نوٹ بندی کے بعد ۶ ریاستوں کے ۴ پارلیمانی
اور ۱۰ اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ جہاں تک پارلیمانی انتخابات
کا سوال ہے اس میں سے ۲ پر بی جے پی اور ۲ پر ٹی ایم سی کا قبضہ تھا اس
صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اس طرح کسی کا کوئی فائدہ یا نقصان
نہیں ہوا۔ اسمبلی کے جن ۱۰ مقامات پر انتخابات ہوئے ان میں سے ۴حلقہ ہائے
انتخاب میں اس سے قبل کا نگریس کے امیدوار کا میاب ہوئے تھے ، ۲ پر اے آئی
ڈی ایم کے کے امیدواروں کو کامیابی ملی تھی اور ایک ایک پر بی جے پی ، سی
پی ایم ، ڈی ایم کے اورٹی ایم سی کے ارکان اسمبلی کو فتح حاصل ہوئی تھی ۔
یہاں پر صاف طور پر کانگریس اور اس کی حلیف ڈی ایم کے خسارے میں رہے اور
انہیں چار نشستیں گنوانی پڑی۔ ان چار میں سے ایک ایک پر اے آئی ڈی ایم کے،
بی جے پی ، اے پی پی اور سی پی ایم نے قبضہ کرلیا ۔ اس طرح تمام علاقائی
جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کو بھی ایک نشست کا فائدہ ہوا۔
نوٹ بندی کی افراتفری کے باوجود ایسی کامیابی کی امید خود بی جے پی کو نہیں
رہی ہوگی اورنہ کانگریس کو یہ توقعتھی کہ اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ملے گا
لیکن ہاتھ کنگن کو آرسی کیا فی الحال انتخابی نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ اس
بار اسمبلی کی ۶ سیٹیں مشرقی ہندوستان کی تھیں ۔ ان کے علاوہ ایک سیٹ مدھیہ
پردیش اور ۳ اسمبلی کےحلقےتمل ناڈو میں تھے۔ مدھیہ پردیش میں تو خیر کوئی
تبدیلی نہیں آئی لیکن تمل ناڈو میں ایک سیٹ ڈی ایم کے کے جھولے سے نکل
کراے آئی ڈی ایم کے حصے میں چلی گئی اس کیلئے ممکن ہے جئے للیتا کی علالت
کے سبب ان کے تئیں ابھرنے والی ہمدردی کی لہر ذمہ دار ہو ۔
تمل ناڈو کے عوام ویسے بھی انتخابات کے وقت دماغ کی بہ نسبت دل کی زیادہ
سنتے ہیں نیز کروناندھی کی گرتی ہوئی صحت و ساکھ کو سنبھالنے کیلئے ڈی ایم
کےپاس کوئی طاقتور متبادل رہنما موجود نہیں ہے۔ عوام کا اعتماد ہنوز
کرناندھی کے بیٹے اسٹالن پر بحال نہیں ہوسکا ہے اور کرناندھی اپنے نااہل
بیٹے کے علاوہ کسی اور اعتماد کرکے اپنی سیاسی وراثت اس کے حوالے نہیں کرنا
چاہتے ۔ اسٹالن کی حالت کم و بیش ادھو ٹھاکرے کی طرح ہے کہ بال ٹھا کرے کی
موت کے بعد ابھی تک وہ اپنے والد مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
گرونا ندھی تو خیر بقیدِ حیات ہیں مگر عمر کے اس ڈھلتے پڑاو میں بیٹے کی
محبت ان کی اور ڈی ایم کے کے پیر کی زنجیر بن گئی ہے۔
مشرقی ریاستوں میں سے مغربی بنگال میں ٹی ایم سی نے اپنا دبدبہ برقرار رکھا
اورحوصلہ مند بی جے پی کو کسی قدر مایوس کیا۔ سی پی ایم مغربی بنگال میں تو
کوئی کامیابی درج نہیں کراسکی مگر تریپورہ میں اس نے نہ صرف اپنی سیٹ کو
محفوظ رکھا بلکہ کانگریس سے ایک سیٹ چھین لی حالانکہ بی جے پی کی نظریں اس
پر جمی ہوئی تھیں اور اس نے کانگریس کو تیسرے نمبر کھدیڑنے میں کامیابی
حاصل کرلی تھی فتح سے محروم رہی۔ آسام وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی نے نہ
صرف وزیر اعلیٰ کی خالی کئے جانے والے اسمبلی حلقہ میں کامیابی درج کرائی
بلکہ کانگریس سےایک سیٹ چھین لینے میں بھی کامیاب ہوگئی ۔ ارونا چل پردیش
میں بھی یہ ہوا کہ کانگریس کی باغی ارونا چل پردیش پیپلس پارٹی نےاس کی سیٹ
پر قبضہ کرلیا ۔
