'' بلیڈنگ ہارٹ آف ایشیا ''

جنوبی ایشیا میں ملکوں کے درمیان کشیدگی علاقائی ملکوں کو بھی شدید متاثر کر چکی ہے اور اس سے خطے میں مسلح لڑائیوں ،تباہی میں اضافے کے خطرات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔اب بھارت موافق افغانستان سے بھی اس حقیقت کا اعتراف سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تمام خطہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور اب افغانستان بھی اسی تنازعہ کے حوالے سے دیگر تنازعات میں ملوث ہو چکا ہے۔اس خطے میں،ترقی کے لئے علاقائی تعاون کی سارک اور ہارٹ ٹو ایشیا کی طرح کی حکومتوں کی تنظیمیں قائم تو کی جاتی ہیں لیکن خطے کے ایسے مسائل اور تنازعات کو منصفانہ اور پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اختیار نہیں کی جاتی ،جن تنازعات کی وجہ سے تمام خطے میں امن و ترقی کا فطری عمل منجمد ہے۔
افغانستان کے بارے میںہارٹ آف ایشیا کی ساتویں وزارتی کانفرنس 3اور4دسمبر کو بھارتی شہر امرتسر میں منعقد ہو گی جس میں چالیس ملکوں کے وزرائے خارجہ ،نمائندے شرکت کریں گے۔2نومبر2011 کو ترکی میںعلاقائی سلامتی اور تعاون برائے محفوظ و مستحکم افغانستان و قریبی ہمسایہ ممالک کے مقاصد کے لئے ہارٹ آف ایشیا کا قیام عمل میں لایا گیا۔ہارٹ آف ایشیا کے رکن ممالک میں رکن ممالک۔افغانستان،آذر بائیجان،چین،انڈیا،ایران،قازقستان،کرغرستان،پاکستان،روس،سعودی عرب،تاجکستان،ترکی،ترکمانستان،متحدہ عرب امارات جبکہ معاون ممالک میںآسٹریلیا،کینڈا،ڈنمارک،مصر،یورپی یونین،فرانس،فن لینڈ، جرمنی، عراق، اٹلی، جاپان،ناروے،پولینڈ،سپین،سویڈن،برطانیہ اورامریکہ شامل ہیں۔اسی سال23ستمبر کو نیو یارک میں ہارٹ آف ایشیا کے ایک اجلاس میں2011سے2015تک کی کارکردگی رپورٹ پر غور کیا گیا جس میں،تعلیم،ڈیزاسٹر منیجمنٹ،کائونٹر ٹیررازم،کائونٹر نارکوٹکس،ریجنل انفراسٹریکچر ،ٹریڈ،کامرس اور سرمایہ کاری کے مواقع کے حوالے سے اعتماد قائم کرنے کے ذرائع کے امور شامل ہیں۔اجلاس میں اعتماد کے قیام کے حوالے سے مختلف تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

حال ہی میں بھارت کی طرف سے شرکت نہ کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے اسلام آباد میں طے شدہ سارک کانفرنس منعقد نہیں ہو سکی۔یوں سارک اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے علاقائی تعاون کی سارک تنظیم کے مقاصد کو نقصان پہنچا اور ہارٹ ٹو ایشیا کا مقصد بھی افغانستان کے حوالے سے علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہی ہے۔بھارت میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت سے متعلق فیصلے کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشیدہ صورتحال اور جنگ کے خطرات کے تناظر میں بھارت کے خلاف کس روئیے کا اظہار کرتا ہے۔یہ طے ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ پرامن ذرائع سے منصفانہ طور پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔دوسری طرف بھارت پاکستان کے خلاف اپنی فوجی طاقت کا دبائو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دبائو میں لانا چاہتا ہے تاکہ مشرف دور کی طرح ایک بار پھر پاکستان کو بھارتی شرائط وقبول کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

