فرد قائم ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
ہماری موجودہ خستہ حالی کا اگر بغور مطالعہ
کیا جائے تو ہم سب اپنی اپنی جگہ بذات ِ خود اس تباہی اور ناکامیوں کے ذمہ
دار ہیں، ہم میں سے ہر فرد نے اپنے آپ کو تکبر و انا کی جنگ میں اس قدر بڑا
بنا دیاہے کہ ہم کو اپنے علاوہ کچھ دیکھائی دیتا ہی نہیں ، باوجود اس کے ہم
کو معلوم ہے کہ معاشرے کا قیام افراد کے باہمی روابط سے قائم ہوتا ہے، مگر
ہم لوگ ان روابط کو اسقدر بگاڑ دیتے ہیں کہ جن کی سنورنے کی کوئی امید پھر
بنتی نظر نہیں آتی ، ہر شخص چھوٹی سی چھوٹی بات پر دوسرے سے تعلقات توڑ
دیتا ہے ادھر میں حکیم لقمان کی ایک حکایت بیان کرونگا کہ" حکیم لقمان کہتے
ہیں کہ میں تم کو ایک عجب داستان سناتا ہوں وہ یہ کہ انسانی جسم میں ایک
تنازع رونما ہو گیا، معدہ کا جب انتظام بگڑ گیا تو دیگر اعضائے رئیسہ نے
بغاوت کر دی کہنے لگے کہ معدہ مفت خور ہے تمام اعضاء اس سے بیگانگی کا
اظہار کرنے لگے سب نے کہا یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے اور سر ا سر نا انصافی
ہے کہ معدہ بس کھاتا رہتا ہے اور ہم سب کو کام کرنا پڑتا ہے مزید کہا کہ
معدہ کاہلوں کی طرح پڑا رہتا ہے اور اس کو ہماری عزت و آبرو کا کچھ سرو کار
نہیں کام کرنا اس کی دسترس میں ہی نہیں شاید وہ بھول کر بھی کام نہیں کرتا
اور کھانے کامعاملہ آئے یا تذکرہ چھڑے تو تمام کھانا اس کو مل جاتا ہے تمام
اعضائے بدن نے یہ مشورہ کیا کہ معدہ کو اس کاہلی کا مزہ چکھانا چاہیے۔ پاؤں
نے کہا۔۔۔! میں چلوں گا نہیں، ہاتھ نے کہا۔۔۔ میں کسی چیز کے حاصل کے لئے
آگے نہ بڑھوں گا، منہ نے کہا۔۔۔ میں کھانے کے لیے کبھی کھلوں گا نہیں،
دانتوں نے کہا۔۔۔ ہم چبائیں گے نہیں، ابھی آدھامہینہ ہی گزرا تھا کہ تمام
کا برا حال ہونے لگا اور تمام کا ہش ہونے لگے معدہ کو جب غذا پہنچنی بند ہو
گئی تو اس نے کام کرنا ترک کر دیا، نیتجتاََ تمام اعضاء بھی سست پڑتے گئے
با لآخر سوکھنے لگے۔ہاتھوں کی طاقت زائل ہو گئی کہ وہ پکڑ سکتے۔ ۔۔ منہ کی
طراوت جاتی رہی۔۔۔ بالآخر جب نباہ نہ ہو پایا تمام نے درخواست کی اور
سمجھوتہ کر لیا اور تمام نے بلا عذر کام کرنا شروع کر دیا اور بد ستور معدے
کو خوراک پہنچے لگی۔لقمان حکیم کا مدعا یہ تھا کہ ہم اہلکاروں کا یہ فرض ہے
کہ ہم اگر سرکار کے خیر خواہ ہو جائیں تو خود آفات سے پنا ہ مل جائے گی آپس
میں بغض و حسد سے بچنا چاہیے بلکہ ایک دوسرے کے معاون بننا چاہیے۔ـ"
بالکل اس طرح اب ہمارے حکمران وہ ہی لوگ بنتے ہیں جن کو ہم میں سے زیادہ
اکثریت سے چاہتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کر کے اسمبلی میں بیٹھا دیتی ہے،
اس لیے حکمران جو بھی ہو جیسا بھی ہو اس کو تسلیم کرو ، اسکی اطاعت کر و ،
اس کی فرمانبرداری کر و بالکل ربوٹ کی طرح اطاعت ہی نہ کرو بلکہ جہاں کہیں
غلطی و نا انصافی واقعہ ہو تو وہاں پر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی
ہمار ا حق ہے۔ ہمارا ملک جو کہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا اس کے
اندر عوام اسقدر با صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی مقام اور مرتبہ پر فائز ہو کر
اپنے ملک و قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں اگر ان کو موقع دیا جائے تو۔۔۔۔ہمارے
ہاں ہر انسان اپنے آپ میں مست ہے اور سارے ملک کی ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال
کر بڑی آسانی سے چند الفاظ بول دیتا ہے کہ "جی ہماری اتنی اوقات کیا۔۔۔جن
کا کام انہی کو سانجھے"نہیں بلکہ ہم میں سے ہر فرد کے کندھوں پر یہ ذمہ
داری ہے کہ ہم اپنے ملک کی بہتری کی سوچ رکھیں کیونکہ ہم میں سے ہر شخص
اپنے مذہب، ملک ، صوبے ، قوم، برادری ،گھراور خاندان کا رہنما اور نمائندہ
ہوتا ہے اور تجزیہ کرنے والا کوئی بھی شخص آپ کے طور اطوار دیکھ کر اس کے
دل و دماغ میں جو عکس بنے گا وہ آپ کی تعریف بن جائے گا۔ |
|