ترک صدر کا دورۂ پاکستان…… پائیدار دوستی کا آئینہ دار

ترک صدر طیب اردوان پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد جمعرات کی شب واپس چلے گئے، لیکن پاکستان کے عوام کے دلوں میں ابھی بھی بسے ہوئے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بدھ کے روز دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان آئے۔ نور خان ایئر بیس اسلام آباد پر اْن کا شاندار استقبال کیا گیا۔ پاکستان آمد کے بعد بدھ کو صدر ممنون حسین سے ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کرنے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خاتمے اور افغانستان میں دیرپا امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔ صدر اردوان نے کہا کہ دفاعی تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے سی پیک منصوبے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ عالمی امن و استحکام کا ذریعہ بنے گا۔ دونوں ملکوں کے وفود میں مذاکرات کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور صدر طیب ایردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے15جولائی کو ترکی میں بغاوت کی مذمت کی اور کہا کہ ترک عوام نے جرات و حوصلہ سے اسے ناکام بناکر جمہوریت کی سربلندی کے لیے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پاکستان ترکوں کا دوسرا گھر ہے اور پاکستان، ترکی تعلقات خطہ کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں تجارت اور سرمایہ کاری میں مزید ا ضافہ ہونا چاہیے۔ ترک صدر نے وزیر اعظم سے مذاکرات کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم معاشی، اقتصادی اور دفاعی شعبے میں تعاون بڑھائیں گے۔ ترک صدر طیب اردوان کے دورہ کے پاکستان کی معیشت پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ اْن کے ہمراہ تاجروں اور سرمایہ کاروں کا وفد بھی پاکستان آیا۔ دونوں ممالک کے درمیان توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری اور شراکت داری کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے، جن میں ڈیموں کی تعمیر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سمیت دیگر اہم منصوبے بھی شامل ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ پاکستان اور ترکی دو طرفہ تجارت کے سالانہ حجم کو دو ارب ڈالر تک بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم نے ترکی کی کاروباری شخصیات کو خصوصی مراعات دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ امید کی جارہی ہے کہ ترکی وفد کی پاکستان آمد سے خزانہ، بنکنگ تجارت، توانائی، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں کے علاوہ تعلیم، ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے راستے کھلیں گے۔

پاکستان اور ترکی کی تذویراتی شراکت داری کے لیے اقدامات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اور ترک صدر کی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اعلامیہ میں عالمی برادری سے اسلام فوبیا کی روک تھام کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے قریبی تعلقات کی مضبوط تذویراتی شراکت داری میں تبدیلی پر اطمینان کا اظہار اور دونوں ملکوں کی قیادت نے ترکی میں ناکام بغاوت کے خلاف ترک عوام کی بہادری کو سلام کیا۔ پاکستان اور ترکی نے اہم ایشوز پر ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعاد ہ کیا اور اعلیٰ سطح تذویراتی کونسل کے تحت جاری منصوبوں پر عملدرآمد پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ ثقافت، سیاحت اور تعلیمی وفود کے ذریعے عوامی روابط کے مزید فروغ کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے آزادانہ تجارت کے معاہدے کے لیے ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار اور آزادانہ تجارت کے معاہدے کے لیے مذاکرات رواں سال مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دفاعی شعبے میں تعاون کے لیے طویل المدتی جامع فریم ورک پر اتفاق اور وزارت خارجہ کی سطح پر دونوں ملکوں کا مشاورتی عمل کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور ترکی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا، عالمی برادری مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ملکوں سے تعاون کرے۔

