ترکی حکومت کو اﷲ نے بچا لیا۰۰۰

عالمی سطح پر مسلمان جن ممالک کو اسلامی اقدارکا باپند اوران ممالک میں شرعی قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کے حقوق حاصل ہے، سمجھتے ہیں اگر ان ممالک میں شریعت مطہرہ کے خلاف کوئی قانون بنتا ہے تو اس سے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آج عالم اسلام میں جس طرح اسلامی قوانین کو لاگو کرکے اس کے مطابق سزا دینے کے بجائے حکمراں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق نئے قوانین وضع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت ہے یہاں کے صدر رجب طیب اردغان ہیں جنہیں عالمی سطح پر ایک بہترین مسلم حکمراں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں ترکی میں ہزاروں افراد خصوصاً خواتین کے احتجاج نے عالمی سطح پرمسلمانوں کو رجب طیب اردغان کی حکومت کے فیصلہ پر حیران کردیا۔ ترکی میں کم سن لڑکیوں سے زنا کرنے والے زانیوں کے لئے ایک نیا قانون بنایا گیا تھا جس کیلئے پارلیمنٹ میں بل پیش کی گئی ، اس مجوزہ قانون کے تحت اگر کوئی شخص کسی کم سن لڑکی سے زنا کرتا ہے اور بعد میں وہ اس سے شادی کرلیتا ہے تو وہ سزا سے بچ جائے گا۔یعنی اگر کوئی شخص بنا کسی جبر و دھمکی کے زنا کرتا ہے تاہم وہ بعد میں شادی کرلیتا ہے تو اسے مجوزہ قانون کے تحت رہا کردیا جائے گا۔اس مجوزہ قانون کے خلاف ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے کم سن بچیوں کے زنا کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔ اقوام متحدہ میں بچوں کے ادارے نے بھی اس بل پر گہرے خدشات کا اظہار کیا تھا، ادارے کے ترجمان کرسٹوف بولیریس کا کہنا تھا کہ بچوں کے خلاف ایسے قابلِ نفرت تشدد جو جرم بھی ہیں انہیں ہر لحاظ سے قابلِ سزا ہونا چاہیے۔ ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اپنی جماعت اے کے پی کے ارکان سے کہا تھا کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ اس بل کے حوالے سے مذاکرات کریں۔ 17؍ نومبر 2016کو اس بل پر پارلیمان نے اولین منظوری دے دی تھی ، اس کے بعد سے ترکی کے کئی شہروں میں حکمراں پارٹی اے کے پی کے خلاف مظاہرے ہوئے اس موقع پر مظاہرین کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے بینرز پر درج تھا کہ ’’ریپ کو قانونی شکل نہیں دی جاسکتی‘‘۔ اور یہ کہ ’’اے کے پی میرے جسم سے ہاتھ ہٹاؤ‘‘ ۔ مظاہرین کا کہنا ہیکہ یہ زنا کی کوئی توجیہہ نہیں ہوتی۔ اس مجوزہ قانون کے خلاف ہزاروں والدین پریشان حال صوتحال سے دوچارتھے انہیں اپنی بچیوں کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پہلے ہی ترکی میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتارہا ہے اس سلسلہ میں مظاہرین کا ردِ عمل اس طرح سامنے آیا کہ ایک شخص قادر ڈیمر نے کہا کہ میں اس احتجاج میں اس لئے آیا ہوں کیونکہ میرے بھی بچے ہیں، میں ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتا ہوں جہاں ہم جی سکتے ہیں، ایک خاتون کا کہنا ہیکہ میں ایک ماں ہوں مجھے اس پر کیسا ردعمل دینا چاہئیے، مجھے یقین نہیں آتا، یہ سب صحیح نہیں ہے، یہ سمجھ سے باہر ہے‘‘۔ اس مجوزہ قانون کے خلاف شدید احتجاج کے بعد رجب طیب اردغان کی حکومت نے اسے واپس لینے کا اعلان کیا۔ کیونکہ اس مجوزہ قانون کو منظوری کے لئے حکمراں جماعت کی اکثریت حاصل کرنے کے لئے اسے 22؍ نومبر2016کو پارلیمان میں کیا جانا تھا۔ حکومت کا اصرار تھا کہ اس قانون سازی کا مقصد کم سن بچیوں کی شادی سے متعلق جاری روایت سے نمٹنا ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے بچیو ں کے زنا کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کو جس طرح عوام نے 15؍جولائی میں انکے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا تھا اس کو مدنظر رکھ کر ہوسکتا ہیکہ رجب طیب اردغان نے عوام کے اس احتجاج کے بعد کم سن لڑکیوں کو ورغلاکر زنا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کانیا قانون بناسکتے ہیں۔خیر وزیر اعظم بن علی یلدرم کے مطابق وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے اور حزب مخالف کو اس پر اپنی تجاویز کیلئے مزید وقت دینے کے لئے اس بل کو پارلیمان سے واپس لینا بتایا گیا ہے۔ ترکی کی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ الیف شافاک نے اس بل کے بارے میں کہا ہے کہ اس بل میں سب سے بڑی کمزوری لفظ رضا مندی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی کسی خاندان کو رشوت یا اسے دھمکی دیتا ہے تو خاندان بڑی آسانی یا ڈر سے پیچھے ہٹ جائے گا ، اور وہ اپنی شکایت واپس لیتے ہوئے کہیں گے کہ ٹھیک ہے اس میں رضا مندی شامل تھی اور زبردستی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اس طرح اس شخص کو رہا کردیا جائے گا تاہم وہ بعد ازاں اس سے شادی کرہے۔ خیر فی الحال ترکی حکومت نے اس مجوزہ قانون کے نفاذ کیلئے جو بل پارلیمان میں پیش کیا تھا اسے واپس لے لیا جس سے ترکی عوام کے لئے چین و سکون اور راحت ملی۔