شمال مشرقی ہندوستان کے انتخاب میں امیدواروں کا مشاہدہ نہایت دلچسپ انکشاف
کرتا ہے۔ تریپورہ میں چند سال قبل سی پی ایم کے ایک معمر رہنماجیتندر سرکار
اپنی جماعت کو چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ سی پی ایم حکومت میں وہ دو
مرتبہ اسپیکر کے اہم عہدے پر بھی فائز رہ چکےتھے ۔ عام طور پر سیاستداں ٹکٹ
نہ ملنے پر اپنا ایمان اور پارٹی بدل دیتے ہیں اس لئے گمان غالب یہ ہے کہ
جیتندر سرکار نے بھی اسی مقصد کے تحت پارٹی تبدیل کی ہوگی ۔ کانگریس نے
انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ٹکٹ سے نواز دیا۔ ۲۰۱۴ میں وہ برجالا سے کامیاب
بھی ہو گئے لیکن ۲۰۱۶ کے آتے آتے کانگریس کا سارا ووٹ بنک ترنمول
کانگریس اور بی جے پی کی جانب کھسک گیا تھا اس لئے وہ پھر ایک بارسیاسی
چولہ بدل کر سی پی ایم میں لوٹ آئےاور اسمبلی کی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے
۔ اس بار سی پی ایم نے ان کی مدد سے جھمو سرکار کو کامیاب کرکے برجالا سیٹ
پر اپنا سرخ پرچم لہرا دیا ۔
تریپورہ میں جو کام سی پی ایم نے کیا آسام میں وہی کچھ بی جے پی نے اور
بھی بھونڈے طریقہ سے کیا ۔ بیتھلانگسو میں اس بار کانگریس کے بجائے بی جے
پی کو کامیابی ملی لیکن امیدواروہی پرانے کانگریسی رکن اسمبلی ڈاکٹر مان
سنگھ رونگپی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ان کے ہاتھ کا پنجہ کانگریسی اقتدار
کے ساتھ تھا اب نئی سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعدرونگپی کے ہاتھ میں بی
جے پی کا کمل ہے ۔ بی جے پی کو اپنے نظریہ اور اقتدار کے باوجود ایک ایسا
امیدوار نہیں مل سکا جو اس حلقۂ انتخاب میں کمل کاپھول کھلا سکے ۔ مجبوراً
اس نے کانگریس کا پنجہ مروڈ کر اپنا کام نکال لیا۔
اروناچل پردیش کا حال تواور عبرت انگیز ہے ۔ وہاں پرکامیاب ہونے والی
امیدوار داسانگلو پل دراصل سابق کانگریسی رکن اسمبلی کالیکھو پل کی تیسری
اور سب سے کم عمر زوجہ ہے۔ کانگریس سے بغاوت کے بعد بننے والی اروناچل
پردیش پیپلس پارٹی کے ٹکٹ پر وہ کامیاب ہوئی ہیں اس طرح موروثی سیاست کی
مخالفت کرنے والی بی جے پی کے قومی مشرقی محاذ نے بھی وہی کیا جو کانگریس
اور دیگر علاقائی جماعتیں کرتی ہیں کہ جب کوئی رہنما فوت ہوجائے تو اس کے
اہل خانہ کو ٹکٹ دے کر ہمدردیوں کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹی سینک لی جائیں۔
مہاراشٹر میں گوپی ناتھ منڈے کے ساتھ یہی ہوا۔کانگریس کو زبردست اکثریت
والی حکومت کو بی جے پی کی مدد سے گرانے کا کام کالیکھو پل نے کیا تھا لیکن
جب سپریم نے اس دھاندلی کو مسترد کرتے ہوئے نابام تکی کی حکومت بحال کردی
تواس سے بددل ہوکر کالیکھوپل نے وزیراعلیٰ کی کوٹھی خالی کرنے کے بجائے اسی
میں خودکشی کرکے اقتدار سے محبت کی نئی مثال قائم کردی ۔
کانگریس نے اپنا اقتدار جاری رکھنے کیلئے بزرگ نابام تکی کو نوجوان پیما
کھانڈو سے بدل دیا لیکن نئے وزیراعلیٰ نے چند ماہ کے اندر بی جے پی سے ساز
باز کرکے پوری پارٹی کے ساتھ بغاوت کرکے نئی جماعت اروناچل پردیش پیپلس
پارٹی بنالی۔ اس نئی جماعت کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اس کے
باوجود اس نے بی جے پی سے الحاق کرکے اس کو حکومت میں شامل کیا حالانکہ اس
کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اس دوسری بغاوت کے بعد
