا ہے۔ پاکستان میں ووٹر لسٹ میں تبدیلیا ں عام سی بات
ہے ، جعلی شناختی کارڈ سمیت نت نئے طریقوں سے ووٹر لسٹ میں ووٹ کا اس طرح
اندارج ہو جاتا ہے ، کہ پاکستان کے مستند ترین ادارے ’ نادارا ‘ کا سسٹم
بھی کام نہیں کرتا اور ایک گھر سے 750ووٹر نکل آتے ہیں ۔ کراچی کے رہنے
والے کا ووٹ گلگت پہنچ جاتا ہے ،امریکا میں خلا سے ووٹ کاسٹ کئے جاتے ہیں ،
پاکستان میں فرشتے ووٹ کاسٹ کرچکے ہین۔اب جا کر علم ہوا کہ ایسا صرف
پاکستان میں نہیں ہوتا بلکہ امریکا میں انتخابی عمل کے جائزے کے حوالے سے
نیو یارک کے انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی جس میں اس
بات کا انکشاف ہوا کہ شہر میں ووٹنگ کے لیے اہل افراد کی فہرست میں ایسے
بھی افراد شامل تھے جو کہ ووٹ دینے کے اہل قرار نہیں دیے جا سکتے تھے۔عمران
خان نے جب چار حلقوں کی تلاشی کا مطالبہ کیا تھا تو سب جانتے تھے کہ یہ چار
حلقے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں کوئی ایسے چار حلقے ایسے نہیں ہیں کہ
جو صاف و شفاف انتخابات کے معیار پر پورے اترتے ہوں ، کراچی میں تو بعض
حلقوں میں 102 اور 99.9فیصد کے حساب سے ریکارڈ ووٹ کا سٹ ہو چکے ہیں ۔ ایک
شخص اتنے ووٹ کاسٹ کرتا تھا کہ اس کا نگھوٹھا تھک جاتا تو اس کو دبا دبا کر
پر تگڑا کردیا جاتا ۔ بعض نے بعض بچوں کو نقلی انگھوٹے دے کر بیلٹ پیپر پر
انگوٹھا لگانے کا ٹاسک دیا گیا تھا ، سب چھوڑیں ، پرویز مشرف کے ریفر نڈم
میں ، راقم نے خود دیکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں کی دو انگلیوں پر سیاہی لگا کر
نشان لگائے جاتے تھے ، میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ، تو جواب ملا ، ایک ابا
کا ، ایک امی کا ، ایک دادا کا، ایک دادی کا ،ایک نانا کا ، ایک نانی کا،
ایک بیوی کا ، ایک بھائی کا ، ایک بہن کا ،اور ایک میرا ۔۔۔ تو ہوگئے نا ،
10ووٹ ، اب تمام گھرانے کو کیا تکلیف دینی ۔میں سمجھتا تھا کہ پاکستان میں
ہی یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن پتہ چلا کہ امریکہ میں حالیہ انتخابات میں ایک
تفتیشی ادارے کے اہلکار نااہل ووٹر بن کر 63 پولنگ کی جگہوں میں سے 61 میں
ووٹ ڈالنے میں کامیاب رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ امریکا کا
انتخابی عمل مکمل طور پر دھاندلی سے پاک نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر
پیغام دیا تھا کہ ہیلری کلنٹن کے حق میں 'ووٹر فراڈ' کیا جا رہا ہے۔ انہوں
نے ٹوئٹر پر اپنے حامیوں کو انتخابی مبصر بننے کے لیے ’ٹرمپ الیکشن آبزرورز'
میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ریاست پینسلوینیا میں انتخابی ریلی کے دوران
ان کا کہنا تھا کہ یاد رکھیں دوستوں، انتخابات میں دھاندلی ہوگی، اس لیے آپ
کو ووٹ دینے نکلنا ہوگا اور کڑی نگرانی رکھنی ہوگی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع
ابلاغ کی تنقید کو بھی انتخابات میں دھاندلی قرار دیتے ہوئے میڈیا ہاوسز کو
بھی دھاندلی میں ملوث قرار دیا ہے۔ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق
میئر نیویارک، روڈی گیولانی نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے
کہا ہے کہ مر چکے افراد بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں
گے۔سماجی، سیاسی، سفارتی اور دیگر معاملات پر تجزیہ کرنے والی تنظیم سیکر
