ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں کس کس کا کردار ہے؟

آئیے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں
الحمد اﷲ ہفتے( 12 نومبر) کی صبح حسب معمول نیند سے بیدار ہو کر اپنے گھر کی بالکونی میں پہنچا تو بوندا باندی ہورہی تھی ۔ یہ دیکھتے ہی میری آنکھوں سے اظہار تشکر کے آنسو نکل آئے اور میں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر رب کائنات کا شکر اداکیا ۔جس نے ہم گناہگاروں کی فریاد سن لی اور گزشتہ دو ہفتوں سے آسمان پر گرد آلود دھند کی تنی ہوئی چادرتو صاف ہوئی ۔ جس نے لاہور کے ایک کروڑ شہریوں کو پریشان کررکھا تھا ۔ میں نے فوری طورپر مصلہ بچھایا اور شکرانے کے دو نفل ادا کرکے اﷲ تعالی کے حضور التجا ء کی کہ پروردگار بے شک ہم بہت گناہگاروں ہیں ،ہم ہر وہ گناہ کرتے ہیں جس کی پیشین گوئی چودھویں صدی کے انسانوں کے بارے میں کی گئی تھی ، ہم رشتوں کا تقدس بھی پامال کرتے ہیں ہم انسان کو یہ جانتے ہوئے بھی ، کہ ایک انسان کاناحق قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیاجاتاہے ۔ قتل و غارت کابازار گرم کررکھا ہے شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہوگا جب اس ملک میں اندھے قتل نہ ہوتے ہوں ۔ ہم نماز بھی نہیں پڑھتے ، اس کے باوجود کہ اﷲ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ نماز میری آنکھوں کانور ہے ، نماز ہی مسلمان اور کافر کے مابین فرق ہے ،قبر میں سب سے پہلا سوال نماز کا ہی کیا جائے گا ۔جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا اس کی قبرمیں 72 اژدھا مسلط کیے جائیں گے ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ حقیقت اور سو فیصد سچی ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ پتھر پر لکیر ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تعالی اپنے نبی اور امام الانبیاء کی زبان سے نکلنے والی ہر بات اور دعا کو قبو ل بھی فرماتا ہے ۔ اس کے باوجود ہم پھربھی نماز نہ پڑھیں ، ہم رات رات تھڑوں پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپیں ماریں ، ہم پسندیدہ ڈراموں اور فلموں کے لیے ساری ساری جاگیں، ہم والدین کی وہ عزت بھی نہ کریں جس کا ہمارے دین نے درس دیا ہے ، ہم اپنے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب بھی نہ کریں ۔ ہم ملاوٹ ، دھوکہ بازی ، چوری ڈاکے اور بھتہ خوری بھی شروع کریں۔ تو قدرت کب تک ہماری نا فرمانیوں سے چشم پوشی کرتی رہے گی ۔ قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ ہے ۔"بے شک تمہارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔"
میں نے اپنی زندگی میں پہلے ایک بار 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران آسمان پر تلوار نمودار دیکھی تھی جس کی ہتھی پاکستان اور نوک بھارت کے جانب تھی جسے جنگ میں کامیابی کی ضمانت تصور کیاگیا ۔ 1971ء میں دمدار ستارہ رات کے وقت آسمان پر طلوع ہوا تھا جسے نحوست کی نشانی سمجھاگیا تھا کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑی جارہی تھی ۔ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا جہاں آ ج بھی پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دے کر عبرت کا نشان بنا یا جارہاہے ۔ علمائے کرام کے نزدیک دمدار ستارہ کچھ ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتا تھا ۔ اب یکم نومبر 2016ء کی صبح آسمان پر ایک ایسی گرد آلود دھند نما چادر سی تن گئی۔ جسے دیکھ کر ایک بزرگ بابا کرامت اﷲ نے چیخ کر کہا یہ اﷲ کا عذاب ہے جو ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہم پر نازل ہوا ہے۔ ایک ڈاکٹر کا ایس ایم ایس موصول ہوا ۔ گرد آلود دھند میں اس قدر زہریلے ذرات ہیں ، جس سے آنکھوں کے وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں ، سانس کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں ، گردوں اور پھیپھڑوں میں سوزش کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں ۔اس لیے گھر سے نکلتے وقت منہ کو کپڑے یا ہلمٹ سے ڈھانپ کر نکلا جائے ۔ وگرنہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔

حد سے بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے معالجین کی ایک ٹیم تشکیل دی اور انہیں حفاظتی اقدامات تجویز کرنے اورانہیں عوام الناس تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ۔ان ہدایات کے مطابق آنکھوں پر وقفے وقفے سے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے جائیں ، ناک اور گلے کو صاف رکھاجائے ۔ حکومتی سطح پر یہ ہدایات ٹھیک تھیں لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان عوامل کی جانب ہرگز توجہ نہیں دی گئی جن کی وجہ سے یہ زہریلی اور گرد آلود دھند معرض وجود میں آئی تھی ۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی از خود نوٹس کے تحت سیکرٹری ماحولیات سے پوچھا تو انہوں نے نہایت معصومیت سے جواب دے کر معاملے کو حسب معمول سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کی کہ بھارت کے سرحدی علاقوں کے وسیع رقبے پر چاولوں کی کاشت شروع ہونے والی ہے ۔ کاشت سے پہلے کھیتوں میں باقیات کو جلانے کے لیے کاشتکار آگ لگاتے ہیں۔ یہ زہریلی گرد آلو د دھند اسی آگ کا نتیجہ ہے ۔عدالت نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے اس توضیح کوجزوی قرار دیتے ہوئے مکمل رپورٹ طلب کرلی ۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں محکمہ ماحولیات توموجود ہے جس میں سیکرٹری کے علاوہ درجنوں بھاری تنخواہیں لینے والے افسران اور قومی وسائل پر شاہ خرچی کرنے والے ملازمین بھی موجود ہیں لیکن یہ تمام کے تمام دفتروں میں بیٹھ کے ہی مہینے بعد تنخواہ وصول کرتے ہیں اور ان کی چشم پوشانہ پالیسی اور رویوں کی وجہ سے ہر شخص (یہ جانے بغیر کہ اس نے خود بھی اسی ماحول میں سانس لینا ہے )ماحول کو آلودہ کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتا ہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بے شمار لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں کوڑے کے شاپراٹھائے ہوتے ہیں جیسے ہی انہیں موقعہ ملتا ہے وہ یہ جاننے کے باوجودکہ صفائی مسلمانوں کانصف ایمان ہے ، کوڑاسڑک کے درمیان میں پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔کئی خواتین کو گھر کی چھت سے ہی کوڑا پھینکتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ صفائی کرنا اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنا صرف انتظامی اداروں کا ہی کام نہیں ہے ۔اگر ہر شخص اپنے گھر کے سامنے صفائی کرلے تو کوئی وجہ نہیں کہ ماحول صاف ستھرا نہ ہو ۔ مجھے یاد ہے کہ آبادی قربان لائن جہاں زیادہ تر خاکروب اور صفائی والے ہی رہتے تھے۔ وہاں ایک صوبائی وزیر آیا ۔مقامی لوگوں نے جہاں اور مطالبات سامنے رکھے وہاں یہ مطالبہ بھی کیاگیا کہ ان کے گھروں کے سامنے روزانہ صفائی ہونی چاہیئے ۔

