اعتماد کا فقدان

میڈیا نہ صرف موجودہ دور کی سب سے بڑی حقیقت ہے بلکہ میڈیاایک ایسی قوت بن کر سامنے آیا ہے جس کے اندر ریاستوں کے فیصلے بدلوانے کی اہلیت بھی ہے۔میڈیا جس خبر کو بریکنگ نیوز بناتا ہے اس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں اور یوں میڈیا رائے سازی میں ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔کبھی کبھی تو یہ حکمرانوں کو اتنا زچ کرتا ہے کہ ان کے پاس میڈیا کی دی گئی معلومات پر فیصلہ صدار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ امریکہ کے سارے میڈیا ہاؤسس کی یہ متفقہ رائے تھی کہ ۸ نومبر کے صدارتی معرکہ کی فاتح ہیلری کلنٹن ہو گی اور اس کیلئے قوم کو ذہنی طور پر تیار بھی کر لیا گیا تھاتاکہ جیسے ہی نتائج آنا شرع ہوں تو عوام کو ذہنی طور پر دھچکہ نہ لگے۔پوری انتخابی مہم میں ہیلری کلنٹن کا پلڑا بھاری رہا اور اس کی برتری کو عمومی طور پر تسلیم بھی کیا گیا لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ ہیلری کلنٹن کی یہ برتری ہوا ہو گئی اور وہ ہیلری جو برتری کے زعم میں ساتویں آسمان پر اڑ رہی تھی قصرِ صدارت اس کی نگاہوں سے دور ہونا شروع ہوگیااور یوں ان کے کیمپ میں تشویش کے آثار محسوس کئے جانے لگے۔میری ذاتی رائے ہے کہ انتخابات سے دو ہفتے قبل ای میل کاایشو ایک اہم موڑ بن کر سامنے آیا جس نے ڈولنڈ ٹرمپ کو ایک ہلکی سی روشنی کا عندیہ دیا۔ پھر کیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہلکی سی روشنی سے اپنی کامیابی کا تعین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ای امیل ایشو کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا کہ ہیلری کلنٹن ایک مجرم نظر آنے لگی ۔ایک ایسی مجرم جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یقین بھروسہ اور اعتماد کے فقدان نے نے ان تمام ووٹرز کو جو الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ہیلری کلنٹن سے دوری پر کھڑا کر دیا۔یہی وہ دوری تھی جس سے ڈولنڈ ٹرمپ نے بھر پور فائدہ اٹھا یا اور پہلی بار اپنی حریف ہیلری کلنٹن پر چار پوائنس کی برتری حاصل کرلی ۔اگر چہ عدالتی فیصلے کے بعد ای میل ایشو کی سنگینی کم ہو گئی اور ہیلری کلنٹن ایک دفعہ پھر ڈولنڈ ٹرمپ پر سبقت لیتی ہوئی نظر آئیں اور آخری لمحوں میں اپنے حریف پر ان کی برتری بھی قائم ہو گئی لیکن ای میل ایشو سے عوام کے اذہان میں ہیلری کلنٹن کے بارے میں اعتماد کی جو کمی نظر آئی تھی اسے اعتماد میں نہ بدلا جا سکا ۔وہ لوگ جو ہیلری کلنٹن کو امریکی سیاست کا ایک تابندہ ستارہ سمجھتے تھے ای میل ایشو نے ان کی نظر میں اس ستارے کو داغدار بنا دیا ۔ہیلری کلنٹن کو بھی اس کا شدید احساس تھا کہ فتح کا سہرا ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے لہذا صدر باراک حسین اوبامہ کو میدان میں اتارا گیا تا کہ صدارتی انتخاب میں ہیلری کی فتح کی راہ ہموار ہو سکے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ باراک حسین اوبامہ نے انتخابی مہم میں نکلنے میں دیر کر دی تھی کیونکہ اس وقت تک عوام اس بات کا فیصلہ کر چکے تھے کہ انھیں کس کا ساتھ دینا ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ کی ساری انتخابی منصوبہ بندی اقلیتوں،مسلمانوں اور سیاہ فاموں کے خلاف تھی اس لئے ضروری تھا کہ سیاہ فام ووٹوں کو متحرک کیا جاتا اور باراک حسین اوبامہ کی آمد سے سیاہ فامو ں کی حمائت کے معاملات قدرے سنبھلے لیکن اس حد تک نہیں کہ وہ ڈیمو کریٹ امیدوار کو فتح سے ہمکنار کر سکتے ۔ ای میل ایشو کے بعد عوام اس طرح کے جذبے کے ساتھ گھروں سے نہیں نکلے جیسے ان سے نکلنے کی توقع کی جا رہی تھی۔،۔

