منتشر و منفی سوچ کا تدارک کس کی ذمہ داری ہے؟
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے
کشمیریوں کی رائے شماری سے ہونے والے ریاست کے سیاسی مستقبل کے فیصلے تک
متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر میں سیز فائر لائین پر بھارتی اور
پاکستانی فوجوں کے درمیان گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔بھارتی
فوج خاص طور پرآزاد کشمیر کی سول آبادیوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے
بھمبر،کوٹلی،پونچھ اور نیلم ویلی میں متعدد شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔وادی
نیلم میں بھارتی فوج نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا جس سے تقریبا 8افراد
ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ اس حملے کے بعد جب ایک ایمبولینس زخمیوں کو لینے کے
لیے وہاں پہنچی تو اس پر بھی فائرنگ کی گئی۔بھارتی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے
ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔مسافر بس کو نشانہ بنانے کے
واقعہ پر پاکستانی اور بھارتی افواج کے ڈائریکٹرز آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی
ایم اوز)کے درمیان رابطہ ہوا جس میںپاکستان آرمی کے ڈی جی ایم او نے اپنے
بھارتی ہم منصب سے لائین آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جانب سے مسافر بس کو
نشانہ بنائے جانے پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی ڈی جی
ایم او نے کہا کہ پاک فوج اپنے طے شدہ وقت اور مقام پر جوابی کارروائی کا
حق محفوظ رکھتی ہے۔دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان اس رابطے کے بعد ،گزشتہ
روز سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) کے کسی سیکٹر میں فائرنگ کی اطلاع
نہیں تاہم شدید کشیدگی بدستور قائم ہے۔نیلم ویلی میں روڈ بند ہے اور سول
مواصلاتی نظام بھی معطل ہے۔
لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد
کی صورتِ حال پر غور کے لئے وزیرِ اعظم نواز شریف کی سربراہی میں منعقدہ
اعلی سطحی اجلاس میں واقعہ کی شدید مذمت اور عالمی برادری سے اس واقعے کا
نوٹس لینے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کو
کہا گیا۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی
بھارتی خلاف ورزیوں پر آخری حد تک صبروتحمل کا مظاہرہ کرچکے، تاہم بے گناہ
شہریوں پر حملے کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ
کشمیر برصغیر کی تقسیم کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے اور ہم اپنے کشمیری بھائیوں
کو ان کی جدوجہد آزادی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔اجلاس میں ہندوستانی فوج کی
جانب سے بس پر فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور کشمیری عوام کی
سفارتی اور اخلاقی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔اجلاس کے دوران اس بات پر
بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بس پر فائرنگ کے زخمیوں کو لے جانے والی
ایمبولینس کو بھی بھارتی فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ عالمی برادری پر
زور دیا کہ وہ بھارتی افواج کے ہاتھوں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کا نوٹس
لے۔اجلاس میں گذشتہ روز بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں جان کی بازی ہارنے والے
پاک فوج کے کیپٹن اور جوانوں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔دریں اثناء
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان
انڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزی کے خلاف مختلف
سفارتی اقدامات کرنے پر غور کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے
جنرل سیکریٹری سے مل کر انھیں صورتِ حال کی سنگینی سے آگاہ کریں گی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس جنگی صورتحال کا پس منظر مسئلہ کشمیر ہی
