یہ خیال قوی تھا کہ میں بھی امریکی
انتخابات پر تبصرہ کرونگی ۔امریکی صدر کے انتخاب کو امریکیوں کا متعصبانہ
اور بیوقوفانہـ فیصلہ کہو نگی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو اقوام عالم کے لیے
خطرہ اور امت مسلمہ کے لیے قابل فکر حالات قرار دونگی دراصل خوش فہم
صحافیوں کی طرح میری بھی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے
ہیں اور میں نے یہ بارہا کہا کہ نریندر مودی خطے کے لیے خطرہ ہے تو ڈونلڈ
ٹرمپ سیاہ فام اور مسلمان دونوں اقوام کے لیے خطرناک ثابت ہوگا جبکہ ہیلری
کلنٹن تو دودھ کی دھلی ہوئی ہماری پھوپھو کی بیٹی تھی حیرت ہے کہ اس انتخاب
پر ماتم کرنے والے کیسے بھول گئے کہ ہیلری کلنٹنـ’’ ہٹلرانہ ذہنیت‘‘ کی
مالک تھیں اور انھوں نے مشرق وسطی کی تینوں جنگوں عراق ،شام اور لیبیا کی
ہمیشہ پرزورحمایت کی بلکہ وہ امت مسلمہ کے خلاف کی جانے والی پالیسیوں میں
ہمیشہ معاون رہیں ہیں اور جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کی بات ہے وہ کامیاب بزنس مین
ضرور ہیں مگر ان کے شوق اور ترجیحات نے انھیں ہمیشہ ناکامی اور بدنامی سے
دوچار کیاہے اور اس کی وجہ ان کی بے انتہا دولت قرار دی جا سکتی ہے اسی سبب
وہ خواتین سے نازیبا گفتگو کے باعث خبروں میں ہمیشہ رہے اوریہ بھی کوئی بڑی
بات نہیں کیونکہ وہ مس یونیورس اورمس یو ایس اے کے مقابلے بھی منعقد کرواتے
رہے تو ماحول کا اثر تو ہوتا ہے شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی دو شادیاں ناکام
ہوئیں اورموجودہ بیوی ایک ماڈل ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بگڑے ہوئے
نواب ہیں جو جنگی باتیں تو کر سکتا ہے مگر جنگ کو ترجیح کبھی نہیں دے گا
ممکن ہے وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے اقوام عالم پر ایک خوف طاری کر دے جیسے
دوبارہ نائن الیون کی تحقیقات کا حکم دینے کا عندیہ دیا گیا ہے اگر چہ شراب
اور شباب کے انتہائی عادی بمشکل ہی تلواراٹھاتے ہیں تاوقتیکہ یہ کہنا پڑے
گا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ اسلام دشمن ،نسل پرست اور بیباک انسان
کے طور پر سامنے آئے ہیں جیسے نریندر مودی نے اسلام دشمنی اور نسل پرستی کو
بنیاد بنا کر انتخاب جیتا تھا اسی پالیسی کو بنیاد بنا کر ڈونلڈ ٹرمپ فتح
یاب ہوئے ہیں چنانچہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں انتہا پسندی کے
خلاف بولنے والوں نے انتہا پسندوں کو منتخب کر کے دنیا پر ’’ واضح ‘‘کر دیا
ہے کہ انتہا پسند کاروائیاں انہی کی مرہون منت ہیں مزید براں آنے والے وقت
ہی اصل حقیقت ثابت کرے گا مگر یہ طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری زندگی جو
کیاڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے یہاں تک کہ انتخابی مہم کے دوران بازاری زبان
استعمال کی ، اسکینڈلائیز ہونے ،آف شور ریکارڈ رکھنے اور انتہا پسند
کہلوانے کے باوجود فتح پائی ہے تو ایسے میں ان کے طرز حکومت پر کوئی بھی
تبصرہ قبل از وقت ہوگاکیونکہ کرسی دیکھ کر اچھے اچھے اپنی اوقات بھول جاتے
ہیں-
ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب پر سبھی کف افسوس مل ہی رہے تھے کہ گورنر سندھ
کی تعیناتی نے پورے ملک کونہ صرف ششدر کر دیا بلکہ ان الزامات کا پول بھی
کھول دیا جو کہ چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ منتخب حکومت نے تمام محکموں میں نقب
لگائی ہے اور اپنے تعلق داروں اور وفاداروں کو یوں نوازا ہے کہ جیسے ـ’’اندھا
بانٹے ریوڑیاں بار بار دے اپنوں کو ـ‘‘کے مصداق عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے
قابلیت اور اہلیت سب کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے بریں سبب جن لوگوں کو زیرو
سے شروع کرنا تھا وہ ہیرو بنے پھر رہے ہیں البتہ ایک اور کام جو فرینڈلی
اپوزیشن کی شکل میں کیا ہے کہ جو لوگ ان نا انصافیوں اور غیر قانونی