وزیر صاحب مقامی لوگوں کی باتیں نہایت تحمل سے سنتے رہے۔ پھر مطالبہ کرنے والوں سے فردا فردا پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں ۔سب نے باری باری جواب دیا۔ میں فلاں کوٹھی میں صفائی کاکام کرتا ہوں اور میں فلاں بنگلے میں ملازم ہوں ۔ جب سب اپنا تعارف کروا چکے تووزیر صاحب یہ کہتے ہوئے کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جولو گ دوسروں کے گھر وں میں جاکر صفائی کرتے ہیں وہ اپنے گھروں میں صفائی کیوں نہیں کرسکتے۔ اس نے مزیدکہا کہ کتا بھی بیٹھنے سے پہلے اپنی دم سے وہ جگہ صاف کرلیتا ہے آپ اس سے بھی گئے گزرے ہیں ۔

چند سال پہلے محمود بوٹی بند روڈ ،دروغہ والا لاہور سے گزر ہوا تو وہاں پورے شہر کا کوڑا اکٹھا کرکے اسے آگ لگائی گئی تھی ۔ یہ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ کوڑا اٹھانے والی کمپنیوں کا بجٹ ایک ار ب سے تجاوز کرچکا ہے ۔پورا کوڑا پھر بھی نہیں اٹھایا جاتا ۔ اتنی بڑی مقدار میں کوڑے کو کہاں اور کیسے ٹھکانے لگایاجائے۔ اس کے بارے میں انتظامی اداروں کے پاس کوئی پلاننگ نہیں ۔ چند سال پہلے سنتے تھے کہ حکومت ترقی یافتہ ممالک کی طرح کوڑے سے بجلی بنانے کے منصوبے پر کام کررہی ہے ۔ ہمیشہ کی طرح کروڑوں روپے فزیلبٹی اور متعلقہ افسران کے غیر ملکی دوروں پر تو خرچ کردیئے گئے لیکن کوڑے سے بجلی بنانے کا کام آج تک شروع نہیں ہوسکا ۔ لکھوڈھیر اور دریائے راوی کے درمیان محمود بوٹی بند کے سامنے آج بھی کوڑے کے انبار دکھائی دیتے ہیں ۔یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ کئی خاکروب کوڑا اٹھانے کی بجائے وہیں رکھ کر آگ لگا دیتے ہیں جس کا دھواں پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے ۔اگر کوئی پوچھے تو کہاجاتاہے کہ دھویں سے مچھر بھاگ جاتے ہیں یہ کارنامہ ہم اس لیے انجام دیتے ہیں ۔ لاہور شہر کتنا بڑا ہے اگر ایک چوتھائی خاکروب بھی کوڑے کو آگ لگانے لگیں اور محمود بوٹی بند کے قریب بھی بڑے ڈمپ میں بھی صبح سے شام تک کوڑے کو آگ لگی رہے توماحول میں گلاب کے پھول تو نہیں کھلیں گے زہریلی گیس ہی پیدا ہوگی ۔یہ گیس وہی شکل اختیار کرتی ہے جو نومبر کے ابتدائی ہفتوں میں لاہور کی فضا میں بخوبی دیکھی جاسکتی تھی ۔

میں محمود بوٹی کے علاقے میں صرف ایک سٹیل ملز کی پھیلائی ہوئی آلودگی کی نشاندھی کروں گا ۔ باقی جتنی بھی سٹیل ملز ہیں انہیں اس کے ساتھ ضرب دے لیں ۔کیونکہ سب جگہ ماحول ایسے ہی ہوتا تھا۔ میں جیسے ہی سٹیل مل کے گیٹ میں داخل ہوا تو سیاہ ترین دھویں نے پورے ماحول کو گھیر رکھا تھا پرانے ٹائروں کے انبار قریب ہی پڑے دکھائی دیے جن کوبار ی باری اٹھا کر ایک شخص جلتی ہوئی آگ میں ڈال رہا تھا جیسے ہی پرانا ٹائر آگ میں گرتا تو نہ صرف آگ میں شدت پیدا ہو جاتی بلکہ سیاہ زہریلا دھواں ایک آبشار کی شکل میں فضا میں بلند ہوتا ۔ اس بدترین اور گندے ماحول میں چند افراد چہرے پر کپڑا باندھے مزدوری کررہے تھے ۔نہ جانے ا ن کی کیا مجبوری تھی کہ وہ اس بدترین آلودہ ماحول میں کام کرنے پر مجبور تھے جہاں آسانی سے سانس لینا بھی محال تھا ۔ قریب سے گزر کر میں ایک ایسے دفتر پہنچا جو چاروں اطراف سے مکمل طور پر بند تھا اس میں ائیرکنڈیشنڈ نصب تھے اور اندر کے ماحول کو باہر کی آلودگی سے بچانے کا مکمل انتظام بھی تھا ۔ یہ سٹیل ملز کے چیف ایگزیکٹو کا دفتر تھا۔ چند افراد کاعملہ بھی وہاں فرائض منصبی انجام دیتا دکھائی دیا۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ لاہور کے اندر اور گردو جوار میں ایسی درجنوں سٹیل ملیں کام کررہی ہیں جو لیسکو ملازمین کی ملی بھگت کی وجہ سے بجلی بھی چوری کرتی ہیں اور ماحول کو بھی دن رات آلودہ کررہی ہیں ۔ محکمہ ماحولیات والے لمبی تان کر خوب سوئے رہتے ہیں اور ماحول لمحہ بہ لمحہ آلودہ تر ہوتا جارہاہے۔ جب ماحولیاتی آلودگی حد سے بڑھی اور ماحول کواپنی گرفت میں لیا تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی از خود نوٹس لے لیا تب کہیں جاکر محکمہ ماحولیات نے چند سٹیل ملز کا چالان کیا ۔ یہ تو اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے گزشتہ دو ہفتوں سے آبر آلود موسم کو اپنی رحمت سے کسی حد تک کلیئر کردیا ۔ وگرنہ ہم نے خود کو زہریلی دھند کے سپرد کرکے اپنی قبروں کو خود کھودنے سے گریز نہیں کیا تھا ۔

سٹیل ملز کے ساتھ ساتھ ریلوے کے سٹیم اور ڈیزل انجن بھی کسی سے کم نہیں ہیں وہ جب ٹرین کو لے کر چلتے ہیں تو ان کی چمنیوں سے بھی لامحدود زہریلا دھواں نکلتا ہے وہ جہاں جہاں سے گزرتے ہیں ،ماحول کو آلودہ کرتے جاتے ہیں ۔ اینٹوں کے بھٹے لاہور کے گردو نواح میں درجنوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔جو صبح و شام اپنی چمنیوں سے زہریلا دھواں اگلتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ دھواں جب صاف ستھری فضا میں شامل ہوتا ہے تو فضا کی پاکیزگی کو حد درجہ آلودہ کرتا ہے ۔ہم اینٹیں خریدتے ہیں ، ہم خوبصورت مکان بناتے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ اینٹیں بنانے والا دھواں ہمارے ماحول کو کس قدر آلودہ کررہا ہے۔یہ معاملات بھی محکمہ ماحولیات کی نظر سے دور ہیں ۔کیا ان کی چمنیوں میں ایسے آلات نہیں لگائے جاسکتے جو دھویں کا زہریلا پن ختم کرکے رنگت تبدیل کرکے پھر فضا میں بکھیریں ۔آج کل سڑکوں پر پرانے ٹائرجلاکر احتجاج کرناایک روایت بن چکی ہے ۔کہیں ینگ ڈاکٹراحتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں اساتذہ نئے اور سلیکشن سکیلوں کے لیے سراپا احتجاج ہیں ۔کہیں پی ٹی آئی والے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں تو کہیں مذہبی جماعتوں کااجتماع ہورہا ہے ۔ کہیں نرسوں نے طوفان اٹھایا ہوتا ہے تو کہیں سرکاری ملازمین احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ احتجاج کسی بھی شہر میں ہو ، پرانے ٹائروں کو جلانا اور اس کا دھواں پورے شہر میں پھیلانا ایک عام سی روایت بن چکی ہے ۔احتجاج ملک گیر سطح پر ایک وبا کی صورت دھار چکا ہے ۔ اس لیے اگر ماحولیات آلودگی اور ذہنی ٹیشن سے بچنا ہے تو عدلیہ اور حکومت کو سڑکوں پر احتجاج کرنے اور احتجاج کے دوران پرانے ٹائر جلانے اور ہر قسم کی آگ لگانے پر مکمل پابندی لگانا ہوگی اور احتجاج کے لیے ایک الگ جگہ مخصوص کر دی جائے جہاں میڈیاکے نمائندوں کے لیے بھی سہولتیں فراہم کرکے دی جائیں تاکہ مظاہرین کے احتجاج کامقصد بھی پورا ہوجائے اور ماحول بھی آلودہ نہ ہو ۔

