محترمہ بے نظیر بھٹو ،جنہیں پاکستانی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی !

عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم
 پاکستان کوایٹمی طاقت بنانے والے عظیم سیاسی لیڈرذوالفقارعلی بھٹو(شہید)کی بے مثال بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جن کو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،21 جون1953 کوکراچی میں پیدا ہوئیں اور27 دسمبر 2007 کوانہیں کسی بدبخت نے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولیاں مار کر شہید کردیا لیکن ان کا نام کروڑوں دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ پاکستانی سیاست میں بے نظیر بھٹو کے کردار اور کارنامے ان کے نام کو تایخ کے صفحات میں ہمیشہ محفوظ رکھیں گے۔ پاکستانی سیاست دانوں کو محترمہ کے طرز سیاست اور اندازحکمرانی کا بغور مطالعہ کرکے ان کی خوبیوں کو اپنا کر عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بقول شاعر: جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتحہ زمانہ ۔۔۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی تربیت پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکے زیرسایہ ہوئی۔بھٹو صاحب اپنے دور حکومت میں جب کسی بیرونی ملک کے سرکاری دورے پر جاتے تو اکثربے نظیر بھٹو کو اپنے ہمراہ لے کر جاتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی اولاد میں بے نظیر بھٹو کو ملکی اوربین الاقوامی سیاست سے بہت زیادہ دلچسپی ہے اس حوالے سے شملہ معاہدے کے لیئے وہ بھارت جاتے ہوئے بے نظیربھٹو کو خاص طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے جہاں انہوں نے بے نظیربھٹو کی موجودگی میں اندرا گاندھی سے کامیاب مذاکرات کیئے جسے ملکی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ نے بہت زیادہ اہمیت دی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کئی بار بے نظیر بھٹو کو اپنا سیاسی جانشین بھی قرار دیااور آگے جاکر ان کا یہ اندازہ سوفیصد صحیح ثابت ہوا اور بے مثال باپ کی بے نظیر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستانی سیاست میں ایک محب وطن اور بہادر سیاسی رہنما کے طور پر وہ کردار ادا کر دکھایا جوبڑے بڑے قدآور سیاسی لیڈرادا نہ کرسکے۔ یوں توبے نظیر بھٹو نے 1976 میں اپنے والد ذوالفقارعلی بھٹو کی پولیٹیکل ایڈوائزر کے طور پرکام شروع کرکے پاکستان میں اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا لیکن ان کی سیاسی اہلیت کا امتحان جولائی1977 میں جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دور میں شروع ہوا جس میں بے نظیر بھٹو نے بڑی بہادری کے ساتھ ہر طرح کے مشکل حالات کامقابلہ کرتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے نمایاں کامیابی حاصل کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ بے نظیر بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک عورت ہونے کے باوجود ایک مسلم معاشرے میں زبردست سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایوان اقتدار تک پہنچ کردنیا بھر سے اپنی سیاسی اور قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایااور 1988 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوکر عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا منفردترین اعزاز حاصل کیا،بے نظیربھٹو اپنی عوامی سیاست اور خداداد قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان میں 2 مرتبہ وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین عہدے پرفائز ہوئیں جو ان کے مقبول ترین عوامی رہنما ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

بے نظیربھٹو کو اعلیٰ سیاسی سوجھ بوجھ،قائدانہ صلاحیت اورولولہ انگیز شخصیت کی بدولت پاکستان اور بیرونی دنیا میں ایک متحرک اورباعمل بہادر سیاسی رہنما کے طور پرزبردست شہرت حاصل ہوئی لیکن ملک دشمن، مفادپرست سیاست دانوں،سازشی عناصر اور سامراجی طاقتوں کو بے نظیر بھٹو کی یہ زبردست عوامی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی کیونکہ بیرونی طاقتوں کو تو ایسے بکاؤ سیاست دان چاہیئے ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کے حصول کے لیئے ان کے اشاروں پرناچ سکیں اور چونکہ بے نظیر بھٹو میں منافقت اور مفاد پرستی نہ تھی چنانچہ اپنی پالیسی کے تحت پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں نے پاکستان میں موجود مقامی مفادپرست غیرحقیقی سیاسی قوتوں کوطاقتور بنانے کے لیئے انہیں مختلف ترغیبات کے ذریعے خرید کر ایک جگہ جمع کیااور اقتدار کی منزل تک پہنچایا تاکہ بے نظیر بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں جوزبردست عوامی طاقت جمع ہورہی ہے اسے اقتدار تک پہنچنے سے روکا جائے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جوولولہ انگیز سیاسی زندگی گزاری اور جس شان اور بہادری سے انہوں نے سامراجی قوتوں،فوجی آمروں اور ان کے زرخریدچمچوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارااور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرپاکستانی عوام کے حقوق کی خاطرجس مہارت کے ساتھ صاحب اقتدار اور بادشاہ گر قوتوں کو ہر میدان میں چت کرکے اپنی غیرمعمولی سیاسی صلاحیتوں کا لوہا منوایاوہ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جس پر پوری پاکستانی قوم کو فخر کرنا چاہیئے ۔