انتظامات کے خلاف زبان کھولنے کی جرات کر سکتے تھے ان کا منہ اس محاورے کے
مصداق ـ’’جو دھن جاتا دیکھئے لیجئے بانٹ ‘‘ تو کچھ دھن دے کر بند کر دیا ہے
لہذا اب خان صاحب کے علاوہ ان غیر قانونی اقدامات اور بھرتیوں پرعموماً منہ
کھولتاہوا کوئی دکھائی نہیں دیتا اگر کوئی بات کرتا بھی ہے تو زیادہ تر سر
سرسری تنقید کر کے جمہوریت کی حفاظت کا عزم ضرورظاہر کرتا ہے ویسے بھی جب
ٹانگیں کھینچنے والے ٹانگیں دبانے لگیں تو طے ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے
اور یہاں تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ دال کالی ہے یہی وجہ ہے کہ غلاظت کے سمندر
میں پتھر پھینکنے سے سبھی ڈرتے ہیں کہ سر عام پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں یا
خاموشی سے دامن تار تار کر دیا جاتا ہے کہ سفید پوشی کا بھرم بھی جاتا رہتا
ہے -
اس پر راقم ذاتی طور پر سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم ان پر تبصرے کرنے میں
مشغول ہیں جو کہ خوف الہی اور اقتدار اعلیٰ کے وقار کی پرواہ ہی نہیں کرتے
جن کا ایمان ’’اقتدار کی کامیابی ‘‘ او ر مقصد حیات’’سپر پاور ‘‘ کا ٹائٹل
اپنے نام کرنا ہے جبکہ ہم تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں جس کا
مطلب ہی ’’لاالہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ ‘‘ ہے اور ہم اس بات پر یقین رکھتے
ہیں کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف واحد اﷲ تعالیٰ ہے اور حکمران اﷲ کو جواب
دہ ہیں پھر بھی یہاں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی طور بھی قابل ستائش یا
اسلامی ریاست کے مطابق نہیں ہے تو ہم دوسروں کو زیر بحث کیوں لائیں کہ وہ
تو شاید پھر بھی انسانیت کا مظاہرہ کر لیں یا ’’گاڈ ‘‘کو حساب کے خوف سے
انتہا پسندی سے باز رہیں البتہ یہ افسوسناک ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ
ہمیں نہ خدا سے ڈر لگتا ہے اور نہ ہی یوم حشر سے روح کانپتی ہے کس لیے ہم
بے لگام گھوڑے کی طرح بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ غریبوں اور حقداروں کے
خوابوں کو روندھتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں جبکہ ہم وہ قوم تھے کہ جو بحر
ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی صلاحیت اور حق و صداقت کے مخالفین پر ہیبت رکھتے
تھے مگر اب یہ عالم ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے ہی خون کے پیاسے ہو گئے
ہیں صد افسوس! اب ہماری عبادت گاہیں: درگاہیں، امام بارگاہیں ،چرچ اور
مسجدیں الغرض کچھ بھی محفوظ نہیں ہے البتہ ایوان اور حکمرانوں کے کھیت
کھلیان ضرور محفوظ ہیں ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم ادھر ادھر کی باتوں میں
عوام کو الجھا کر وقت گزار رہے ہیں جبکہ آج وطن عزیز کی ہوائیں بھی بین
کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ
ادھر اُدھر کی بات نہ کر ۔۔یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں ۔۔تیری راہبری کا سوال ہے
تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گورنر سندھ کا انتخاب ایک مذحکہ خیز اور
غلط فیصلہ ہے پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے تو لگی لپٹی رکھے بغیر
کہہ دیاکہ قائم علی شاہ (سابق وزیراعلیٰ سند ھ ) کو موہنجوداڑو کا
وزیراعلیٰ کہنے والوں کو ہڑپہ کا گورنر مبارک ہو ا ویسے ہماری رائے میں یہ
پاکستان میں قابلیت کا قحط الرجال ہے کہ ہم ابھی تک ایسے قابل اور اہل لوگ
پیدا نہیں کر سکے جو اعلی عہدوں پر فائز ہو سکیں وائے ناکامی کہ جنھیں آرام
کرنا چاہیئے انھیں بھی کام کرنا پڑ رہا ہے ویسے سننے میں آرہا ہے جناب
وزیراعظم بھی لا علم تھے کہ جسٹس صاحب اس قدر نحیف اور علیل ہو چکے ہیں کہ
بنا سہارے چل پھر بھی نہیں سکتے مگر ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی ہے کہ ہمارے
ہاں کسی بھی منصب پر تعیناتی سے قبل کیا مشاورتی اجلاس نہیں بلایا جاتا ؟
