نظریاتی سیاست-منظر و پس منظر! (۲)
(Muhammad Asif Iqbal, India)
عموماً دنیا میں بہت کچھ وہ ہوتا ہے جو ہم
نے سوچا نہیں تھا یا ہمارے وہم و گمان میں نہیں ہوتا۔اس کے باوجود توقعات
اور امیدوں پردنیا میں نہ صرف نظریات فروغ پاتے ہیں بلکہ نظریات کی روشنی
میں دائرہ کار بھی متعین کیا جاتا ہے۔اور چونکہ انسان غیب کا علم نہیں
رکھتا اس لیے فطری طور پر ان خواہشات کو مزید تقویت ملتی ہے جس کی خواہش
منفی یا مثبت پہلو سے انسان رکھتا ہے۔ایک زمانے میں مظلوم اور کمزور طبقہ
کی فلاح و بہود کے لیے آواز اٹھائی گئی۔مزدوروں سے اپنے رشتہ کو استوار کیا
گیا۔ان کے مسائل کو عام و خاص ہر شخص کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس پیشکش اور
فلاح و بہبود کی جدوجہد میں دو قسم کے لوگ شامل ہوتے نظر آئے ، ایک وہ جو
فلاحی کاموں کو فروغ دینے کا حوصلہ رکھتے تھے،سماج میں پہلے ان کوحیثیت
حاصل تھی ساتھ ہی ان لوگوں کا شمار سوچنے سمجھنے والے اور فیصلوں کا رخ
موڑنے والوں میں ہوتا تھا ۔تو دوسرے وہ جو مسائل سے دوچار تھے۔لیکن دلچسپ
بات یہ ہے کہ مظلومین کی آواز اٹھاتے وقت ہی یہ دو قسم کے لوگ اپنے ہی
درمیان ایک بڑی کھائی قائم کرچکے تھے۔یہ کھائی تھی جدوجہد میں مصروف عمل
لوگوں کے حصول اقتدار کی کھائی ،تو وہیں جن سروں پر یہ اقتدار حاصل کیا
جانا تھا ،انہیں سروں کو اپنی جوتیوں تلے دبانے،کچلنے اور مسخ کرنے کی
کھائی۔لازم تھا کہ اسی پہلے مرحلے میں برسراقتدارطبقہ ابھر کر سامنے آجاتا
تو وہیں وہ طبقہ بھی جس کے لیے بظاہر یہ سعی و جہد کی جا رہی تھی،اور یہی
ہوا بھی۔ایک جانب سماج کا سوچنے سمجھے والا گروہ سامنے آیا،جس میں تخلیق
کار،سماجی ایکٹوسٹ، پالیسی سازاور اکاڈمک افراد تھے تو وہیں وہ مظلوم ،کمزور،پست
، اور مسائل سے دوچار گروہ جس کے حق میں یہ آواز اٹھائی جانی تھی۔لیکن
معاملہ یہیں نہیں تھمایہ طبقات جیسے جیسے ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کے
مفاد کی خاطر آگے بڑھتے گئے اور کسی بھی سطح پر کامیابی سے دوچار ہوئے، تو
بس ذرا ہی وقفہ ہوا کہ ایک بار پھر اندرون خانہ وہ انہیں مسائل سے دوچار ہو
گئے کے لیے اِن سب نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔
آپ یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سننے والے کانوں نے سنا تھا کہ
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے،لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے،وہ دن کہ جس کا
وعدہ ہے،جو لوح ازل میں لکھا ہے،جب ظلم و ستم کے کوہ گراں،روئی کی طرح اڑ
جائیں گے،ہم محکوموں کے پاؤں تلے،یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی،اور اہل حکم کے
سر اوپر،جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی،جب ارض خدا کے کعبے سے،سب بت اٹھوائے جائیں
گے،ہم اہل سفا مردود حرم،مسند پہ بٹھائے جائیں گے،سب تاج اچھالے جائیں
گے،سب تخت گرائے جائیں گے،بس نام رہے گا اﷲ کا،جو غائب بھی ہے حاضر بھی،جو