کانگریس میں صرف ہٹائے جانے والے نابام تکی رہ گئے تھے ۔ کانگریس نے اس بار
سانگلو کے خلاف کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا اور ایک آزاد امیدوار کی حمایت
کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح اے پی پی کی اس کامیابی کو بی جے
پی نے زبردستی اپنے نام کرلیا ۔ اروناچل میں بی جے پی کی حمایت اے پی پی
نہیں کرتی بلکہ بی جے پی اس کی بلاضرورت حمایت کرکے اپنا رسوخ بڑھا نے کوشش
کررہی ہے۔ ان نتائج کا ایک سبق تو یہ ہے کہ کانگریس کو ہرانے کیلئے اس کے
اپنے امیدوار کو توڑنا اوراس صوبے میں مخالف حکومت کا ہونا ضروری ہے ورنہ
پدوچیری جیسی صورتحال میں جہاں کانگریس بغاوت سے پاک ہو اور صوبے میں اس کی
اپنی حکومت بھی ہوتو اس کے امیدوار نارائن سامی کی کامیابی سہل الحصول ہے۔
بھارتیہ جنتاپارٹی دراصل ایک نظریاتی تحریک آریس ایس کی ترجمان ہے اس لئے
اس کے مضبوط ہونے سے نظریاتی سیاست پروان چڑھنی چاہئے تھی لیکن اقتدار کے
ہوس میں وہ بھی نظریات کو بالائے طاق رکھ کر موقع پرستی کو فروغ دے رہی ہے
۔ اس کے بالمقابل سی پی ایم کی بھی اپنی منفرد سیاسی فکر و نظر ہے مگر وہ
بھی بی جے پی کی مانند منافقت کی سیاست کا سہارا لے رہی ہے۔ جہاں تک
کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کا تعلق ہے انہوں نے تو کب کا اصول و
نظریات کو گنگا میں بہا کر خالص ابن الوقتی کو اپنا شعار بنا رکھا ۔شمال
مشرقی ہندوستان میں فی الحا ل جس بے مثال موقع پرستی کا مظاہرہ ہواہے جو
قومی سیاست کیلئے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
آسام میں مہاجرین کے خلاف آل آسام اسٹوڈینٹس یونین (آسو)نےاسیّ کی دہائی
میں ایک زبردست تحریک چلائی تھی جو بنیادی طور پر بنگالیوں کے خلاف تھی اور
اس کا غم غصہ بنیادی طور پرمغربی بنگال سےآکر سرکاری دفاتر پر چھا جانے
والے افسران کے خلاف تھا لیکن سنگھ پریوار نے کمال چالاکی سے آسو میں شامل
ہوکر اس کا رخ مسلمانوں کی جانب موڑ دیا گیا اور آسامی مسلمانوں کو بھی
بنگلادیشی قرار دے کر نیلی کا بدنام زمانہ قتل عام انجام دے دیا جس میں
گجرات سے زیادہ ڈھائی ہزاربے قصور لوگوں کو تہ تیغ کیا گیا ۔ اس تحریک کے
بطن سے آسام گن پریشد نے جنم لیا اور اس کی حکومت بھی بنی لیکن آگے چل کر
بی جے پی کی دوستی اس کو مہنگی پڑی ۔ اس کا ووٹ بنک بی جے پی کی جھولی میں
چلا گیا۔ اے جی پی سے دل بدل کر بی جے پی میں آنے والے سربانند سونووال فی
الحال آسام کے وزیراعلیٰ ہیں ۔
ا ٓسامی باشندوں کے اندر مہاجرین کے خلاف نفرت کے جذبات ہنوز باقی ہیں ۔
بنگلا دیش سے آنے والی مہاجرین کی بڑی تعداد ظاہر ہے ہندووں کی ہے اور وہ
بھی اس کی زد میں آنے کے سبب خوفزدہ ہے اس لئے بی جے پی والے ایک نیا کھیل
کھیل رہے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے جو ہندو بنگلادیش سے آئے ہیں وہ تو مجبور
ہیں اس لئے ان کو واپس نہیں بھیجا جائیگا بلکہ صرف مسلمانوں کو واپس کیا
جائیگا ۔ اس حکمت عملی کا ایک سیاسی فائدہ بی جے پی کو یہ ہوا کہ یہ غیر
محفوظ ہندو بنگلا دیشی بڑے پیمانے پر بی جے پی کے حامی بن گئے۔ آسام اور
تریپورہ کے اندر بی جے پی کی کامیابی کےعوامل میں یہ سب سےاہم ہے ۔
اس سیاسی جوڑ توڑ سے علی الرغم آسو سے نکل کر قائم ہونے والی ایک مسلح