ساری دنیامیں کوئلے کے بجلی گھر بند ہورہے ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئلے کے بجلی گھر بہت دھوم دھام سے تعمیر ہو رہے ہیں ۔جبکہ ہمارے پاس پانی ، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کے وسیع مواقع بھی موجود ہیں تو کوئلے کا پلانٹ لگانے کی کیا ضرورت ہے لیکن ہمارے وزیر اعلی جس بات پر ایک بار آمادہ ہوجاتے ہیں تو پھر انہیں وہاں سے ہٹانا ناممکن ہوجاتاہے ۔ لاہور میں پہلے میٹروبس سسٹم کا منصوبہ زیر تعمیر تھا ۔ ایک سال تک دھول اور گرد اڑتی رہی وہ سب فضا میں تحلیل ہوتی رہی۔پھر سگنل فری پراجیکٹ شروع ہوا اور تکمیل کو پہنچا ، مینار پاکستان کے قریب فلائی اووزکی تعمیر شروع ہوئی اور تکمیل ہوئی ، رنگ روڈ کی تعمیر شروع ہوئی اور پچھتر فیصد تکمیل ہوئی اب اس کا جنوبی اور مشرقی حصہ زیر تعمیر ہے ۔ ڈیڑھ سال سے میٹرو اورنج ٹرین پراجیکٹ پر کام شروع ہے ۔ ان تمام تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران وہ حفاظتی اقدامات اور تحفظات برقرار نہیں رکھے گئے جن کی اشد ضرورت تھی ۔ یہ گزشتہ سال نومبر کی بات ہے کہ مجھے عمرہ کی ادائیگی کے لیے چوبرجی کے قریب ایک ٹریولنگ ایجنسی کے دفتر براہ راستہ ملتان روڈ جانا تھا ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ملتان روڈ مکمل طور پر اکھاڑ دی گئی ہے جبکہ دھول اس قدر اڑرہی تھی کہ وہاں سے بغیر چہرہ ڈھانپے گزرنا اور سانس لینا محال تھا۔اس حالت میں گاڑیوں کی آمدورفت تو کلی طور پر بند تھی لیکن اونچے نیچے راستوں سے گزر کر بائیک پر سوار لوگ بہت مشکل سے گزر رہے تھے جنہوں نے اپنے چہرے کپڑوں میں چھپارکھے تھے ۔ یہ اڑنے والی دھول نہ صرف فضا میں تحلیل ہورہی تھی بلکہ ملتان روڈ کے ارد گرد رہنے والوں کی سانسوں میں جذب ہوکر انہیں ٹی بی کا مریض بنا رہی تھی ۔ اس بات کا میں اعتراف کرتا ہوں کہ میاں شہباز شریف اگر لاہور میں میگاپراجیکٹ شروع نہ کرتے تو شاید ماضی کی طرح اب بھی لاہور میں ٹریفک رینگ رہی ہوتی ۔بلکہ چند سالوں بعد لاہور کا کوئی بھی شہر ی اپنے گھر سے نکل کر دفتر تک بھی نہ پہنچ پاتا ۔ کیونکہ پورے پاکستان سے روزگار کے لیے نقل مکانی کرنے والے لوگوں نے لاہور پر یلغار کررکھی ہے اور یہاں دولت مند افرادکی آمداور بنکوں کی کار فنانس سکیموں کی بدولت کاروں اور دیگر ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی تعداد میں حد درجہ اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے کشادہ سڑکیں بھی چھوٹی دکھائی دیتی ہیں ۔ہاں جب عید تہوارپر لاہور پر یلغار کرنے والے پردیسی اپنے اپنے آبائی گھروں کا رخ کرتے ہیں تو لاہور کی یہی سڑکیں میدان نظر آتی ہیں جہاں بچے دل کھول کر کرکٹ کھیلتے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمار ا طرز تعمیر انتہائی سست اورغیر ذمہ دارانہ ہے ۔ کنسٹرکشن کمپنیاں پہلے چھ مہینے پتھر ڈال کربھاگ جاتی ہیں جب زیر تعمیر سڑک کی دھول اڑ اڑ کر لوگوں کے گھروں تک پہنچ جاتی ہے اور گزرنے والی گاڑیوں کے ٹائر پھٹ جاتے ہیں تب اس ادھوری سڑک کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتاہے ۔