ناظر بھی ہے منظر بھی،اٹھے گا انا الحق کا نعرہ،جو میں بھی ہوں اور تم بھی
ہو،اور راج کرے گی خلق خدا،جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو،لازم ہے کہ ہم بھی
دیکھیں گے۔یہ خوبصورت منظر جس وقت مخصوص علاقہ میں کھینچا جا رہا تھا اور
اس خوبصورت منظر میں جس طرح اسلامی نظریہ حیات ، اسلامی اقدار ، اسلامی
اقتداراور اسلامی نظریہ حیات رکھنے والوں کو موہوم کیا جا رہا تھا اور
عموماً توقعات اور امیدوں کے میناروں پر فائز افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا
جا رہا تھا،جب انہیں لوگوں کو اقتدار مخصوص علاقہ میں یا ملک عزیز کی
ریاستوں میں یا پھر دنیا کے دیگر حصوں میں حاصل ہوا۔تو ایک بار پھر اندورن
خانہ نہ صرف بجلیاں کڑکڑنے لگیں بلکہ تاج بھی اچھالے گئے اور تخت بھی گرائے
گئے۔کچھ یہی حال آج کل ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کا ہے جہاں سوشلزم یا
سماج واد اور اس کے نظریات پر مبنی برسراقتدار طبقہ کے درمیان دیکھنے میں
آرہا ہے۔
ولادیمیر لینن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ طبقاتی شعور رکھنے والے مزدوروں
کے لیے سوشلزم ایک سنجیدہ عقیدہ ہے نہ کہ پیٹی بورژوا مصالحت ساز اور قوم
پرست مخالفانہ میلانات کی پردوہ پوشی۔وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ اگر ہم مسئلے
کو سائنسی طریقے سے یعنی جدید معاشرے میں طبقاتی تعلقات کے نقطہ نظر سے پیش
کرنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ اکثر سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں اور
ان میں پیش پیش سب سے پہلے جرمن پارٹی -جو دوسری انٹر نیشنل میں سب سے بڑی
اور سب سے زیادہ بااثر ہے، پرولتاریہ کے خلاف اپنے اپنے جنرل اسٹافوں ،
حکومتوں اور بورژوازی سے جاملی ہیں۔یہ معاملہ عالمی تاریخی اہمیت کا حامل
ہے اور انتہائی جامع تجزیے کا تقاضہ کرتا ہے۔مزید لکھتا ہے کہ ایک عرصے سے
یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ جنگیں اپنی جلو میں ہولناکیاں اور تباہیاں
لاتی ہیں لیکن ان سے ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسانی اداروں جو
گندہ ، دقیانوسی اور مردہ ہوتا ہے اسے وہ بے رحمی سے نے نقاب کردیتی ہیں،
منظر عام پر لاتی ہیں اور تباہ کردیتی ہیں۔1914-15ء کی یورپی جنگ بلاشبہ اس
لحاظ سے مفید ثابت ہو رہی ہے کہ اس نے مہذب ملکوں کے ترقی یافتہ طبقے پر یہ
آشکار کر دیا ہے کہ اس کی پارٹیوں کے اندر بدبودار پھوڑا پک رہا ہے اور کسی
سرچشمے سے ناقابل برداشت سڑی ہوئی عفونت آرہی ہے۔کیا یہ حقیقت ہے کہ یورپ
کی اہم اشتراکی پارٹیاں اپنے تمام عقائد اور فرائض کو خیر باد کہہ چکی
ہیں؟لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر نہ تو غدار بحث کرنے کے لیے آمادہ ہیں
اور نہ وہ لوگ اچھی طرح علم ہے یا قیاس، کہ غداروں کے ساتھ انہیں دوستانہ
اور برد بار رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ولادیمیر لینن کے اس مختصر ترین اقباس