وفاق کی علامت ،چاروں صوبوں کی زنجیر ،بے نظیربھٹو کی زندگی اور موت دونوں قابل رشک ہیں کیونکہ ان جیسی متحرک اور فعال زندگی اوردلیرانہ شہادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ تاریخ کے صفحات اور لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے جس خاندان میں جنم لیا اس میں شروع سے ہی روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی کہ وہ کرپشن کرنے کے لیئے سیاست کا رخ کرتیں بلکہ ان کو تو پہلے ہی اندازہ تھا کہ سامراجی قوتیں،بیرونی طاقتیں اورنام نہاد غیرحقیقی سیاست دان،سیاسی میدان میں ان کے وجود کو برداشت نہیں کریں گے اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں کہ ان کے والد قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹوجیسے زبردست اور حقیقی سیاسی رہنماکے ساتھ اس ملک میں کیسا سلوک کیا گیا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے مقبول ترین محب وطن سیاسی رہنما ’’بھٹو‘‘کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے امریکی اشارے پر اقتدار پر قابض ہوکر ایک نام نہادقتل کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے کس بے دردی اوربزدلی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں پھانسی پر لٹکادیا۔لیکن ان تما م تر تلخ حقیقتوں کوجاننے اور پاکستانی سیاست میں مفادپرست قوتوں کی مضبوط گرفت اور اثرورسوخ کا علم ہونے کے باوجودانہوں نے اپنے لیئے اسی پرخطر اور دشوار راستے کا انتخاب کیا جس پر چلنے کی پاداش میں ان کے عظیم باپ ذوالفقار علی بھٹو کو شہیدکیا گیا تھا اورآخر کار ملکی اورغیرملکی طاقتوں نے بھٹو صاحب کی سیاسی وارث اور حقیقی جانشین عظیم عوامی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی27 دسمبر2007 کو قتل کرکے ہمیشہ کے لیئے خاموش کردیا ۔

ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں اور یہی ہماری شناخت ہے لیکن افسوس کہ آج کا دور مفاد پرستی،لسانیت،اور قومیت کا پرچار کرنے والے سیاست دانوں کا دور ہے جس میں حب الوطنی ایک جرم بن چکی ہے اور چمچہ گیری کو سب سے بڑی خوبی اور کامیابی حاصل کرنے کاآسان راستہ سمجھا جاتا ہے ۔اگر کسی کو سیاست دان بننے اور کہلانے کا شوق ہے تووہ ذوالفقارعلی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے سیاست سیکھے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنے مثالی کردار اور عمل سے پاکستانی سیاست دانوں کا اچھا اور قابل تقلیدامیج بنایایہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر بھٹو خاندان کا نام عموماً اورذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکا نام خصوصاً بہت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے اور سیاست و حکومت کے میدان میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعدان دونوں سیاست دانوں کو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان دونوں عظیم سیاسی رہنماؤں کے کردار و عمل نے ان کو پاکستانی سیاست کا لازمی حصہ بنادیا ہے جس کے اثرات پاکستانی سیاست پر کل بھی تھے ،آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹوشہید کی چہیتی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کوپہلے توپاکستان واپس آتے ہی کراچی میں خودکش بم دھماکے کے ذریعے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن اس مضموم کوشش میں ناکامی کے بعد27 دسمبر کو2007 کوراول پنڈی میں تاریخی جلسہ عام کے بعد لیاقت باغ کے قریب ان کو بھی گولیاں مار کر شہید کردیاگیا ۔ پاکستانی سیاست میں بھٹوخاندان اپنا لہوشامل کر کے پاکستانی قوم کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتا رہا کہ عوام کی جائز ضرورتوں، امنگوں اور خواہشات کو پورا کرنے اور پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لیئے اپنی جان کی بازی لگانے والے محب وطن لوگ ابھی ختم نہیں ہوئے لیکن افسوس27 دسمبر کی شام بھٹوخاندان کے لہو سے روشن پاکستانی سیاست کا آخری چراغ بھی بجھادیا گیا اور پاکستان دشمن عناصربے نظیر بھٹو کو بھی ابدی نیند سلانے میں کامیاب ہوگئے اوربے نظیر بھٹو کو بھی اپنی حب الوطنی، بہادری اورعوامی مقبولیت کی قیمت آخر کار اپنے خون سے ہی چکانی پڑی ۔