صدر طیب اردگان نے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا اور پاکستان بقاء و سلامتی اور ترقی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ جمہوریہ ترکی کے صدر طیب اردوان جمعرات کی صبح جب ایوان وزیر اعظم پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس کے مرکزی دروازے پر معزز مہمان کو خوش آمدید کہا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے جمعرات کے روز کسی بھی غیر ملکی سربراہ مملکت کے طور پر پاکستانی پارلیمنٹ سے تیسری بار خطاب کرنے کا منفرد اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ 18 واں موقع تھا کہ کسی غیر ملکی سرکاری شخصیت نے پاکستانی پارلیمان سے خطاب کیا۔ رجب طیب اردوان پاکستانی پارلیمنٹ سے بطور وزیر اعظم دو بار 2009 اور 2012 میں مخاطب ہو چکے ہیں۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا خطاب معرکہ آرا اور بہت اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر جرات مندی کے ساتھ حقیقت بیان کی۔ ترک صدر نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ ترک صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان صدیوں پرانا مذہبی، ثقافتی دوستی کا لازوال رشتہ ہے۔ترکی نے کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے مؤقف کی ہر پلیٹ فارم پر حمایت کی۔ ترکی کے صدر نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی بھی مذمت کی ہے اور پاکستانی مؤقف کی حمایت و تائید کا بھی اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپیکر ایاز صادق نے جمہوریت اورقانون کی حکمرانی کے لیے پاکستان اور ترکی کے عوام کے یکساں نظریات و جذبات کے اظہار کے ساتھ ترک صدر کے سامنے کشمیر کا اثر انگیز مقدمہ پیش کردیا کہ کس طرح صرف جنوری 2016 سے اب تک ایک ہزار سے زاید معصوم کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے زخمی اور بصارت سے محروم کیا جاچکا ہے۔ 130 سے زاید اپنی زندگیاں ہار چکے ہیں اور لاکھوں ناختم ہونے والے مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں بھارت سیز فائر کی 230 مرتبہ خلاف ورزیاں کرچکا ہے۔ ترک صدر نے کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی۔ وزیراعظم ہاؤس میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ نواز شریف سے ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھی بات ہوئی۔ مسئلہ کشمیر کو کسی طرح بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور ترکی مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرسکتے ہیں اور ترکی بھی اس مسئلے کی مذاکرات کے ذریعے فوری حل کی حمایت کرتاہے، جب کہ کنٹرول لائن پر کشیدہ صورتحال پرتشویش ہے۔

صدر رجب طیب اردوان اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے بھی سربراہ ہیں۔ ترکی اسلامی تعاون کی تنظیم کے تنازع کشمیر کے لیے رابطہ گروپ کا سربراہ بھی ہے، جس میں اس کے وزیر خارجہ نے لائق تعریف فعال کردارادا کیاہے۔ انہوں نے کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اسلامی ممالک کی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ میں یہ مسئلہ بھرپور انداز میں اٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کشمیر کے مسئلہ کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیر ی عوام کی خواہشات کے مطابق فوری اور بامعنی حل کا خواہاں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ بھارت کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مظالم کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے اور سرحد پر مسلسل سیز فائر کی خلاف ورزی بھی کررہا ہے، ایسے میں عالم اسلام کے عظیم لیڈر طیب اردوان کا پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرنا نہ صرف پاکستان کے لیے نیک شگون ہے، بلکہ بھارت کے لیے بھی اس میں سبق پوشیدہ ہے کہ وہ پاکستان اور کشمیر میں جارحیت کا ارتکاب کرنے سے باز رہے، کیونکہ پاکستان تنہا نہیں ہے۔ ترک صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دین اسلام امن اور سلامتی کا پیامبر ہے۔ اسلام اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گرد اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں، جس طرح دہشت گرد دین اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں، کوئی نہیں پہنچا سکتا۔ ترک صدر نے پاکستانی قیادت کو ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت کے پس پردہ محرکات سے بھی آگاہ کیا اور واضح کیا کہ فتح اﷲ گولن تحریک کو مغرب کی حمایت حاصل ہے۔ ناکام بغاوت میں جو ہتھیار استعمال کیے گئے اس کے تانے بانے مغرب سے ملتے ہیں۔ ترک صدر نے پاکستانی قیادت کو باور کرایا کہ گولن تحریک سے چوکس اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، کیونکہ گولن القاعدہ اورداعش کی مدد کررہا ہے۔ صدر اردوان کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے گولن کے سرمایہ پر چلنے والے پاک ترک سکولز سسٹم کی چھان پھٹک نہ کی تو پاکستان بھی عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور پاک ترک دوستی کو ایک تاریخی ورثہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان لازوال تاریخی تعلقات موجود ہیں۔ ترک قوم سے ہمارے قلبی تعلق کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل شروع ہوچکا تھا۔ جب تقسیم سے پہلے برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا تھا، پوری دنیا سلطنتِ عثمانیہ کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے خلافت کی بحالی کے لیے جدوجہد میں اپنا حصہ اس طرح ڈالا تھا کہ انھوں نے جنگ نجات میں ترکی بھائیوں کی مدد کے لیے اپنے اثاثے تک فروخت کر ڈالے تھے۔ ہماری ثقافتوں اور تہذیبوں میں قربت اور باہمی تعاون تو صدیوں سے برقرار ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان گہرے، لازوال اور بے مثال تعلقات دونوں ممالک کے عوام کے لیے ایک ایسا اثاثہ ہیں، جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔یہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں۔ دنیا میں ترکی واحد ملک ہے، جہاں پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو اتنی عزت اور احترام حاصل ہے کہ پاکستانی یہاں پر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ 1965کی پاک بھارت جنگ میں ترکی نے پاکستان کو دفاعی امداد دینے کا اعلان 11ستمبر کو کر دیا تھا۔ اس سے پہلے 30ستمبر 1947کو جب پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بننے والا دنیا کا 56واں ملک بنا تھا تو پاکستان کی حمایت میں ترکی کے مندوب نے بھرپور تقریر کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اجلاس میں موجود 54ممالک میں سے 53نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ 20دسمبر 1971کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت کا حلف اٹھایا تو 24جنوری 1972کو سب سے پہلے جو غیرملکی دورہ انہوں نے کیا تھاوہ ترکی کا تھا۔ترکی نے بھٹو کو مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔ جب 2005ء میں پاکستان میں شدید زلزلہ آیا تو ترک باشندوں نے اپنا سب کچھ زلزلہ متاثرین کے لیے وقف کردیا اور خود انہوں نے پاکستان پہنچ کر اپنے پاکستانی بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھا تھا اور وزیراعظم ایردوان کی اہلیہ امینے خانم نے اپنا قیمتی ہار فنڈریزنگ مہم میں فروخت کر کے اس رقم کو خود زلزلہ متاثرین تک پہنچایا تھا۔ ایک ماہ بعد وزیراعظم اردوان نے خود پاکستان اور کشمیر کا دورہ کرکے زلزلہ متاثرین کو خود امداد بہم پہنچاکر ان کے دکھوں کا مداوا کیا۔ ترک ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے اور امدادی تنظیموں نے اپنے آرام و سکون کی پروا کیے بغیر زلزلے سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال اور مدد کی۔ بچوں اور بچیوں نے ایک ایک پیسہ جمع کرکے پاکستانی بھائیوں کے لیے خطیر رقم کو جمع کی۔ ایسے ترک باشندے جن کے پاس کچھ دینے کو نہ تھا، انہوں نے اپنے خون ہی کو پاکستانی بھائیوں کو دینے کی کوشش کی۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں مددگار ہونے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے لحاظ سے شاید ہی کسی دیگر ملک نے پاکستان کی اس قدر کھل کر حمایت کی ہو، جس قدر ترکی نے کی ہے۔ ترکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر دنیا کے مختلف بین الاقوامی اداروں میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناتے جو کردار ادا کیا اور بھارت کی ناراضی کی ذرّہ بھر بھی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کی جس طریقے سے ترجمانی کی ہے، شاید ہی کسی دیگر ملک نے کی ہو۔ اس طرح قبرصی ترک جو 1974ء کی قبرص جنگ میں تنہا رہ گئے تھے، صرف پاکستان ہی نے اپنے ترک بھائیوں کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ ترکی کی ترقی کا قابلِ تعریف پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خطے کا خوشحال ترین ملک ہے، جس نے یہ سفرجمہوریت پسند معاشرے کی مدد سے طے کیا ہے۔ ترکی نے جو ترقی کی ہے اس کا سہرا بلا شبہ ترک قیادت کو جاتا ہے۔ ترکی نے چند دہائیوں میں جدید ملک کا روپ دھارنے اور ترقی یافتہ بننے کے عمل میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔پاکستان ترکی سے اور پاکستانی قیادت ترک قیادت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگر سیکھنا چاہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.