چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، امیر جماعت
اسلامی سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور طارق اسد
ایڈووکیٹ کی درخواستوں پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں
قائم5رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی پیر کو سماعت کی۔سماعت کے دوران
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما کیس میں سماعت 17نومبر
تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے
سیل کھولنا پڑے،ہم بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ،ہم
صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کریں گے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا
کہ پی ٹی آئی نے 6سو سے زائد صفحات کی دستاویزات جمع کرائیں جن کا کیس سے
کوئی تعلق ہی نہیں ، درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے۔چیف جسٹس
انور ظہر جمالی نے کہا کہ 700صفحات ایک طرف سے 1600دوسری طرف سے جمع کرائے
گئے ، ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔جسٹس عظمت
سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب خود ساختہ جلاوطنی میں چین چلے گئے ہیں، ہم کیا
کریں؟ نعیم بخاری نے جو کاغذات جمع کرائے ان کی ضرورت نہیں تھی، اخبارات کے
تراشے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وہ
مریم نواز کے بیان میں اضافے کے حوالے سے کچھ نئی دستاویزات جمع کروا رہے
ہیں ، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل جمع کرادیتے ہم دیکھ تو لیتے،
حامد خان نے کہاکہ انھیں د ستاویزات پہلے جمع کرانی چاہیے تھی ۔جسٹس عظمت
سعید شیخ نے درخواست گزاروں کے وکیل کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات پر
ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے اخباری تراشے جمع کرادیے ہیں،
اخباری تراشے الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں،الف لیلیٰ کی کہانیوں پر ہمارا وقت
کیوں ضائع کیا؟ کیا کسی اخبار کی خبر پر کسی کو پھانسی ہو سکتی ہے؟ اخبار
میں خبر آجائے کہ اﷲ دتہ نے اﷲ رکھا کو قتل کردیا ہے تو پھانسی دیدیں گے؟
اخبار ایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ
آف پاکستان میں زیر سماعت کیس کے دوران ڈرائی موڑ اس وقت آیا ہے کہ جب
وزیراعظم میاں نواز شریف کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں آج مریم
نواز شریف کا اضافی بیان جمع کرارہاہوں ۔ انھیں قطر کے شہزادے حماد بن جاسم
کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی جائے جو صرف عدالت کے ملاحظے کے
لیے ہے ۔اس بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر کے شیخ حماد بن جاسم نے وزیراعظم
میاں نواز شریف کے بچوں کو خریداری کے لئے تحفتاً رقم فراہم کی۔عدالت نے
کہا کہ آپ جس شخصیت کا نام لے رہے تو کیا بطور گواہ بلوانے پر وہ عدالت میں
پیش ہوں گے؟ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ شیخ صاحب کیا آپ کو اس دستاویز کی
حساسیت کا پتہ ہے ؟ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر ملکی سربراہ نے آپ کو تحفہ
دیا ہے۔جسٹس عظمت نے کہا کہ پہلے آپ نے 4 فلیٹس کا کہا اب 1982 سے لے کر اب
تک کی دستاویزات جمع کرادیں،ان دستاویزات کا کوئی سر ہے نہ پیر، سارا مواد
ریکارڈ پر ہے، اس کو کمیشن تسلیم نہیں کرتا تو کہیں گے سارا ریکارڈ نہیں
دیکھا ، اگر سارے ریکارڈ کا جائزہ لیا تو 6 ماہ میں بھی رپورٹ نہیں آئے گی،
وہ دستاویزات دیں، جن سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے، اخباری خبر کی
بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔اہم بات یہ ہے کہ اس بار درخواست گزار کے
وکیل حامدخان نے عدالت سے وقت مانگا اور کہا کہ جو دستاویزات جمع کرائی گئی
ہیں انہیں دیکھنے کے لیے 48گھنٹے کا وقت دیا جائے اکرم شیخ نے کہا کہ میاں
شریف کے 70کی دہائی میں 6یونٹ تھے، ان میں سے 5یونٹ قومیا لیے گئے ۔ گلف
اسٹیل دبئی کے امیر کی مدد سے لگائی گئی ، یہ دستاویزات عدالت میں پیش کردی
گئی ہیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے
پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کے برعکس ہیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیر اعظم
کے بچوں کا وکیل ہوں وزیر اعظم کا نہیں ، وزیر اعظم کا جواب سلمان اسلم بٹ
دیں گے۔ یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا
کہ ہماری کوشش تھی اتنا مواد آئے کہ 2،3روز میں جائزہ لیکر خود فیصلہ کریں
، ہمارا تاثردرست ثابت نہیں ہوا، بہت زیادہ دستاویزات آگئیں کہ اصل اور نقل
کا پتہ ہی نہ چل سکے، اس طرح تو اس کیس کا فیصلہ 6ماہ بھی ممکن نہیں ہے۔کیس
کی سماعت 17نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔اس پوری سماعت کے دوران دو تین باتیں
بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ عدالت کی طرف سے فریقن کی
طرف سے 700اور 1600پیپرز فراہم کرنے پر اعتراض کیااور کہا کیا کہ ہم کوئی
کمپیوٹر تو نہیں کہ اسے اسکین کرلیں۔ انھیں پڑھنے میں وقت لگے گا۔ عدالت نے
کہا کہ وہ دو تین دن میں اس معاملے کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے
تھے لیکن اس طرح تو اس میں چھ ماہ بھی لگ سکتے ہیں۔ دوسری اہم ترین بات یہ
ہوئی کہ عدالت نے درخواست گزاروں کی طرف سے فراہم کئے گئے اخباری ثبوتوں کو
غیر اہم اور ردی قرار دے دیا۔ عدالت کی طرف سے کہاگیا کہ درخواست گزار نے
خود ہی سچ کو دفن کر دیا جبکہ پانامہ کیس کی اس سماعت کے دوران تیسری اور
اہم ترین بات یہ ہوئی ہے کہ مریم نواز نئے بیان کے بعد بڑی حد تک مقدمے کا
رخ ہی تبدیل ہو گیا کہ رقم قطر کے شہزادے حماد بن جاسم کی طرف سے تحفہ میں
دی گئی۔ ظاہر ہے کہ جو شہزادہ رقم فراہم کرنے کے لئے اپنا نام پیش کرنے کو
تیار ہے تو وہ پھر عدالت میں پیش ہو کر بیان دینے پر بھی تیار ہو جائے گا۔
اس صورت میں امکان یہی ہے کہ کیس کی سماعت مزید طول پکڑے گی اور کچھ بھی
ثابت نہیں ہو سکے گا۔ |