27 دسمبر 2007 کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کو مارنے والوں نے یہ سوچا ہوگا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو قتل کرکے اپنے راستے کا سب سے بڑا کانٹا ہٹا دیا ہے لیکن ان نادانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرکے اپنے راستے میں خود کانٹے بچھا رہے ہیں۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کیا ہوا ؟کیالوگ بے نظیر بھٹو کو بھول گئے؟ہم سب نے دیکھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیئے جانے والے دن سے آج تک ملک بھر کے اخبارات اور میڈیا چینلز نے بے نظیر بھٹو اوربھٹوصاحب کے حوالے سے اتنا کچھ شائع کیا اور ٹی وی اسکرین پر دکھایا کہ جو لوگ بھٹوخاندان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے یا جنہیں ان دونوں رہنماؤں کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں ان سب کو بھی بہت اچھی طرح پتہ چل گیا کہ ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا پاکستانی سیاست میں کیا کردار اور مقام ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی پر لٹکاکر ختم کرنے والے خود ختم ہوگئے لیکن بھٹو کے نام کو پاکستانی سیاست سے ختم نہیں کرسکے اوربے نظیر بھٹو کو مارنے والوں نے بھی اپنے انجام پر غور نہیں کیا،بے نظیر بھٹوکو شہید کیئے جانے کے بعد پاکستانی عوام کو میڈیا کے ذریعے بے نظیر کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئیں ان کو جان کرپاکستان کا بچہ بچہ بے نظیر بھٹو کے گن گانے لگاحتیٰ کہ وہ لوگ اور سیاسی مخالفین جو بات بات پر بے نظیر بھٹو کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے آج وہ بھی اپنی سوچ اور طرزعمل پر شرمندہ ہوکربے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وجہ سے ہواکہ بے نظیر بھٹو نے عوامی حقوق کے حصول کے لیئے اپنی زندگی داؤ پر لگادی لیکن ابن الوقت اورمفادپرست مقتدر قوتوں سے عوامی حمایت کا سودا نہ کیااور پاکستان کے لیئے اپنی جان تک قربان کردی۔محترمہ بے نظیربھٹو نے بھٹو خاندان کی روایات کے عین مطابق ایک محب وطن سیاسی رہنماکے طور پربڑی ولولہ انگیز زندگی گزارنے کے بعدبڑی بہادری اوردلیری کے ساتھ اس ملک وقوم کی خاطرجام شہادت نوش کرکے جو تاریخ رقم کی ہے اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا،انہوں نے پاکستان کی فلاح وبہبود اور استحکام کے لیئے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر سیاسی جدوجہد میں فعال ترین کردار ادا کرکے پاکستانی عوام کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے اور جو بلند مقام حاصل کیا ہے وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا،وقت اور تاریخ پاکستانی سیاست میں بے نظیر بھٹو کے کردار اور کارناموں کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے مفادپرست معاشرے میں بے نظیر بھٹو جیسی محب وطن لڑکی نے جنم لیا جس نے اپنی ساری زندگی عوامی حقوق کی سر بلندی اور پاسداری کے لیئے وقف کردی لیکن افسوس27 دسمبر2007 کی شام کسی بدبخت نے انہیں لیاقت باغ راول پنڈی میں عظیم الشان جلسہ عام کے بعدفائرنگ کرکے شہیدکردیااورپاکستانی قوم ایک عظیم مدبر اور محب وطن سیاسی رہنما سے محروم ہوگئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستانی قیادت میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے شاید ہی کبھی پورا کیا جاسکے لیکن ان سے محبت اور عقیدت کرنے والے ان کی ذات اور کردار کی خوبیوں کو اپنا کر اور ان کے سیاسی فلسفے کو اپنا رہنما بناکرملک وقوم کی خدمت ضرورکرسکتے ہیں۔

عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹو شہیدکی قابل رشک اور قابل تقلید سیاسی زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے انداز فکر،فلسفے اور طرز حکمرانی کے مطابق سیاسی مور کو انجام دے کر عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور بڑھتی ہوئی نفرت کے اسباب کو دور کرنے کے لیئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں ورنہ وہ پیپلز پارٹی جسے کوئی فوجی آمر،سیاسی اتحاد اوربیرونی طاقت ختم نہیں کرسکی اسے زرداری گروپ کا غلط طرز سیاست لے ڈوبے گا لہذا اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی کوزرداری گرو پ سے نجات دلوا کر اس پارٹی کے بانی قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہیداوران کی قابل فخر بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو شہیدکے افکاراور نظریات کے مطابق چلا یا جائے اور ’’بھٹوازم ‘‘ کو اس کی اصل شکل میں پارٹی کی بنیادی دستاویز بناکر اس کے مطابق سیاست اور حکومت کی جائے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم لیگ کی طرح پیپلز پارٹی میں بھی ن ،ع ،ف ، ق ،م اورذ کے نام سے دھڑے بن جائیں اور پاکستان کی سب سے بڑی عوامی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر عوام میں اپنی مقبولیت اور اہمیت کھو بیٹھے ۔۔۔۔ !
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125267 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More