ترکی میں مزید فوجی و دیگر اہلکار برطرف
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے کے الزام میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت مزید15ہزار سرکاری ملازمین کو خدمات سے برطرف کردیا گیا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق حکام نے سرکاری ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کے علاوہ ملک میں کام کرنے والے مزید 9میڈیا اداروں، 18خیراتی اداروں اور دیگر پانچ سو اداروں کو بند کردیا ہے۔ ترکی میں حالیہ برطرفیوں سے قبل ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد 18ہزار گرفتاریاں عمل میں لائی جاچکی ہیں، پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے 66ہزار افراد کو نوکریوں سے نکالا جاچکا ہے اور 50ہزار افراد کے پاسپورٹ منسوخ کئے جاچکے ہیں۔ اس کے 142میڈیا اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔

ترکی کی شنگھائی معاہدے میں شمولیت متوقع
ترکی میں یوروپی یونین میں شمولیت کے لئے 1987ء میں درخواست دی تھی تاہم اس حوالے سے بات چیت کا آغاز سنہ 2005میں ہوا تھا۔ ترکی میں جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر رجب طیب اردغان نے بغاوت کی اس سازش کرنے والے افراد اور گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جس پر برسلز نے سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے انقرہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور آزادی کا خیال رکھے۔ صدر اردغان کی جانب سے باغیوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف جس طرح کی کارروئیاں کی گئیں اس کے بعد ترکی کو یوروپی یونین میں شامل کئے جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ۔ اب رجب طیب اردغان یورپی یونین نہیں تو شنگھائی معاہدے میں شمولیت کی کوشش میں ہیں۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردغان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیرپوٹن اور قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف سے اس حوالے سے بات چیت کرچکے ہیں ، یہ دونوں ممالک شنگھائی پیکٹ کے ممبران ہیں جس میں چین، کرغستان اور تاجکستان شامل ہیں۔ صدر اردغان کی جانب سے ترکی کے شنگھائی کوآپریشن آرگنائیزیشن (شنگھائی پیکٹ) میں شمولیت اختیار کرنے کا خیال پہلے بھی کئی بار پیش کرچکے ہیں جس سے ترکی کی یوروپی یونین کی رکنیت کی امیدیں ختم ہوسکتی ہیں۔صدر اردغان نے ترک صحافیوں کو بتایا کہ ترکی کو یورپی یونین کے مطابق میں اطمینان کرنا چاہیے اور اس میں شمولیت سے متعلق جذباتی وابستگی نہیں رکھنی چاہیے ان کا کہنا تھا کہ شاید کچھ لوگ تنقید کریں لیکن میں اپنے رائے دیتا ہوں۔مثال کے طور پر میں کہتا ہوں ہوں ترکی شنگھائی پیکٹ میں شمولیت کیوں نہ اختیارکرے؟۔ اردغان کے اس فیصلہ کو یورپی یونین کس زاویہ سے دیکھتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ترکی صدر شنگھائی پیکٹ میں شمولیت کو اہمیت دیکر یوروپی یونین کیلئے سوال پیدا کردیئے ہیں۰۰۰

پاکستان کا اگلا فوجی سربراہ کون۔؟
پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف اس ماہ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوجائینگے ۔جنرل راحیل شریف 29؍ نومبر2013کو بری فوج کے سربراہ کے عہدہ سنبھالا تھا اور فوج کے پندرھویں سربراہ ہیں۔ راحیل شریف نے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کئی طرح کی کوششیں کیں۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے وہ ایک بااعتماد فوجی سربراہ رہے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی راحیل شریف کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ راحیل شریف ان دنوں وداعی ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ پاکستان کا نیا فوجی سربراہ کون ہوگا اس سلسلہ میں چار نام لئے جارہے ہیں جن میں سب سے پہلا نام سینیارٹی لسٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کا ہے جو فی الحال جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے بعد دوسرا نام لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کا ہے جو کور کمانڈر ملتان ہیں اور اس سے قبل وہ چیف آف جنرل اسٹاف رہ چکے ہیں۔ تیسرا نام لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کا ہے جو کور کمانڈر بھاولپور ہیں وہ اس سے قبل سوات آپریشن کے دوران جی او سی رہ چکے ہیں۔ آخر نام لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہے جو جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن ہیں ، اس سے قبل وہ 2014میں دھرنے کے دوران کور کمانڈر راولپنڈی رہ چکے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ان دنوں حالات خراب ہیں ۔ہندوستان کے معتمد خارجہ مسٹر جے شنکر نے کہا کہ پاکستان کو سارک ممالک سے بے دخل کرنے کا امکان ہے ، اگر پاکستان کا رویہ اسی طرح رہا تو سارک کے دیگر ممالک پاکستان کا متبادل تلاش کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے ہندوستان میں سارک کانفرنس ہونے جارہی ہے ۔پاکستان کے مشیر خارجہ اس کانفرنس میں شریک ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ واضح رہے کہ اڑی کیمپ پر حملے کے بعد ہندوستان نے اسلام آباد میں منعقدہ سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اب جبکہ معتمد خارجہ جے شنکر کے بیان کے بعد سرتاج عزیز ہندوستان آئینگے یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سفارتی اعتبار سے بھی ناخوشگوار ہیں۔