لاہور میں ہر چوراہے پر ٹریفک کا ہجوم دیکھاجاسکتا ہے ایک اشارہ کراس کرتے ہوئے گاڑی کو دس سے پندرہ منٹ اس لیے لگ جاتے ہیں کہ ابھی چندگاڑیاں ہی گزرتی ہیں کہ اشارہ سرخ ہوجاتاہے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ سوائے جیل روڈ کے ہر چھوٹی بڑی سڑک پر ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ٹریفک اشارے نصب ہیں جہاں ہر لمحے ہزاروں گاڑیاں سٹارٹ حالت میں اشارہ کھلنے کی منتظر ہوتی ہیں ۔کیا سٹارٹ گاڑیاں میں جلنے والے پٹرول کادھواں فضا کو آلودہ نہیں کرتا ۔ یقینا گاڑیوں کے انجنوں میں جلنے والا پٹرول نہ صرف آکسیجن سک کرتا ہے بلکہ فضائی آلودگی کا بھی محرک بنتا ہے ۔ پھر سینکڑوں کی تعداد میں شاہراہوں پر سکولز اور کالجز قائم ہیں جہاں آدھی سے زیادہ سرکاری گاڑیاں بچوں کولینے کے لیے جمع ہوتی ہیں چونکہ سرکاری افسروں کو گاڑیوں کے ساتھ ساتھ مفت پٹرول اور ڈرائیور کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے ان میں نہ صرف گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر چلتے ہیں بلکہ وہ اکثر سٹارٹ حالت میں ہی رہتی ہیں ۔ یہ گاڑیاں بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہیں ۔ چند ہفتے پہلے مجھے کینٹ سے شاہدرہ جانے کا اتفاق ہوا ۔ سگیاں پل کی جانب اتنی گرد اڑ رہی تھی اور جگہ جگہ کوڑا بکھر ا ہوا تھا جیسے صدیوں سے اس علاقے کی صفائی نہیں ہوئی تھی پھر جب میں واپس راوی روڈ کی جانب سے واپس لگا تو دریائے راوی کے پل سے ایک کلومیٹر پہلے ہی ٹریفک جام تھی ۔کوشش کے باوجود کوئی ایک قدم ادھر اور ایک قدم ادھر نہیں کرسکتا تھا ۔لائٹ اور ہیوی ٹریفک کا اژدھام جہاں ذہنی اذیت کا باعث تھا وہاں فضائی آلودگی میں حد درجہ اضافے کا باعث بھی تھا۔

بہرکیف آسمان پر تنی ہوئی گرد آلود دھند کی چادر سے جہاں لاہور کا ہر شہر ی پریشان تھا ، وہاں میری تشویش بھی لازمی تھی ۔ ایک دن نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے سارا دن (بے شک چہرے پر رومال کر ہی) سڑکوں پر بائیک چلانی پڑی ۔ میں نے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق آنکھوں پر پانی کے چھینٹے بھی مارے اور منہ بھی اچھی طرح دھویا لیکن نہ جانے اڑتی ہوئی دھول کیسے میرے سانس تک پہنچ گئی ۔6 نومبر 2016ء کی دوپہر ہم سب فیملی سمیت بینکرز ایونیو جانے کی تیاری کررہے تھے ۔ میں بھی کپڑے پہن کر بالکل تیار تا کہ اچانک گلے میں خارش کااحساس ہوا اور کھانسی اٹھنے لگی ، میں نے زیادہ توجہ نہ کی چندلمحوں بعد ہی یہ کھانسی اس قد ر شدت اختیار کرلی کہ سانس ہی رک گیا۔ انسان کی جب سانس رکتی ہے تو پھر چند قدم اٹھانا اور مدد کے لیے دوسروں کو بلانا بھی محال ہوجاتاہے ۔میں بہت کوشش کے بعد باروچی خانے تک پہنچا اور انتہائی نحیف آواز میں بیگم سے چینی طلب کی ۔ جیسے ہی چینی میرے منہ میں پہنچی تو روکا ہوا سانس کچھ قدرے بحال ہوا لیکن چند لمحوں میں ہی میرا جسم پسینے سے شرابور اورنڈھال ہوچکا تھا ۔میں بیڈ میں لیٹا اپنی سانسیں بحال کرنے کی جستجو کررہا تھا جبکہ میرے تمام گھر والے بیگم سمیت میرے اردگرد جمع تھے۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے میرا سانس پہلے کی طرح بحال کردیا لیکن چندلمحوں کے دوران مجھے اس شدت اورتکلیف کااحساس ضرور ہوا جو اکثر سگریٹ نوش افراد کو عمر کے آخری حصے میں سانس میں دقت کی شکل میں ہوا کرتا ہے ۔ میرا چچا رحمت خان بھی سگریٹ نوش تھے کبھی کبھار حقہ بھی پی لیتے ۔ لیکن ان کی زندگی کے آخری چند سال سانس میں رکاوٹ کی وجہ سے بہت تکلیف میں گزرے ۔ ایک مرتبہ تو ایسا بھی ہواکہ ہمیں اطلاع پہنچ گئی کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ہم پورا خاندان ساہیوال جا پہنچے لیکن وہاں جاکر پتہ چلا کہ رکا ہوا سانس بحال ہوگیا ہے ۔