وہ کونسے مشیران ہیں جو ایسے معتبرانہ مشورے دیتے ہیں یا ایسے فیصلوں پر
اطمینان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ایسی حساس ذمہ داریاں جن پر ملک و قوم
کاسود و زیاں ٹکا ہوتا ہے وہ کسی بھی مشاورت یا اہلیت کے بنا کیسے سونپی جا
سکتی ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی صحت اور بزرگی کے بارے سبھی لاعلم
تھے ۔چلیں یہ درست ہے کہ عدالتی حوالے سے جناب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی
کی خدمات قابل قدر ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ صحافی حضرات اسے ’’وفاداری کا
انعام ‘‘ قرار دے رہے ہیں ان کے مطابق جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی صاحب کا
وزیراعظم نواز شریف سے پرانا تعلق ہے کہ 90 کی دہائی میں سپریم کورٹ کے جس
بنچ نے غلام اسحق خان کے فیصلے کے خلاف نواز شریف حکومت کو بحال کیا تھاتو
جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اس بنچ کا حصہ تھے پھر جب وزیراعظم نواز شریف
کا چیف جسٹس (ر)سجاد علی شاہ سے تنازع ہوا تو معاملات مزید گھمبیر ہوگئے تو
موصوف نے اپنے ہی چیف جسٹس کو معزول کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھاکیونکہ
چیف جسٹس صاحب نے شاہانہ انداز حکمرانی کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اس جرم
میں وہ ایسے عتاب کا شکار ہوئے کہ انھیں انہی کے برادری بھائیوں نے سپریم
کورٹ سے نکال باہر کیا ان حقائق کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ یہ فرضی
دستاویزات نہیں ہیں یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے وہ داؤ پیچ ہیں کہ جنھوں
نے سیاسی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے تاہم چیف جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی
کو یہ کریڈیٹ بہرحال جاتا ہے کہ انھوں نے فوجی آمر پرویز مشرف سے پی سی او
کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا اورعتاب کا شکار بھی ہوئے مگر انھوں نے
گھر جانے کو ترجیح دی میاں صاحب کو ان کی عدالت عظمی سے یوں رخصتی نے ایسا
متاثر کیا کہ پہلے جناب کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا جو کہ
قرعہ فال جناب ممنون حسین کے نام نکلا تھا لیکن میاں صاحب چیف جسٹس (ر)
سعید الزماں صدیقی کی وفاداری اور جانثاری کو بھولے نہیں تھے بلاشبہ اگر ہم
دوسرا پہلو دیکھیں تو میاں صاحب نے محسنوں اور قرابت داروں کو نہ بھولنے کا
سبق دیا ہے یہ الگ بات کہ اس سب میں عوام اور حقدار پس کر رہ گئے ہیں -
بہر حال مجھے اتنا کہنا ہے کہ اگر ہمارے حکمران واقعی اپنے وفاداروں کو
نوازنا چاہتے ہیں تو اور بھی بہت سے ذرائع ہیں امور مملکت کے علاوہ اور بھی
ایسے محکمے موجود ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتی معلاملات میں
زیادہ عمل دخل نہیں ہے خدارا وطن عزیز اور عوامی اعتماد کے ساتھ مذاق مت
کریں اپنے محسنوں کو ضرور نوازیں مگر کلیدی عہدوں پر ایسی تقریریاں مناسب
نہیں ہیں خاص طور پر ان عہدوں پر جن کا تعلق عوام کے حال اورمستقبل سے ہے
جبکہ پاکستان میں مسلسل اکثر ایسے افراد عہدوں پر آرہے ہیں جن کی اہلیت اور
قابلیت دونوں مشکوک ہے براہ کرم اس بارے سنجیدگی سے سوچیں کہیں ایسا نہ ہو
کہ جنھیں آپ عزت بچانے کے لیے فائز کر رہے ہیں وہی آپ کے لیے شرمندگی کا
باعث بن جائیں کہ اپنے گھر میں رکھے ہوئے ایک جاندار کا حساب دینا مشکل ہے
جبکہ آپ کے ذمے تو بیس کروڑ کا حساب ہے اسی لیے میری مبصرین و ماہرین سے
استدعا ہے کہ آپ بین الاقوامی سیاست پر متفکر ضرور ہوں مگر اپنے حالات سے
رو گردانی مت کریں کہ ہمیں خطرہ غیروں سے نہیں اپنوں سے ہے اس لیے میں
ڈونلڈ ٹرمپ پر کیا کہوں کہ وہ جن حالات کی نوید سنا رہے ہیں ایسے حالات سے
تو کہیں نہ کہیں ہم پہلے سے ہی نبرد آزما ہیں کیا نہیں ہیں ۔۔؟ اگر ہیں
تو۔۔ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔۔۔۔! |