لذت ایجاد

مغرب نے گزشتہ کئی صدیوں سے محیرالعقول کارنامے سرانجام دیئے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ناقابل یقین ترقی ہوچکی ہے۔فزکس،کیمسٹری،ریاضی،ارضیات،خلائی اور کائناتی سائنس میں لائبریریاں بھر دی گئی ہیں۔اسی علم کی بنا پر وہ نئی سے نئی اشیاء تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔مختلف شعبہ جات زندگی میں وہ نئے طریقے اور اشیاء بنانے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔اب چین اور جاپان بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ دانائے راز نے اسے یوں بیان کیا ہے۔
حکمت اشیاء فرنگی زاد نیست
اصل اوجز لذت ایجاد نیست

نئی ایجادات کا تعلق صرف فرنگ سے نہیں ہے بلکہ جو قوم بھی ایجاد کی لذت محسوس کرنے لگ جائے وہ نئی سے نئی اشیاء بناتی چلی جاتی ہے۔انسان نے گزشتہ 4۔صدیوں میں بہت کچھ بنایا ہے۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کام تمام کا تمام مغرب میں ہوا۔پہلا سادہ سا انجن۔سٹیم انجن اور اب آسمانوں میں گرجتے ہوئے ہوائی جہاز اور اس سے بھی آگے دوسرے سیاروں پر اترتی ہوئی گاڑیاں۔سمندروں کا سینہ چیرتا ہوا انسان میلوں گہرائی تک جا پہنچا۔کمپیوٹر اور نیٹ کے ذریعے تمام علم انسان کے سامنے پڑی ہوئی چھوٹی سی سکرین پر مرتکز ہوگیا ہے۔معلومات اتنی اور Uptodateکہ کوئی بھی شخص اپنے چھوٹے سے شعبے کے بارے انہیں ازبر نہیں کرسکتا۔چند سالوں بعد انسان کے قدم مریخ کو چھولیں گے۔انسان کا بنایا ہوا سیارہ اب ہمارے سولر سسٹم کا فاصلہ طے کرکے آگے کی کائنات میں چلاگیا ہے۔وہاں سے سگنلز موصول ہورہے ہیں۔2016ء میں یہ بھی پروگرام ہے کہ ایک خلائی گاڑی ایک دمدار ستارے پر اترے گی اور اس کا جائزہ لے گی۔ایک گاڑی دمدار ستارے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی ہوگی۔یوں انسان دمدار ستاروں کے بارے بہت کچھ معلوم کرے گا۔توہمات ختم ہوجائیں گے۔زراعت۔صنعت،ٹرانسپورٹ اور رسل ورسائل کے شعبوں میں ہم ہر وقت نئی سے نئی اشیاء دیکھ رہے ہیں۔ان باتوں کو دھرانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام کچھ انسان نے اپنی محنت اورعقل سے کیا ہے۔اگر کسی بھی قوم میں کچھ نیا کرنے کا شوق پیدا ہوجائے ۔تخلیقی کام کی طرف توجہ ہوجائے۔سائنس دان اور دانشور اپنی زندگیوں کو ایسے کاموں کے لئے وقف کردیں۔تو پھر نئی سے نئی اشیاء بنتی چلی جاتی ہیں۔نئی ایجادات کا زیادہ ترکام دورجدید میں برطانیہ میں ہوا۔اور پھر یہ یورپ کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا۔یہیں سے یہ روایت امریکہ پہنچی۔اوراب یہ نئی دنیا امریکہ ،باقی ماندہ دنیا کو حیران کئے ہوئے ہے۔خلاء کا سفر سب سے پہلے روس سے شروع ہوا اور اب اس دوڑ میں اور بھی ممالک شریک ہوچکے ہیں۔جاپان تو بہت عرصہ پہلے سے مغرب سے سیکھ کر آگے بڑھ رہا ہے۔جاپانی مصنوعات مغرب پر بازی لے گئی ہیں۔اب چین بھی اس دوڑ میں بھر پور طریقے سے شامل ہوگیا ہے۔چین سائنسی تحقیقات پر اپنی آمدنی کا بڑا حصہ صرف کر رہا ہے۔اور اب سالانہ Patentsکی رجسٹریشن میں وہ برطانیہ ۔فرانس ۔روس اور جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔نئی ایجادات میں اب صرف امریکہ اس سے آگے ہے۔چین میں1995ء کے بعد ریسرچ پیپرز میں21۔گنا اضافہ ہوا ہے۔شعبہ جاتی انجینرز کی پیداوار میں اب وہ باقی ماندہ دنیا میں سب سے آگے ہے۔اقبال کے کہنے کے مطابق نئی اشیاء اور ایجادات بنانا فرنگی الاصل نہیں ہے۔جوقوم بھی اس طرف توجہ کرے گی۔سائنسدان۔انجینرز اور ماہرین کائنات کے اسرار معلوم کرنا شروع کردیں گے۔اور انہیں اس کام میں لذت محسوس ہونا شروع ہو جائے گی۔تو نئی نئی ایجادات شروع ہو جاتی ہیں۔یہ کوئی فرنگیوں(یورپ)کا خاصہ نہیں ہے۔ایسی بات نہیں کہ اشیاء بنانے کا علم صرف انہیں تک محدود ہو۔یہ تو ایجاد کی لذت ہے۔جو قوم بھی یہ لذت Enjoy کرنا شروع کردے گی۔اس کے حالات بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ایجادات کاکام قدیم چینی تہذیب میں بھی ہوتارہا ہے۔کاغذ کی ایجاد یہیں ہوئی ہے۔بابلی اور سمیری تہذیبوں میں بھی ٹیکنالوجی چلتی رہی۔قدیم مصر کی تہذیب میں بھی ہمیں بہت سی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی اشیاء ملتی ہیں۔