حکمران قوم کے لئے مسیحا بنیں.... !! اگر جنرل راحیل مان جائیں
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
لیجئے آج حکمرانوں کا پروٹوکول کلچر خشکی تو خشکی سمندر تک پھیل چکاہے....
|
|
پاکستانی قوم کو 69سالوں سے ایک ایسے مسیحا
کی تلاش ہے جو قوم کے دُکھ درد کا مداواکرے، جس پر قوم آنکھ بند کرکے
اعتبار کرے کہ یہ قوم کی ڈوبتی ناؤپارلگا دے گا، مگر بدقسمتی سے میری
پاکستانی قوم کو ابھی تک کوئی بھی ایسا حکمران نہیں مل سکا ہے جو قوم کے
خوابوں کی تعبیر ہو، اور جو مُلک و قوم کے ساتھ مخلص ہو،قوم کو مسائل ،
بحرانوں ، مہنگائی اور دہشت گردی جیسی غلیظ دلدل سے نکالنے کا سبب بنے اور
مُلک و قوم کو اُس مقام پر پہنچادے جس کی میری پاکستانی غیور و محنت کش قوم
حقدار ہے ، (ہاں البتہ آج قوم کو جنرل راحیل شریف سے بڑی اُمیدیں وابستہ
ہیں اگر وہ مان جا ئیں تو...کیونکہ یہی قوم کے معیار پر پورے اُترے
ہیں)یہاں یہ امرقابلِ ستائش اور لائقِ احترم ہے کہ قوم تو مُلک کی تعمیرو
ترقی کے لئے مخلص ہے مگربڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ پچھلے
69سالوں سے جمہوراور جمہوریت کے نام پر یہی غیوراور محنت کش محبِ وطن قوم
انتخابات میں جنہیں ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچاتی رہی ہے وہ ہی اپنے ذاتی
اور سیاسی مفادات کے حصول کے خاطر قوم کی پیٹھ میں زہریلا چھرا گھونپتے رہے
ہیں ،قوم کے ووٹوں سے صدر اور وزیراعظم ہاوسز اور ایوانِ نمائندگان میں قدم
رنجا فرمانے والوں نے ہی اپنے احکامات ، اقدامات اور انتظامات اور پالیسیوں
اور منصوبوں سے قوم کے مسائل حل کرنے اور اِسے اِس کے بنیادی حقوق دلانے کے
بجائے اُلٹا قوم کو طرح طرح کے قرضوں اور بحرانوں میں جکڑ کررکھ دیاہے بات
یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اِنہوں نے اپنی ذاتی اور سیاسی لڑائیوں سے مُلک
میں بے روزگاری ، مہنگائی اور دہشت گردی کے ناسورکو پروان چڑھایا ہے پھر
اِس پر خود ہی لہک لہک کر یہ نعرہ بلند کیا اور قوم سے بھی یہی نعرے بلند
کراتے نہیں تھکے ہیں کہ اِنہوں نے مُلک و قوم کو ترقی اور خوشحالی کی راہ
پر گامزن کردیاہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے آج جس کے حکمران ، سیاستدان
اور ادارے دعوے کررہے ہیں آج بھی میری پاکستانی پریشان اور مفلوک الحال قوم
وہیں بے یارومددگار کھڑی ہے جہاں 69سال پہلے پڑی ہوئی تھی، ہاں حکمرانی کا
نٹوں کا سیج ہے،مگر اُن حکمرانوں کے لئے جو اپنی قوم اور عوامی دُکھ درد کو
محسوس کریں، اِ ن حکمرانوں کے لئے حکمرانی ہرگز کا نٹوں کا سیج نہیں ہوسکتی
ہے، جوقوم کی تکالیف اور مسائل سے عاری ہوں اور جنہوں نے جنرل انتخابات میں
حصولِ حکمرانی کے لئے انویسمنٹ کیں ہوں، اور جواِس طرح اپنی سیاہ کمائی سے
حکمرانی خریدیں ،توبھلا ایسے حاکموں کے لئے حکمرانی کسی بھی طرح سے کا نٹوں
کا سیج نہیں ہوسکتی ہے، آج اگر میرے مُلک میرے معاشرے اور میری تہذیب کے
حکمران یہ کہیں کہ حکمرانی کانٹوں کا سیج ہے تو جان لیجئے کہ یہ سفید جھوٹ
بول رہے ہیں، کیونکہ یہ کیا جانے کہ حکمرانی کیا ہوتی ہے؟؟یہ توحکمرانی کا
منصب سنبھال کر بس اپنی دُکانیں چلارہے ہیں ، اور دودونی چارکرکے چاردو نی
آٹھ اور اِس طرح بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں آج اِس معاملے میں جا ئز و نا جائز