پاکستان میں میگا ڈیفنس نمائش
پاکستان کے تجارتی مرکز ، بندر گاہی شہر کراچی میں ان دنوں چار روزہ دفاعی سازو سامان اور ہتھیاروں کی نمائش ہورہی ہے۔ اس میگا ڈیفنس ایکسپو میں 43ممالک کے 90وفود حصہ لے رہے ہیں جن میں چین اور روس بھی شامل ہیں۔ اس دفاعی نمائش میں تقریباً 418کمپنیاں جن میں 34ممالک سے تعلق رکھنے والی 261اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی 157کمپنیاں اپنے عصری دفاعی سازو سامان کی نمائش کرینگی۔پاکستان میں ہونے والی اس میگا دفاعی نمائش کو بعض حلقوں میں جنرل راحیل شریف کے لئے ایک الوداعی تحفہ بتایا جارہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ ہندوستان اس نمائش کو کس زاویہ سے دیکھتا ہے کیونکہ ہندوستان اپنی دفاعی طاقت کا مظاہرہ 26؍ جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر کرتا ہے

شامی صدبشار الاسد کے آبائی علاقے میں فیشن شواور ۰۰۰
شام میں لاکھوں افراد بشارالاسد کی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں جن میں معصوم بچے، مرد و خواتین شامل ہیں۔ ایک طرف روس، ایران، شیعہ ملیشیاء بشارالاسد کی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے سنی مسلمانوں کا قتلِ عام کررہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند تنظیمیں شام میں جگہ جگہ اپنی نام نہاد خلافت کی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے عام عوام کو ہلاک و زخمی کررہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں جنہیں غذائی اشیاء ، ادویات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان میسر نہیں۔ لیکن دوسری جانب بشارالاسد کے آبائی صوبے لاذقیہ میں رواں ماہ کی 13؍ تاریخ سے جاری فیشن شو اختتام پذیر ہوا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مذکورہ ایونٹ شامی وزارت سیاحت کے زیر نگرانی منعقد کیا گیا۔جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ایک طرف شامی حکومت کے طیاروں اور اس کے حلیف روس کی جانب سے شام میں حلب اور حمص اور ادلب صوبوں کے شہروں سمیت ملک کے دیگر شہروں پر بم باری کا سلسلہ شدید کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب لاذقیہ صوبے کے ایک سب سے بڑے سیاحتی مقام میں متنازعہ فیشن شو کی رنگینیاں بکھیری جا رہی ہیں۔مذکورہ فیشن ویک اپنی نوعیت کا دوسرا ایونٹ تھا۔ اس سے قبل 2015 میں لاذقیہ میں اس سلسلے کا پہلا ہفتہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس فیشن ویک کا ذکر شام کے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ میں کیا گیا۔ ان میں نیوز ایجنسی سے لے کر ، سیٹلائٹ چینلوں ، تمام تر اخبارات اور ویب سائٹیں شامل ہیں۔اس متنازعہ فیشن شو کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لوگوں کے غم وغصے پر مشتمل شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال شام میں محصور افراد کی تعداد 10لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔اقوام متحدہ کی ایمرجینسی ریلیف کوآرڈینیٹر اسٹیفن اوبرائن کا کہنا ہے کہ گذشتہ چھ ماہ میں خانہ جنگی کے شکار شام میں محصور افراد کی تعداد 4,86,700سے بڑھ کر 9,74,080ہوگئی ہے۔ ان ہی کے مطابق شامی شہریوں کو محصور اور بھوکا رکھا جارہا ہے۔ انہیں طبی امداد اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مدد سے محروم رکھا جارہا ہے تاکہ انہیں ہتھیار ڈالنے یا پھر فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ اوبرائن کا کہنا ہیکہ یہ جان بوجھ کر کئے جانے والی ظالمانہ ، اقدامات ہیں اور زیادہ تر صدر بشارالاسد کی فوجوں کی جانب سے کئے جارہے ہیں۔ اس طرح شام میں بشارالاسد کی فوج شامی معصوم و بے قصور وں کے ساتھ ظالمانہ کارروائیاں انجام دے رہی ہے۔
***
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.