بات یونان اور روم سے ہوتی ہوئی مسلمانوں تک پہنچی۔مسلمانوں نے بھی صدیوں تک علوم وفنون میں کارنامے سرانجام دیئے۔سپین۔عراق اور تیونس کے تعلیمی اداروں کی اس وقت وہی حیثیت تھی جو آجکل برطانیہ اور امریکی یونیورسٹیوں کی ہے۔مغربی دانشور ہمارے اس علم وفنون کے کام کو تسلیم کرتا ہے۔مسلمانوں سے یہ روایت یورپ پہنچی۔یورپ میں ـ ـ"نشاۃ ثانیہ ـ ـ"کابھی وہی دور تھا۔یورپ والوں نے اس علمی روایت کوبہت ہی مظبوطی سے پکڑا اور اب تک وہ اسے مظبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔یورپ کی کوششوں سے انسان اندھیروں سے نکلا اور علم کی روشنی میں آگیا۔اسی علم سے اس نے نہ جانے اب تک کیا کچھ بنا ڈالا ہے۔پوری دنیا میں اشیاء و ایجادات یورپ سے ہی پہنچی۔امریکہ یورپ کی توسیع شدہ شکل ہے۔کرۂ ارض کو تو یورپ اور امریکہ نے مکمل طورپر مسخر کرلیا ہوا ہے۔زندگی کے تمام شعبہ جات میں تفصیلی مطالعہ جات ہوچکے ہیں۔مادی علوم کے ساتھ سماجی علوم میں بھی امریکہ اور یورپ نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔"لذت ایجاد ـ"اور جاننے کا شوق انہیں بہت ہی آگے لے گیا ہے۔سرخ سیارے یعنی مریخ پر پہنچنا اب اسکی اگلی منزل ہے۔کائنات کی تسخیر کے شوق میں اب یورپ اور ایشیاء کے بعد اور بھی ممالک شریک ہوچکے ہیں۔بے شمار نئی نئی اشیاء اب جاپان ۔جنوبی کوریا اور چین میں تیار کی جارہی ہیں۔اقبال کی کہی بات درست ثابت ہورہی ہے۔کہ اشیاء کی حکمت فرنگی الاصل نہیں ہے۔جو قوم بھی غورحوض،تدبر وتفکر،تحقیق وجستجو میں لگ جائے۔وہ نئے سے نئے طریقے اور اشیاء تیار کرتی رہتی ہے۔جاپان نے بہت عرصہ پہلے جب انگریزوں سے سیکھنا شروع کیا تو وہ بھی یورپ کے برابر آگیا۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہی وہ بہت سی اشیاء تیار کرکے دنیا کو بھیج رہا تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانی برآمدات سے امریکہ تک پریشان ہوگئے تھے۔چین اور ایشیاء کے اور بھی ممالک اب ایجادات اور اشیاء سازی میں یورپ کے برابر آگئے ہیں۔اگر یہ کام بڑے پیمانے پر کہیں نہیں ہورہا تو وہ مسلم ممالک ہیں۔تعداد میں56۔کہاجاتا ہے کہ کل آبادی اب1.5ارب سے بھی زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔معدنی وسائل کی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔لیکن اب تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا حصہ سائنسی تحقیقات وایجادات میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمان صدیوں سے سوئے ہوئے ہیں۔کوئی بھی بڑی اور اہم شے مسلمان ایجاد نہیں کررہے۔مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ تیار شدہ اشیاء یورپ۔امریکہ ۔جاپان اور چین سے خریدی جائیں اور کام چلالیا جائے۔سائنسی تخلیقات کا کچھ کام ترکی اور ملائیشیاء میں ہوا ہے۔ملائشیاء نے اپنی چھوٹی بڑی صنعتوں کو جدید بنالیا ہے۔برآمدات بڑھا لی ہیں۔پاکستان نے بھی دفاعی اشیاء میں کچھ کام کیا ہے۔لیکن جیسے یورپ امریکہ اور جاپان کے لوگ ایجادات کی لذت محسوس کرکے کام میں لگے رہتے ہیں۔مسلمان ملکوں میں یہ کلچر نہیں بن سکا۔وہ ولولہ جو یورپ اور امریکہ کے سائنس دانوں میں ہے۔وہ مسلم ممالک کے دانشوروں اور سائنس دانوں میں ناپید ہے۔کرۂ ارض کے سنٹر میں واقع یہ ممالک زیادہ تر درآمدات پرہی گزارہ کررہے ہیں۔جاپان جیسے صنعتی ملک مسلم ممالک کے لئے قیمتی صرفی اشیاء کے خصوصی ماڈل بناتے ہیں۔مالدار لوگ یہ اشیاء دھڑادھٹرخریدتے ہیں۔اور اپنے کو بڑا محسوس کرتے ہیں۔کیا مسلمانوں کے لئے یہی کام رہ گیا ہے کہ ہم دوسروں کی بنائی ہوئی اشیاء استعمال کرکے فخر محسوس کریں؟۔مسلم ممالک کی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی لائبریریاں اور لیبارٹریز بھی شاندار ہوں۔نوجوان یہاں دن رات کام کریں۔اپنے میں تخلیق کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔اور اس میں لذت محسوس کریں۔کسی نئی شے کی تخلیق میں بعض اوقات زندگی کا بڑا حصہ صرف کرنا پڑتا ہے۔کچھ دے کر ہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔یہ کام ہر قوم کرسکتی ہے۔اقبال کی کہی بات کو پھر دھرا لیتے ہیں۔
حکمت اشیاء فرنگی زادنیست
اصل اوجز لذت ایجاد نیست
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.