سب چل رہاہے ، منصبِ اقتدار پر قدم رنجا فرمانے والوں کا سب کیا دھرا سیاہ
سفید سب کے سامنے ہے ، سب کے بارے میں سب ، سب کچھ جانتے ہیں،کہ آج جو
اشخاص حکمرانی کی شکل میں قوم پر مسلط ہیں ، اِن کی ظاہر وباطن حقیقت کیا
ہے؟ یہ کیا تھے؟ اور آج کیا ہوگئے ہیں؟اِنہوں نے قوم کو کس طرح بیوقوف
بنایا اور کس طرح قوم کی آنکھ میں دھول جھونک کر اِنہوں نے منصبِ حکمرانی
خریدی ہے ،اور کس طرح اِدھر اور اُدھر دونوں طرف اپنے ذاتی اور فیملی
ممبران کے بینک کھاتوں کی لمبی لمبی قطاریں بنائیں اور پھر بناتے ہی چلے
گئے ہیں، مگراِنہیں قوم کی فلاح و بہبود کا ایک رتی برابر بھی خیال نہیں ہے
حد تو یہ ہے کہ آج بیرونِ ممالک سے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے جتنے فنڈ
بھی آرہے ہیں یہ وہ بھی اپنی ذاتی مفادات اور سیاسی حصول میں لگا ئے جارہے
ہیں الغرض یہ کہ جب حکمرانوں کو حکمرانی انویسمنٹ کرکے حاصل ہوتو پھر ایسا
ہی ہوتا ہے جیسا کہ ہورہاہے اِس طرح حکمرانی کے فرائض منصبی پر فائز ہونے
والوں کویہ تک معلوم نہیں ہے کہ اِنہیں کون کون سی ذمہ داریاں کس طرح انجام
دینی چا ہئیں یہ تووہ بھی نہیں جانتے ہیں ؟؟ اِنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے
کہ زمینِ خدا پراﷲ کے بندوں پر اِس فرائض منصبی کی ادائیگی کرنے والوں کی
حیثیت نائب خدا ہوتی ہے۔
آج حکمرانی کو انتخابات میں انویسمنٹ کرکے خریدنے والوں کے لئے قومی
دولت(قومی خزانہ ) اور سرکاری مشینری اور پروٹوکول کو اپنی ذات اور اپنے
خاندان والوں کے لئے استعمال کرنا جیسے اِن لوگوں کا مشغلہ اور حق بن
گیاہے،آج حکمرانی کا منصب (سیاہ دولت سے)خریدنے والوں کے لئے پروٹوکول کا
سلسلہ خشکی تو خشکی اَب تو تری یعنی کہ سمندر کے پانیوں تک بھی پھیل چکا ہے
اگر آج بھی بحرہ عرب سے متصل کراچی کے ایک قدیم جزیرے میں کوئی سرکاری
تقریب منعقد ہوتی ہے تو سمندر کے راستے لانچوں سے کیماڑی کراچی سے لانچوں
کے ذریعے جزیرے پر جانے اور آنے والے رہائشوں کے لئے صبح سے دوپہر اور
بسااوقات شام تک عام عوام کی آمدورفت روک دی جاتی ہے اور جواز یہ پیش کیا
جاتا ہے کہ حکمران الوقت کی تقریب میں آمد کی وجہ سے بطور پروٹوکول اور
سیکیورٹی مقاصد کے لئے یہ اقدام اور اِس جیسے بہت سے سخت اقدامات کئے گئے
ہیں ہاں اگر اِس دوران جزیرے پر آبادمکینوں کو کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتِ
حال کا سامنادرپیش ہوتو اِن کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتاہے، اور وہ
پابند ی کے مقررہ وقت ختم ہونے سے قبل سمندبھی پارنہیں کرسکتے ہیں بھلے سے
کسی کاجانی ومالی کتناہی بڑا نقصان کیوں نہ ہوجائے یہاں بڑے افسوس کی بات
یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے یہ پریکٹس جاری ہے آج تک اِس جانب نہ تو کسی
میڈیانے آواز اُٹھائی ہے اور نہ کسی سماجی دردرکھنے والی کسی تنظیم نے یہ
مناسب جا نا ہے کہ کوئی اِس جانب توجہ دلائے کہ خدارا خشکی تو خشکی اَب
سمندر پر بھی پروٹوکو ل کلچرکو ہوادے کرقوم کوپروٹوکول کلچر کی پھینٹ چڑھنے
سے بچایا جائے کیا اَبھی قوم کو اپنے لئے ایسے مسیحا حکمران کی تلاش نہ ہو،
جو اِس کے لئے توانائی بحرانوں، مسائل، بے روزگاری اور دہشت گردی کے
ناسوروں سمیت خشکی اور تری کے پروٹوکول سے نجات دلائے۔(ختم شُد) |
|