ہے۔مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ عید الفطر کے موقع سے اب تک بھارتی فوج نہتے
کشمیریوں کو بڑی تعداد میں ہلاک وزخمی کر رہی ہے،ہزاروں بینائی سے
محروم،ہزاروں زخمی ،ہزاروں جیلوں میں قید،ظلم و جبر کا وہ کون سا حربہ ہے
جو بھارت کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی کے طور پر نہیں ڈھا رہا ۔اب اس
صورتحال پر پاکستان کا خاموش رہنا کشمیریوں سے غداری اور خود پاکستان کے
وسیع تر قومی مفادات کو قربان کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔یہ بات خوش آئند
ہے کہ تمام تر داخلی کمزوریوں کے باوجود پاکستان نے بھارت کی جنگی دھمکی کے
جواب میں کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔یہ ایک المیہ رہا کہ پاکستان نے
ضرورت کے وقت کئی بار کشمیر کے حوالے سے بھارت کے سامنے مضبوط '' سٹینڈ''
نہیں لیا۔اب پاکستان بھارت کی طرف سے جنگی کاروائیوں کی دھمکیوں کی '' بلیک
میلنگ '' میں نہیں آ رہا۔
آزاد کشمیر میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ دونوں طرف کشمیری مر رہے ہیں،دونوں
ملک اپنی سرحد پہ جنگ کریں۔بعض افراد اس صورتحال میں مشرف کے فارمولے کو
یاد کر رہے ہیں کہ اس نے ایل او سی پہ فائرنگ بند کر ا دی تھی۔لیکن ان کی
طرف سے یہ فراموش کیا جا رہا ہے کہ بھارت کی کن شرائط کو پورا کر کے ایسا
کرایا گیا تھا؟مشرف کو یاد کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشرف
لائین آف کنٹرول پر جو نام نہاد امن لایا تھا،وہ بھارت کی طرف سے ایک سال
تک سرحد پر فوجی اجتماع کے بعد کمزوری کے اظہار کے طور پر آزاد کشمیر سے
کشمیری حریت پسندوں کے کیمپ ختم کرنے،کشمیری حریت پسندوں کو سیز فائر لائین
عبور نہ کرنے دینے اور بھارت کو خار دار تاروں کی جدید باڑ کی تنصیب کے
ذریعے کشمیر کی جبری تقسیم کو مضبوط بنانے کے اقدامات کو تسلیم کرنے کے بعد
ہی بھارت نے کنٹرول لائین پر فائرنگ عارضی طور پر بند کرنے کا '' احسان
عظیم'' کیا تھا۔بھارت نے مشرف کے چار نکاتی فارمولے کے مطابق مسئلہ کشمیر
کے حل کا جو 'سبز باغ'' دکھایا تھا،ایسے جھانسے بھارت پہلے بھی اپنے
سازشیانہ حربوں کے طور پر دے چکا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں
رکاوٹ پیدا کرنے والے عوامل مختلف مواقعوں پر دونوں ملکوں میں متحرک نظرآتے
رہے ہیں تاہم ان کے محرکات اور کرتا دھرتا قوتوں کے تار کہیں اور سے ہی
ہلاتے معلوم ہوتے ہیں۔ بعض حلقے دانستہ یا نادانستہ طور پر بھارت کی اس
کوشش کے لئے بات کرتے نظر آتے ہیں کہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے
حریت پسند کشمیریوں کو بھارت کے خلاف ہر طرح سے تنہا کر دیا جائے۔کشمیریوں
کے لئے پاکستان کی مدد و معاونت ختم کی جائے۔یعنی مقبوضہ کشمیر کے دلیر
عوام کو بھارت کی درندگی کا نشانہ بننے کے لئے ہر طرح سے تنہا کر دیا جائے
تاکہ بھارت کو کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں کامیابی مل سکے۔کشمیر
سے متعلق پاکستان کی پالیسیوں میں بہتری کے حوالے سے بات کرنا اہم تو ہے
لیکن کشمیریوں کو پاکستان کی مدد و حمایت سے محروم کرنے کی کسی بھی کوشش کو
کسی طور بھی کشمیریوں یا پاکستان کے مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بھارت کے ساتھ جنگی کشیدگی کی صورتحال کے پیش نظر آزاد کشمیر حکومت کی طرف
سے سیز فائر لائین سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والے آزاد کشمیر کے شہریوں کی
مدد اور حفاظت کے لیے ضروری اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بھارتی فائرنگ سے
متاثرین کی مشکلات اور مصائب میں اضافہ ہوا ہے اور اسی صورتحال کے تناظر
میں مختلف منفی ،گمراہ کن اور پریشان خیالی پر مشتمل باتیں پھیلتی اور
پھیلائی جاتی ہیں۔حکومت کی طرف سے بھارتی فائرنگ سے متاثرین کی مناسب مدد و
معاونت نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی منفی صورتحال کو تقویت پہنچتی ہے۔ |
|