پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر موسمی و
ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہیں ہیں ۔ موسم کی شدید بڑھتی جار ہی ہے زمینی
درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کے ساتھ بارشیوں کا سلسلہ کم سے
کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سورج ہماری زمین کے لئے توانائی و حرارت کا اہم
ترین جز ہونے کے ساتھ زمین میں جنم لینے والی موسمی و ماحولیاتی میں اہم
رول رکھتا ہے ۔سورج سے حاصل آنے والی حرارت ، روشنی اور توانائی کی لہریں
سے آب و ہوا کا درجہ حرارت بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ فضاء میں کئی گیسیس جن
میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلور و فلور کاربنز، نائٹرس آکسائیڈ ، میتھیں و
دیگر موجود ہیں، جو صنعتی اور زرعی سر گرمیوں کے نتیجہ میں فضاء میں شامل
ہو تیں رہتیں ہیں۔ صنعتی انقلاب کے شروع ہونے سے ان گیسیوں کا حجم فضاء میں
بڑھتا جا رہا ہے جس سے ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ قدرتی
نظام کے تحت سورج کی شعاعیں بادلوں اور برف پوش پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد
دوبارہ خلاء کی جانب منعکس ہوتی ہیں جو فضاء میں پائی جانے والی گیسیس میں
جذب ہو جاتی ہیں۔ سورج کی حرارت اور توانائی زمین کے موسمی و ماحولیاتی
نظام کو قائم رکھنے میں سب سے اہم رول ادا رکر رہی ہے ۔ ماہرین کے مطابق
گزشتہ تقریبا ڈھائی سو سالوں میں موسمی درجہ حرارت کا بڑھنا صنعتی سرگرمیوں
کا نتیجہ ہے۔
ما ہرین کے مطابق میںآبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اشیاء ضروریات کا حصول
مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کاشتکاری کے لئے زمین کا استعمال، حرارت و توانائی کے
لئے گیس، کوئلہ اور آئل، زرعی شعبہ جات میں کیمیائی مادوں کا استعمال کے
ساتھ دیگر کئی عوامل ہیں جو فضاء کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ ماحولاتی آلودگی نے
پورے خطے میں موسمی و ماحولیاتی تبدیلی کو جنم دیا ہے اس کی وجوہات میں
تابناک ایٹمی تجربات ، ایٹمی بجلی گھروں کا قیام، آتش گیر مواد کا استعمال،
فیکٹریوں، بھٹوں، صنعتوں ( فضائی مادے، کیمیکل و خطرناک گیسیں، ربڑ، پلاسٹک
اور دیگر صنعتی خام مال کا دھواں)کا فضائی اخراج ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو
آگ لگانے سے پیدا ہونے والے دھوایں، گاڑیوں کے سلسنر کا دھواںیہ تمام عناصر
ہیں جو ہمارے ملک کی فضا ء میں شامل ہو کر تعفن اور خطرناک بیماریوں کاباعث
بن رہے ہیں۔
فضائی آلودگی کے انتہائی مضر صحت اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے تمام روح
زمین میں موجود ہر جاندار کی حیایاتی بقاء کوشدید لاحق ہے۔ فضا ء میں اوزون
کی مقدار میں خطرناک حد اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی طبی مسائل میں آئے روز
پیچیدگیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ آنکھوں میں انفیکشن ، سانس لینے میں
دشواری، کھانسی، نزلہ و زکام، ناک و گلے کی دیگر امراض، پھیپھڑوں کے سرطان
، امراض قلب، جلدی امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔
آج سائنس کی جاری ترقی نے ہواؤں، فضائیوں کے ساتھ اب خلاؤں کے اُ جلے پن کی