پھر چند دن کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے ۔ میرے ایک اور دوست کے والد سانس میں دقت کی بنا پر چھ مہینے تک جناح ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر زندہ رہے ۔پھر جیسے ہی وینٹی لیٹر اتاراگیا تو وہ ان کی موت واقع ہوگئی ۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سانس میں رکاوٹ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو یا سگریٹ / حقہ نوشی کی وجہ سے ۔ انسان موت کے قریب پہنچ جاتاہے ۔ یہ سبق ہے ان چین سموکرز کے لیے جو ایک سگریٹ ابھی بجھتا نہیں کہ دوسرا سلگا لیتے ہیں ۔اگر دھواں پاک اورصاف فضا کو آلودہ کرسکتا ہے تو سگریٹ کا وہی دھواں جب انسانی پیٹ میں اترتا ہے تو وہاں کیا کیا طوفان اٹھاتا ہو گا ۔ میں سمجھتا ہوں سگریٹ کے دھویں نے بھی فضا کو آلودہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ بہرکیف اﷲ تعالی نے مجھے مزید زندہ رکھنا تھا اس لیے زندگی کی مزید مہلت مل گئی لیکن سانس میں رکاوٹ کی بنا پر میں جس تکلیف سے گزرا ہوں اس کا تصور کرکے میرے ہوش اڑ جاتے ہیں ۔

لاہور شہر میں بیشتر سڑکوں کے دونوں اطراف کچے راستے موجود ہیں جہاں سے مسلسل گرد اڑنا ایک فطری امر ہے ۔پھر سڑکوں کی تعمیر اس قدر ناقص ہے کہ دو بارشیں بھی نئی سڑک برداشت نہیں کرتی اور ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے ۔ جب تک طور طریقے تبدیل نہیں ہوتے ۔ جب تک انتظامی ادارے اپنا طرز تعمیر تبدیل نہیں کرتے ، جب تک اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے زہریلا دھواں اٹھنا بند نہیں ہوتا ، جب سٹیل ملز میں پرانے ٹائر جلا کر لوہے کو پگھلایا جانا بند نہیں ہوتا ، جب تک تمام سڑکیں سگنل فری نہیں ہوتیں ، جب تک گلی کوچوں اور بازاروں میں کوڑا جا بجا بکھرنے سے روکا نہیں جاتا ، جب تک ناقص میٹریل سے سڑکیں بنانا بند نہیں کی جاتیں ، جب تک پٹرول میں ملاوٹ نہیں کی جاتی ، جب تک ذاتی ٹرانسپورٹ کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی ، جب تک پبلک ٹرانسپورٹ عام نہیں کی جاتی ۔ اس وقت تک اسی طرح گرد اور دھویں کی چادر آسمان پر تنی رہے گی ۔ قرآن پا ک کے سورہ رحمن میں اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ تم میری سلطنت سے نکل کر جہاں تک بھاگ سکتے ہو بھاگ جاؤ ، میں تم پر ایک ایسا دھواں چھوڑوں گا جس کا تم مقابلہ نہ کرسکوں گے ۔

لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور بین الاقوامی طور پر اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ۔ میاں شہباز شریف اس شہر کو پیرس بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں لیکن انتظامی اداروں کی نااہلی ، سستی اور چشم پوشی اور عوامی لاپرواہی کی وجہ سے یہ تاریخی شہرگرد میں ڈھکا ہوا نظر آتا ہے ۔اسی گرد اور دھویں نے موٹر وے پر حادثات کی شکل میں دو درجن انسانوں کی نہ صرف جان لی بلکہ ہزاروں لوگ گلے ، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا بھی ہوئے ۔ انسان تو سوچتا ہی رہ گیا کہ اس آسمانی آفت سے کس طرح نمٹا جائے لیکن اﷲ تعالی کو اپنی مخلوق پررحم آگیا اور12 نومبر کی صبح ہلکی بارش نے لاہور شہر پر تنی ہوئی گرد آلود دھند کو بڑی حد تک صاف کردیا ۔
بے شک تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے
Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.