بلوچستان کی خوشحالی اصل میں پاکستان کی خوشحالی ہے

گوادر پورٹ کا افتتاح
 40 ارب ڈالر ز کی سرمایہ کاری کے اس منصوبے پر گوادر ڈیپ سی پورٹ پر بندرگاہ کی ترقی ، گوادر سے بذریعہ روڈ اور ریل نیٹ ورک کاشغر اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی سامان کی ترسیل ایک ایسا منصوبہ جس سے اقتصادی اور معاشی جمود کو ختم کرنے اور تجارتی سرگرمیوں کو قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ترقی کی سمت گامزن کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے-

گوادر کی بندرگاہ سے برآمدات کا سلسلہ باضابطہ طور پر شروع ہو گیا ہے۔ اقتصادی راہداری کے پہلے قافلے کے گوادر پہنچنے اور وہاں سے برآمد کے آغاز پر افتتاحی تقریب میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، بلوچستان کے گورنر محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ نواب ثناء اﷲ زہری اور پاکستان میں تعینات مختلف ملکوں کے سفیروں نے شرکت کی۔پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی مناسبت سے چین سے کنٹینروں کے قافلے انتہائی سخت سکیورٹی میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر پہنچے تھے۔ کنٹینروں کا یہ قافلہ یکم نومبر کو چین سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔سکیورٹی کے دیگر اقدامات کے علاوہ بلوچستان کے ان علاقوں میں فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی جہاں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہے یہ کنٹینر چھ نومبر کو بلوچستان کے خیبر پختونخوا سے متصل ضلع ژوب میں داخل ہوئے تھے جو اقتصادی راہداری کے مجوزہ مغربی روٹ کے مختلف علاقوں کوئٹہ ، قلات، سوراب ، پنجگور اور کیچ سے ہوتے ہوئے گوادر پہنچے۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے چینی کنٹینروں کے قافلے کو انتہائی سخت سکیورٹی میں گزارا گیا۔کنٹینروں کے قافلے کے ساتھ نہ صرف فوج اور دیگر سکیورٹی سے متعلق اداروں کی ایک بھاری نفری تھی بلکہ مختلف علاقوں میں اس کی سکیورٹی کے لیے خصوصی انتطامات بھی کیے گئے تھے۔سکیورٹی کے دیگر اقدامات کے علاوہ بلوچستان کے ان علاقوں میں فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی جہاں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہے۔ان چینی کنٹینروں میں جو سامان لایا گیا ہے وہ گوادر سے بذریعہ بحری جہاز مشرقی وسطیٰ اور افریقی ممالک کو بھجوایا جائے گا۔اس سامان کو لے جانے کے لیے چین سے ایک بحری جہاز گوادر بھی پہنچ چکا ہے۔سی پیک کے تحت گوادر میں ابتدائی طور پر یعنی 2017 تک ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے یہاں بندرگاہ کو توسیع دینے کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔اقتصادی راہداری منصوبہ جس پر انتہائی سرعت کے ساتھ کام شروع کیاگیا اور خطہ میں چین پاکستان نے مشترکہ طور پر تجارتی سرگرمیوں میں نئے باب کا آغاز کیا۔ 40 ارب ڈالر ز کی سرمایہ کاری کے اس منصوبے پر گوادر ڈیپ سی پورٹ پر بندرگاہ کی ترقی ، گوادر سے بذریعہ روڈ اور ریل نیٹ ورک کاشغر اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی سامان کی ترسیل ایک ایسا منصوبہ جس سے اقتصادی اور معاشی جمود کو ختم کرنے اور تجارتی سرگرمیوں کو قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ترقی کی سمت گامزن کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

چونکہ یہ راہداری گوادر سے شروع ہوتی ہے اس لیے گوادر اور اس کی بندرگاہ کو اس سارے منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ساحلی قصبہ گوادر اور اس سے ملحقہ علاقہ 1958 میں حکومت پاکستان نے سلطنتِ اومان سے خریدا تھا۔اس ساحلی علاقے کی ایک بڑی بندرگاہ بننے کی قدرتی صلاحیت اس سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی جب 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔اس کے بعد سے گوادر کو بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کی باتیں تو ہوتی رہیں لیکن اس پر عملی کام کئی دہائیوں بعد 2002 میں شروع ہوا۔1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا تھا۔اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر کے کام کا افتتاح کیا اور 24 کروڑ ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ 2007 میں مکمل ہو گیا۔حکومت نے اس نئی نویلی بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دے دیا۔گوادر کی بندرگاہ پہلی بار تنازع اور شکوک و شبہات کی زد میں اس وقت آئی جب 2013 میں حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آنے لگیں۔اسی دوران نواز شریف کی سربراہی میں بننے والی حکومت نے اعلان کیا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے اور اس وقت معلوم ہوا کہ اس منصوبے میں سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔

جہاں حکومت گوادر کے لیے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں پر فخر کا اظہار کرتی ہے، وہیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس منصوبے پر اعتراض بھی کرتی ہیں کہ بلوچستان اور گوادر کے عوام کو اس منصوبے میں ان کا جائز حق نہیں دیا جا رہا۔آج ہر ذہن اور سوچ یہ سوال کرتی نظر آتی ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے گیس کے سب سے بڑے اور سب سے پہلے دریافت ہونے والے سوئی گیس کے ذخائر سے بلوچستان کے 29 اضلاع آج بھی کیوں محروم ہیں ؟سوئی کی زمین سے نکلنے والے ذخائر آج سندھ ، پنجاب ،خیبر پختونخوا سمیت آزاد جموں کشمیر کے طول و عرض تک پہنچائے جاچکے ہیں۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھارت پاکستان کی مشترکہ باؤنڈری لائن تک بھی سوئی گیس کی مدد سے کارخانوں میں پیداواری کام تیزی سے جاری ہیں۔ لیکن قدرتی گیس کے حقیقی مالک بلوچستان کے عوام آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں۔1952 ء سے 1984 ء تک بلوچستان کا سب سے بڑا شہر اور موجودہ دارالحکومت کوئٹہ بھی گیس کی سہولت سے محروم رہا۔ترقی اور وسائل کو بروئے کار لانے کے نام پر زیادتیوں کے نئے سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب 1970 ء میں تانبا اور سونے کے وسیع ذخائر یعنی سینڈک کاپر گولڈ کے ذخائرکا انکشاف ہوا۔ یہ ذخائر بلوچستان کے دور دراز ، پسماندہ اور افغانستان اور ایران کی مشترکہ سرحد پر واقع وسیع علاقہ چاغی کے وسیع ترین رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ذخائر کی تلاش میں چین کی طرف سے معاونت کی گئی۔معاونت کا یہ سلسلہ آج بھی پاک چین مشترکہ مفاد ات دوستی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 1995 ء میں سینڈک کاپر گولڈ پروجیکٹ پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوا اور ایک وسیع اندازے کے مطابق 13 اعشاریہ 5 بلین روپے کے یہ ذخائر پاک چین دوستی کو ہمالیہ کی بلندی سے بلند تو کرگئے لیکن چاغی کے عوام کو نہ صرف مکمل نظر انداز بلکہ 1999 ء میں ایٹمی دھماکا کی شکل میں اہل بلوچستان ، خاص طور پر چاغی کے عوام کو بڑا دھچکا دے گئے۔پاکستان اور چین کے درمیان سونے اور تانبا کے ان وسائل سے فیضیاب ہونے کا معاہدہ 350 ملین ڈالرز میں طے ہوا۔ مائننگ کا کام ابتدائی طور پر 10 سال کے لیے چین کی ایک کمپنی کے حوالے کیا گیا۔ایک خبر کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سینڈک سے 76.125.994 میڑک ٹن تانبہ ، 6 اعشاریہ 093 میٹرک ٹن سونا، اور 9 اعشاریہ 693 میٹرک ٹن چاندی نکالا گیا۔ پانچ سالوں کے دوران سینڈک سے نکالے جانے والے ذخائر کی قیمت کا تخمینہ اندازاً 834 اعشاریہ 209 امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔سوئی سے نکالے جانے والے گیس کے ذخائر جس کے حوالے سے خود وفاق کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے کہ گیس کی مد میں وفاق بلوچستان کا 371 ارب روپے کا مقروض ہے۔ چاغی میں ہی تانبا اور گولڈ کے دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر یعنی ریکوڈک بھی ان دنوں دوبارہ خبروں کی زینت بننا شروع ہوگئے ہیں۔ نواب ثنا اﷲ زہری کا وزیراعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے فرانس کا دورہ اور ریکوڈک کیس کے حوالے سے بین الاقوامی عدالت میں ہونے والی پیش رفت ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ محسوس ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے دورہ کے بعد کوئٹہ میں یہ کہنا کہ ریکوڈک میں پائے جانے والے اعلیٰ کوالٹی کاپر کے ذخائر جن میں ایک ٹن کاپر میں 0.26 فیصد سونا پایا جاتا ہے اگر صحیح طرح سے بروئے کار لائے جائیں تو بلوچستان میں فی خاندان 20 سے 25ہزار روپے ماہانہ دیے جاسکتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے لوگوں کو ماضی کے برخلاف جس طرح سوئی گیس ، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کے ساتھ کیا جاتا رہا ، یہی پالیسی اقتصادی راہداری منصوبے کے ساتھ بھی جاری رکھی گئی توبلوچستان کے عوام کی طرف سے احساس محرومی نہ تو کم ہوسکے گا نہ ہی منصوبہ کے مثبت ثمرات سے بلوچستان فیضیاب ہوسکے گا۔اقتصادی راہداری سے وابستہ تمام ترقیاتی منصوبے ایسے ہیں،جن کی جڑیں اور شاخیں برگ و بار لائیں گی تو اس کے ثمرات و فوائد اور چھاؤں سے چاروں صوبے اور اس کے شہری متمتع ہوں گے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اقتصادی راہداری کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے حسن کارکردگی ،فعالیت اور جوش و جذبہ کو بروئے کار لانا ہو گا۔
Ammara Khan
About the Author: Ammara Khan Read More Articles by Ammara Khan: 3 Articles with 2049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.