تازگی میں آلودگی کو شامل کر دیا ہے۔ درختوں اور سبز زار سے حاصل ہونے والے
تروتازگی کو انسان اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہا ہے۔ قدرت نے جو سرسبز و شاداب
چادر ہماری ارض کے ادر گرد چڑھا ئی ہے وہ ہم خود درختوں، نباتات ، کھیت و
کھلیان کو کاٹنے کی شکل میں مٹا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجود
آباد ی میں تیزی سے اضافہ ہے جس کی وجوہات میں پہاڑ ی سلسلوں اور میدا نی
علاقاجات کو کاٹ کالونی، مکانات اور پلاٹوں کی تعمیر و آرائش پر کام تیزی
سے جاری ہے۔ اس لئے پاکستان میں درختوں اور جنگلات کی تعداد میں روز بروز
کم ہوتی جا رہی ہے ۔
پاکستان، بھارت اور چین میں دیگر فضائی آلودگی کے عناصر کی طرح فوگ اور
سموگ نے موسم کی تبدیلی کے ساتھ نظام زندگی کو بر ی طرح متاثر کیا ہے آئے
روز حادثات میں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ پورے خطے کے اندر صورت حال بہت
تشویش ناک ہے ،ایشیاء کے اندرجہاں بڑے پیمانے پر صنعتی ترقیات کے ثمرات
حاصل ہو رہے ہیں وہاں انسانیت کے لئے یہ مضرات بڑھ رہے ہیں۔ کئی ترقیاتی
ممالک نے فضائی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لئے آلات اور پالیسی کا نظام واضع
کر رکھا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نافضل عمل نہیں ہے ۔
پاکستان میں صنعتوں کے ساتھ زراعت کے شعبہ میں کیمیائی کھادوں اور ممنوعہ
ادویات کا آزادنہ استعمال کیا جار ہا ہے جس سے انسانی صحت کے اعضاء بے حد
متاثر ہو رہی ہے، جسمانی قوت مدافعت میں کمی کے باعث بیماریوں سے لڑنے کی
طاقت ختم ہو جا رہی ہے ۔ فصلوں کی کٹائی کے مرحلے کے بعد کھیتوں کی دوبارہ
تیار ی کے لئے ابھی بھی آ گ لگا کر صفائی کا نظام قائم ہے جس کے دھوایں اور
راکھ میلوں تک فضا ء میں آلودگی پھیلاتی ہے ۔ ملک پہلے غیر یقینی موسمی و
ماحولیاتی سرگرمیوں کا شکار ہے اب ضرورت اس امر ہے کہ حکومت اور عوام مل کر
اس کے سدباب کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں۔یہ ہم سب کی مشترکہ
ذمہ داری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے لئے اپنا فرض با احسن انجام دیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ایٹمی تابکاری اور آتش گیرمادوں کا استعمال کم سے کم کیا
جائے، فضائی کیمیائی مادوں و فضلات کی روک تھام کے لئے فیکٹریوں، کارخانوں،
بھٹوں ، صنعتوں میں ویسٹ مینجمنٹ سسٹم و آلات کی تکمیل پر سختی سے عمل
درآمد کرایا جائے۔ ٹریفک پولیس تمام گاڑیوں کی فٹنس سرٹیفکیٹ پر ایکشن لیں۔
کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کو آگ لگانے کی بجائے غیر آباد علاقوں میں دفنانے کا
بندوبست کیا جائے۔ جنگلات کے کاٹنے کی روک تھام کے ساتھ ساتھ پھل دار
درختوں اور پودوں کی نرسری کی مہم چلائی جائے۔ فصلوں پر کیمیائی و زہریلی
ادویات کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ برف اور گلیشرز کے بہہ جانے والے
پانی کو ڈیم میں محفوظ کیا جائے تاکہ آبی کمی کو پورا کیا جائے۔ سمندری
پانی کو زہریلے کیمیائی و تیزابی مادوں کے فضلات سے بچائیں۔
میری اللہ تعالی سے دعا ہے وہ ہمیں سچ بولنے، کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا
فرمائیں۔ |