اس وقت پوری دنیا امریکی انتخابات کے نتائج سے حیران ہے۔کوئی شخص حتمی طور پر کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ساری انتخابی مہم منفی سوچ پر مبنی تھی اور منفی سوچ کبھی فتح سے ہمکنار نہیں ہوتی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ منفی سوچ کے باوجود وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہیں۔کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکی انتخابات میں کامیابی کا معیار کیا ہے؟ ایک ایسا شخص جو کوئی سیاسی پسِ منظر نہیں رکھتا اور جس پر کئی عدالتوں میں درجنوں مقدمات درج ہیں امریکہ کا صدر بن گیاہے۔اس سے پہلے ۴۴ صدور منتخب ہو چکے ہیں لیکن اتنا جذباتی اور متنازعہ صدر شائد پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ڈولنڈ ٹرمپ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دولت کی میزان میں ہر چیز کو تولتا ہے۔اسے شروع شروع میں ایک مسخرہ سمجھ کر صدارتی دوڑ میں شامل کیا گیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بڑے سکہ بند سیاستدانوں کو پیچھے دھکیل دیا اور ریپبلکن پارٹی کی نمائندگی کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اس کا صدارتی نامزدگی کا ٹکٹ حاصل کر لینا اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ یہ شخص کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرے گا جس سے سیاست میں ایک بھونچالی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ریپلکن پارٹی میں نامی گرامی سیاست دان ہیں لیکن صدارتی امیدواری کا پروانہ ایک ایسے شخص کے نام نکلا جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی انتخاب نہیں لڑا اور جو کبھی کسی عہدے پر فائز نہیں رہا۔اسے امریکی نظام کی خوبصورتی بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس میں ہرانسان کو حصہ لینے کا موقع دیا جا تا ہے ۔اب یہ ہر انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس حق کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ جانتے بوجھتے کہ وہ سیاست کا کھلاڑی نہیں ہے پھر بھی ایک بہترین کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا اور اپنی کمزور پوزیشن کو تاریخی بدل میں بدل کر سب کو حیران کر دیا۔،۔

کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیلری کلنٹن کی شکست میں اس کے عورت ہونے نے سب سے بڑا کردار دا کیا۔ان کی متفقہ رائے یہ ہے کہ مرد انہ سوسائٹی میں ایک عورت کا امریکی صدر بننا ناقابلِ تصور ہے لہذا ہیلری کلنٹن کی شکست نوشتہ دیوار تھی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عور ت کو ابھی تک وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ حقدار ہے۔اسے اب بھی کسی حد تک کم تر اکائی کی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔اسے ایک ایسی جنس تصور کیا جا تا ہے جس کا واحد مقصد مرد کا دل لبھانا اور اس کے جنسی جذبے کی تسکین کرنا ہے۔عورت کا بناؤ سنگھار، اس کی دلکشی اور اس کا حسن ہی عورت کی مقبولیت ماپنے کا پیمانہ ہے لہذا قدرت نے عورت کے اندر جو صلاحیتیں رکھی گئی ہیں وہ اس کی ظاہری دلکشی کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں اور یوں وہ ایک ایسی گڑیا کا روپ دھار لیتی ہے جس کا واحد مقصد مرد کا دل لبھانا رہ جاتا ہے۔بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ عورت کی تخلیق محض مرد کی تنہائی دور کتنے کی خاطر کی گئی ہے لہذا اس طرح کی سوچ میں عورت کی عقل و دانش اور صبرو تحمل کے جواہر کہاں تسلیم کئے جا سکتے ہیں۔چند سال قبل امریکی معاشرے میں عورت کو جو مقام حاصل تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔اسے تو ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں تھا چہ جائیکہ اسے صدرِ امریکہ تسلیم کیا جائے ؟لیکن ان تمام موانعات کے باوجود امریکی عورت نے اپنے مقام کو منوایا ہے اور معاشرے میں اپنی جگہ بنا ئی ہے ۔عورت ہونے کے باوجود ڈیمو کڑیٹ پارٹی کی امیدوار بننا کوئی معمولی معرکہ نہیں تھا لیکن ہیلری کلنٹن نے اس معرکہ کو بڑی ہی خوش اسلوبی سے سر کر لیا تھا۔ امریکی تاریخ میں ہیلری کلنٹن دوسری خاتون تھیں جھنوں نے صدارتی منصب کیلئے الیکشن میں حصہ لیا تھااور اس دفعہ ایسے لگ رہا تھا کہ ایک عورت پہلی بار صدارتی منصب پر فائز ہو کر نئی تاریخ رقم کریگی لیکن ساری بازی اس وقت پلٹ گئی جب کہ دو چار ہاتھ کی دوری پر لبِ بام رہ گیا۔موجودہ ہار جیت میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہے بس دو ریاستوں کا غیر متوقع نتیجہ ہیلری ک کلنٹن کی شکست اور ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کا باعث بن گیا۔ وہ دو ریاستیں جن میں ڈیمو کریٹ جیتتے تھے وہی پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سکہ جما لیا ہے اور انہی دو ریاستوں کے الیکٹورل نے فیصلہ کن وار کر دیا۔یہ سچ ہے کہ امریکی تاریخ میں کبھی کوئی عورت صدارت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکی لیکن کیا اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہیلری کلنٹن بھی اسی وجہ سے ہاری ہیں کہ وہ ایک عورت ہیں؟فرض کریں کہ ہم اس دلیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر اس صورت میں ہیلری کلنٹن کا پاپولر ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے کم ہو نا چائیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہیلری کلنٹن کا پاپولر ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے ہیلری کلنٹن کو ایک عورت ہونے کے ناطے نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس شکست کی وجو ہات دوسری ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔کبھی کبھی ایسے ہو جاتا ہے کہ بظاہر جیتا ہوا امیدوار ہار جاتا ہے اور اور ہارنے والا امیدوار فتح سے ہمکنار ہو جاتا ہے ۔امریکہ کا حالیہ الیکشن اس کی سب سے واضح مثال ہے۔۔۔،،،۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 447055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.