سے چند حقائق واضح ہو جاتے ہیں۔ایک:گرچہ طبقاتی شعور رکھنے والوں کے لیے
سوشلزم ایک نظریہ ہو سکتا ہے اس کے باوجود مصالحت ساز اور قوم پرست
مخالفانہ میلانات ہر زمانے میں سوشلزم کی پہچان بنے رہے ہیں۔لہذا ان کی
کرنی اور کتھنی پر یقین اور یقین کو عقیدہ کی شکل دینا نہایت خطرناک
رجحانات کی جانب ایک قدم ہے۔وہیں لینن ہی کے الفاظ میں نظریہ کے حاملین اور
پارٹیاں عموماً اپنے انسانی وسائل اور صلاحیتوں کے ساتھ متضاد فکر کے فروغ
میں سرگرم عمل پارٹیوں کے ساتھ پردہ کے پیچھے فی زمانہ لین دین اور سودے
بازی کرتی رہی ہیں۔اور یہ جنگیں اور تباہیاں جو نہ صرف اہم ترین انسانی جان
سے کھلواڑ کرتی اور ہلاک کرتی ہیں بلکہ فضا کو بھی مکدر کرتی ہیں، اس میں
اگر کچھ مثبت ہے تو وہ یہی کہ منافقین کی پہچان ہو جاتی ہے اور وہ بے نقاب
ہوتے ہیں ۔اور آخری بات یہ کہ یہ اشتراکی فکر کے حاملین جنہیں کہیں نہ کہیں
سوشلزم اور سماج واد کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے وہ غداروں کے ساتھ
دوستانہ اور بردبار رویہ اختیار کرتے ہیں،تنقید سے بچتے ہیں،مسائل کے حل کے
لیے جدوجہد اس نہج پے نہیں کرتے جو مطلوب ہے اور تمام ان امو ر پر خاموشی
اختیار کرتے ہیں،جہاں انہیں مزید قوت اور طاقت کے ساتھ اپنی بات رکھنی
چاہیے۔
مضمون کے آخر میں آئیے ہندوستان کے پس منظر میں بات کرتے ہیں۔وطن عزیز میں
اشتراکیت کے علمبردار بھی ہیں تو وہیں سوشلزم اور سماج واد کا نعرہ لگانے
والے بھی۔نیز کمیونزم اور اس کے علمبردار بھی اپنی مٹھی بھی جمعیت کے ساتھ
وقتاً فوقتاً مختلف ایشوز پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن غور کیجئے گا کہ
یہ سب کب ہوتا ہے؟اور کیوں ہوتا ہے؟کیا واقعی یہ لوگ عدل و انصاف کے
علمبردار ہیں؟کیا واقعی جب انہیں کسی بھی سطح پر حکومت شامل ہونے یا حکومت
چلانے کا موقع ملتا ہے، اس وقت بھی مخصوص دائرہ یا جغرافیائی حصہ میں ،اپنے
خلاف یا ان لوگوں کے خلاف جن کی جانب سے دوسروں پر زیادتی ہو رہی ہے، آواز
اٹھانے، نعرے لگانے،دھرنے دینے،اور اسی نوعیت کے دیگر کام کرنے کے مواقع
میسر آتے ہیں، جن میں یہ اس وقت مصروف عمل ہوتے ہیں،جبکہ خود ان کی اپنی
شناخت ختم ہوتی نظر آئے؟مغربی بنگال میں کمیونزم کے علمبرداروں نے ایک طویل
عرصہ حکومت کی،نتیجہ کیا نکلا؟کیا واقعی اس عرصہ میں وہاں مزدوروں اور
مظلوم و کمزورترین سماج کے لوگوں کی حقوق کی بازیابی ہوئی؟نہیں ،ایسا نہیں
ہے۔اگر ایسا ہوتا تو وہاں موجودہ برسراقتدار ترنمول کانگریس اس قدر مارجن
کے ساتھ ایک نہیں دودوبار کامیاب نہیں ہوتی۔وہیں ریاست اترپردیش میں سماج
واد کے علمبرداروں کا معاملہ کیا ہے؟کیا وہ اقتدارمیں آنے کے بعد قریب ترین
یا مخصوص گروپ کے مفاد کے لیے سرگرم عمل ہوئے یا پھر سماج کے طبقاتی نظام
سے نجات دلانے اور کمزوروں و مظلوموں کی فریاد رسی کی قدر کرتے ہوئے ،عدل و
انصاف کے پیمانے قائم کیے؟۔۔۔۔جاری
|
|