سوا تین کروڑ آبادی،ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے ،چھ ممالک(پاکستان ، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان )کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے ملک افغانستان ،روس کے خلاف امریکی حمایت یافتہ عالمی اتحاد کی جنگ انغانستان،طالبان دور اور نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو فورسز کی جنگ کے بعد بھی جنگی صورتحال سے نبرد آزما ہے تاہم اس بار افغانستان میں جاری عسکری صورتحال کو دہشت گردی کا نام دیا گیا ہے۔افغانستان کی تقریباساڑھے تین کروڑ آبادی میں وہ27لاکھ افغان بھی شامل ہیں جو پاکستان اور ایران میں مہاجرین کی حیثیت سے مقیم ہیں۔افغانستان میں پشتون کل آبادی کا42فیصد،تاجک27فیصد،ازبک9فیصد،ہزارہ8فیصد،ایماق4،ترکمان3،بلوچ2اور دیگر4فیصد ہیں۔نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ سرکاری طور پر28دسمبر2014ء کو کیا گیا تاہم اب بھی نیٹو اور امریکہ کے ہزاروں فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔امریکی دفاعی ادارے '' پینٹاگون'' اور کانگریس کے امور کے ایک امریکی ماہر چارلس ٹفر نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغان حکومت بھارت سے مزید جنگی ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اسی تناظر میں افغانستان میں امریکی کمانڈ نے بھارت سے کہا ہے کہ افغان فورسز کے لئے ملٹری ایڈ میں اضافہ کیا جائے۔چارلس ٹفر ''افغانستان میں انڈیا اور پاکستان کی پراکسی وار جاری ہے'' کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے کمانڈر انچارج فورسٹار جنرل جان نکلسن نے 2011میں انڈین سیکورٹی ایڈوائیزر اجت ڈوول،فارن سیکرٹری ایس جے شنکر اور ڈیفنس سیکرٹری جے موہن کمار سے ملاقات کرتے ہوئے پراکسی وار میں بھارت کے کردار پر بات کی۔اس رپورٹ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں بھارت کو اہم کردار دے رہا ہے جس سے یہ ملک بھارت اور پاکستان کے درمیان پراکسی وار کا میدان بن چکا ہے۔

یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ بھارت افغانستان کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں کروا رہا ہے اور ان دونوں ملکوں کے خفیہ ادارے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔امریکہ اور افغانستان کا کہنا ہے کہ پاکستان حقانی گروپ اور دوسرے چند افغان عسکری گروپوں کی مدد کر رہا ہے۔پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی زمین کسی ملک میں دہشت گردی کے خلا ف استعمال نہیں ہو رہی اور تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارائیاں کی جا رہی ہیں۔اسی حوالے سے پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں بڑے فوجی آپریشن بھی کئے ہیں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے علاوہ افغانستان کی سرحد پر چوکسی میں بھی اضافہ کیا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ اولسن نے دو ماہ پہلے ہی امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان نے القاعدہ کی طرح کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف اچھی کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم ایسا ہی مزید کئے جانے کی ضرورت ہے۔اولسن نے بتایا کہ پاکستان کی کوششوں اور تعاون کے بغیر دہشت گردی کے خلاف لڑائی کامیاب نہیں ہو سکتی۔خود افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں افغانستان بھارت کے خلاف استعمال ہوا اور اب بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق بھارت افغانستان سے پاکستان آنے والے تین مشرقی دریائوں کابل ،کنڑ اور چترال کا پانی روکنے کے لئے افغان حکومت کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے تاہم کچھ عالمی سطح پر تسلیم شدہ چند اصول ہیں۔ستمبر میں افغان صدر اشرف غنی کے دورہ بھارت کے موقع پر مشرقی دریائوں کا پانی روک کر افغانستان میں ہی استعمال کرنے کے منصوبے پر بات کی گئی ۔اس کے علاوہ بھارت افغانستان میں سلما ڈیم کی تعمیر بھی کر رہا ہے۔بھارت افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ایک علاقائی گروپ تشکیل دینے پر بھی کام کر رہا ہے۔یوںیہ کہا جا سکتا ہے کہ اب جنوبی ایشیا میں ملکوں کے درمیان کشیدگی علاقائی ملکوں کو بھی شدید متاثر کر چکی ہے اور اس سے خطے میں مسلح لڑائیوں ،تباہی میں اضافے کے خطرات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔اب بھارت موافق افغانستان سے بھی اس حقیقت کا اعتراف سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تمام خطہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور اب افغانستان بھی اسی تنازعہ کے حوالے سے دیگر تنازعات میں ملوث ہو چکا ہے۔اس خطے میں،ترقی کے لئے علاقائی تعاون کی سارک اور ہارٹ ٹو ایشیا کی طرح کی حکومتوں کی تنظیمیں قائم تو کی جاتی ہیں لیکن خطے کے ایسے مسائل اور تنازعات کو منصفانہ اور پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اختیار نہیں کی جاتی ،جن تنازعات کی وجہ سے تمام خطے میں امن و ترقی کا فطری عمل منجمد ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 610882 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More