ڈیلی (Seeker Daily) نے اپنے ویڈیو تجزیے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات اور
امریکی انتخابات میں دھاندلی پر جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی
انتخابات میں دھاندلی ممکن ہے۔ ایک انتخابی دھوکہ دہی اور دوسری ووٹرز
دھوکہ دہی۔اور اب پاکستانیوں کو کسی نے مغرب کی مثال دی کہ وہاں شفاف
الیکشن ہوتے ہیں ، تو اس کو حالیہ انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیکر بات
کرنی چاہیے ۔
ہم پاکستانی سمجھتے تھے کہ انتخابی اصلاحات ضروری ہیں ، اس کے لئے کئی دھرن
تختے ہوئے ، لیکن اب جا کر پتہ چلا کہ پاکستان ، اپنے 68سالہ پرانے دوست کے
نقش قدم پر چل رہا ہے ، دوستی کی ایسی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ری
پبلیکن پارٹی، جس کے نمائندے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، ووٹر فراڈ کو روکنے اور متعدد
مربتہ ووٹرز کی شناخت کے لیے قوانین متعارف کروانے کی کوشش کر چکی ہے، مگر
مخالفین اسے 1965 میں نافذ ہونے والے ووٹنگ کے حقوق کے قانون سے متصادم
قرار دیتے ہیں، کیوں کہ 1965 کے قانون کے تحت خواندگی کے ٹیسٹ اور دیگر
رکاوٹوں کو دور کیا گیا تھا تاکہ امریکی سیاہ فام آبادی بھی ووٹ ڈالنے کے
قابل ہوسکے۔امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام ڈیموکریٹک صدر بارک اوباما بھی
ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ووٹر دھاندلی کے الزامات پر خاموش
نہ رہ سکے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی
جمہوریت کی سب سے بہترین چیز سیاسی مقابلے میں ہونے والا جوش و جذبہ ہے۔اور
ہم پاکستانی کہتے ہیں کہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے۔اب امریکی عوام گو ٹرمپ
گو ، کا نعرہ لگا رہے ہیں ، لیکن ٹرمپ بھی میاں صاحب کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں
کہ یہ سب کرایئے کے مظاہرین ہیں ، ورنہ مغرب کی مثالیں دینے والے تو ہمارے
کان پکا بیٹھے تھے کہ جمہوریت تو مغرب میں ہے کہ عوام کی بات سنی جاتی ہے ،
لاکھوں عوام نکل آئیں تو اقتدار کا منصب والا یا وزیر فوراََ استعفی دے
دیتا ہے ، پھر ٹرمپ تو پکا کاروباری ساہو کار ہے ، اس نے تو پہلے ہی حساب
لگا لیا تھا کہ اگر میں ہار گیا تو میرے کتنے ملین ڈالرز کا نقصان ہوگا ،
اب وہ آج کل حساب لگا رہے ہیں کہ جتنے کے بعد انکو فائدہ کتنا ہوگا ۔پاکستان
خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں ، پاکستان اور امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے ،
ہمارے مزاج ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔چہرے بدلے یا پالیسیاں بدلے ، پا کستانی
اور امریکی نہ کبھی بدلیں ہیں اور نہ کبھی بدلیں گے ۔68/69سال میں دونوں
ایک دوسری کی کمزوری کو جانتے ہیں ، نئے امریکی صدر کی اگر نانی ہیں تو وہ
ضرور انھیں یاد کریں گے ، جب پاکستان ایسی ایسی گلگلیاں کرائے گا ، تو وہ
بھی سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ پاکستا ن تو ہمارا مائی باپ ہے۔اب ٹرمپ
ہندو انتہا پسندوں کو خطے کا تھانے دار بنائے یا کسی اور کو ، لیکن اس کی
مثال ایسی ہے ، جیسے گارڈ آف آنر میں ہاتھوں میں پکڑی جانے والی گنوں میں
گولیاں نہیں ہوتی ، اور ان ہتھیاروں کے دستے اور بوٹ کی دھمک سے بتایا جاتا
ہے کہ ساڈے آسرے تے ناں رہنا ۔
|