اپنے آپ کو برباد کرتی نوجوان نسل نشہ یا شوق
(jahangir jahejo, Hyderabad)
|
اپنے آپ کو برباد کرتی نوجوان نسل نشہ یا شوق |
|
جان ہے تو جہان ہے اکثر بزرگوں کے منہ سے
سنائی دے تھا ہے جب ہم کوئ مضر صحت کام کرتے ہیں پاکستان میں مسائل کے
انبار ہیں جس طرح صحت کے بیروزگاری کے نوجوانوں کے لئے نہ تو کھیل کے میدان
ہے نہ کوئی سرکاری ستہ پر کلب دنیا میں نوجوانوں کے لئے جم پلے گراونڈ اور
دیگر تفریح کے لئے حکومت سنجدہ کام کرتی ہے پاکستان میں ایک کرکٹ کو چھوڑ
کر تمام کھیل ختم ہوتھے جا رے ہیں جو پلے گراونڈ موجود بھی ہیں تو منشیات
فروشوں اور بلڈرز مافیا کے رحموکرم پر چھوڑ دیا ہے نتیجہ نوجوانوں نے اپنے
لئے تفریح کے کھیل خود پیدا کرنا شروع کر دیں ہیں موٹرسائیکل پر کرتب ہو یا
پھر دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر محفل جمانہ گھٹکا مین پوڑی سگریٹ جیسی عادت
کا شکار ہو جاتے ہیں آج کل نوجوان نسل میں جس نشے کا رجحان دن بدن بڑھتا
جا رہا ہے، وہ ہے حقے کی جدید قسم جو شیشہ سموکنگ کے نام سے مشہور ہے ۔
بنیادی طورپر شیشہ ایک عرب روایت ہے، لیکن گذشتہ چند سال سے دنیا بھر میں
شیشہ نوشی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ شیشہ کو سگریٹ کی نسبت
کم مضر صحت تصور کیا جاتا ہے ،لیکن طبی ماہرین اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ شیشہ نوشی کسی طورپر بھی سگریٹ سے کم خطرناک نہیں۔
حکومت پاکستان اور عالمی ادارہ صحت نے اگرچہ شیشہ نوشی اور اس کی فروخت
پرپابندی عائد کی ہوئی ہے، مگریہ ہمارے ملک میں سگریٹ کی طرح بآسانی چھوٹے
بڑے ہوٹلوں ، دکانوں اور شیشہ کیفیز پردستیاب ہے۔
ماہرین کے مطابق شیشہ میں سگریٹ کے مقابلے 36 فیصد زیادہ ٹار ، 1.7 فیصد
زیادہ نکوٹین اور 8.3 فیصد زیادہ کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے جبکہ نوجوان
نسل اس بات پر خوش ہے کہ اس کا ذائقہ میٹھا اور خوشبودار ہے، جس کی وجہ سے
کھانسی نہیں ہوتی اور یہ خطرناک نہیں۔ نوجوان نسل گھر والوں سے چوری چھپے
مختلف شیشہ کیفیزپر ایک گھنٹے کا 200 سے 1000 روپے تک ادا کر کے شیشہ نوشی
کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں 20 سے 25 ملین افراد تمباکو کا نشہ
کرتے ہیں،جن میں 36 فیصد نوجوان لڑکے اور 9 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک میں ہر سال 60 ہزارافراد تمباکو کے استعمال کی وجہ
سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکا ر ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ہمارے ملک کی نوجوان نسل جس زہر کو شیشہ کے نام پر اپنی رگوں میں گھول رہی
ہے، اسے پرانے وقتوں میں حقہ کہا جاتا تھا اور اس کے پینے کی روایات 3000
سال پرانی ہیں ۔ سب لوگ واقف ہیں کہ حقہ تیار کرنے کیلئے نکوٹین ، ٹار اور
تمباکو کا استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب اس کی جدید قسم شیشہ میں تمباکو
کی کڑوی بو کو زائل کرنے کیلئے اس میں میٹھے ذائقے شامل کیے جاتے ہیں۔
ایک سگریٹ سے اوسطاً 20 کش لگائے جاتے جبکہ شیشہ سے اوسط 200 کش لگا سکتے
ہیں ۔ ایک سگریٹ پینے کے دوران اوسط 500-600ml دھواں اور شیشہ نوشی کے ایک
دورانیہ میں 90000ml دھواں انسانی جسم میں جاتا ہے۔
سگریٹ عموماً ایک آدمی پیتا ہے جبکہ شیشہ نوشی کے دوران اس کا پائپ دوستوں
میں شیئر کیا جاتا تا کہ مل کر نوشی ہو، اس شیئرنگ سے مختلف انفیکشن ایک
جسم سے دوسرے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔ شیشہ میں موجود تمباکو کو گرم کرنے
والا کارکول جس میں زہریلا ٹوکسن موجود ہوتا ہے، وہ سانس سے جسم میں داخل
ہو کرنظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔
پچھلے چند برسوں میں شیشہ پینے کی وباء پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا، چین،
ترکی اور بنگلہ دیش میں بہت تیزی سے پھیلی ہے جبکہ پاکستانی قانون (سموکنگ
ممانعت آرڈیننس 2002 ء) کے مطابق سولہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو سگریٹ
فروخت کرنے پر پابندی ہے البتہ یہ بات الگ ہے کہ آج تک ہمارا ملک اس قانون
کے اطلاق سے محروم نظر آتا ہے۔
کم عمر لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں میں،تفریحی مقامات ، کالجوں،یونیورسٹیوں اور
سڑکوں پر کھلے عام سموکنگ کرتے نظرآتے ہیں ، لیکن اب ان کم عمر نوجوانوں
نے شیشہ پینے کی عادت کو بھی بطور فیشن اپنا لیا ہے کیونکہ وہ اس کے خطرناک
نقصانات سے لاعلم ہیں ۔ اس لئے یہ ا مر ضروری ہے کہ ان کو شیشے سے جڑے
نقصانات سے روشنا س کروایا جائے ۔
حکومت کو چاہئے قانون بناتی ہے اس پر عمل کے لئے سختی بھی کرے اج ملک بر
میں ہزاروں شیشہ کفیے چل رہے ہیں جگہ جگہ اس کی فروخت ہورہی ہے قانون نافذ
کرنے والے ادارے اس عمل کو روکنے مین ناکام نظر ارہے ہیں |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.