علٰحیدگی پسند تنظیم یونائیٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام یعنی الفا بھی ہنوز
سرگرم عمل ہے۔ جس وقت اروناچل پردیش اور آسام میں انتخاب کی گہما گہمی
زوروں پرتھی الفا نے تیل کیلئے مشہور شہر ڈگبوئی کے قریب حملہ کرکے کماوں
رجمنٹ کے تین جوانوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کردیا ۔ اس سے ایک ہفتہ قبل
ان لوگوں نے پنگیری چائے کے باغات میں مزدوروں کی تنخواہ لے جانے والی گاڑی
پر حملہ کردیا تھا ۔ آسام کے اندر بی جے پی کی صوبائی حکومت کے قائم
ہوجانےسے کچھ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ بی جے پی کے اقتدار میں
آتے ہی علٰحیدگی پسندی جسے حکومت دہشت گردی قرار دیتی ہے کافورہوجائیگی ۔
مذکورہ بالا مفروضہ کشمیر کے علاوہ آسام میں بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔
وزیراعلیٰ کے بلند بانگ دعووں کے باوجود حملہ آوروں کے خلاف کوئی ٹھوس
کارروائی منظر عام پر نہیں آئی ہے۔
اتر پردیش اور پنجاب میں چند ماہ کے اندرصوبائی انتخابات منعقد ہونے والے
ہیں ۔ اس الیکشن کا ان انتخابات پر ممکنہ اثرات اور رائے دہندگان کے رحجان
کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو حیرت انگیز شئے سارے نتائج پر محیط ہے
وہ یہ کہ کسی بھی ریاست کے عوام نے اپنی ریاستی حکومت کے خلاف غم و غصے کا
اظہار نہیں کاا۔ اترپردیش اور پنجاب میں سے ایک میں بی جے پی کی حامی اکالی
دل کی حکومت ہے اور اترپردیش میں سماجوادی پارٹی برسرِ اقتدار ہے اس لئے بی
جے پی کیلئے ایک جگہ خوشخبری اور دوسری ریاست میں بری خبر ہے۔ اگر یہی
رحجان قائم رہتا ہے تو پنجاب میں اکالی دل کو پھر سے کامیاب ہوجانا چاہئے
لیکن مرکزی اور ہریانہ سرکار کی حماقتوں نے پنجاب کی ناکامی پر مہر ثبت
کردی ہے۔ اکثروبیشتر سیاسی مبصر اکالی دل اوربی جے پی کی مشترکہ حکومت پر
فاتحہ پڑھ چکے ہیں۔ بحث اس سوال پر مرکوز ہے کہ اس غیر مقبول حکومت کی جگہ
کانگریس لے سکےگی یا اروند کیجریوال دہلی سے باہر اپنی اولین حکومت بنانے
میں کامیاب ہوجائیں گے۔
بی جے پی نے اترپردیش کے انتخاب کو اپنی انا مسئلہ بنارکھا ہے اور پارٹی کا
صدر خود پریورتن یاترا کی باگ ڈور تھامے ہوئے ہے دربدر بھٹک رہا ہے حالانکہ
یہ صوبائی رہنماوں کے کرنے کاکام ہے۔ اتر پردیش کے اندر امیت شاہ بہار میں
اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس میں کسی کو
شریک کرنا نہیں چاہتے۔ یہی جنون ان کا اور ان کی جماعت کا سب سے بڑا دشمن
ہے۔ بہار میں بی جے پی نے کسی امیدوار کووزیراعلیٰ کی حیثیت سے پیش کئے
بغیر مہم چلائی اور ناکام رہی اس کے برعکس آسام کے اندر ایک واضح مقامی
امیدوار تھا جس نے رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے میں خاصا اہم کردار
اداکیا۔ اتر پردیش میں بی جے پی نے گوناگوں مجبوریوں کے سبب بہار کی حکمت
عملی اختیار کررکھی ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کے پاس کئی ممکنہ امیدوار
ہیں جنہیں وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن ان سب کوامیت شاہ
اور نریندر مودی کی جوڑی نےبرگشتہ کررکھاہے ۔
اترپردیش کے انتخاب میں کامیابی کیلئے سب سے مناسب نام وزیرداخلہ راجناتھ
سنگھ کا ہے۔ انہیں صوبے میں وزیراعلیٰ بننے کا اور قومی و ریاستی سطح پر
کام کرنے کا طویل تجربہ ہے۔ قومی سطح پر ان کا شبیہ وزیراعظم سے بھی بہتر
ہے ۔انتخابی مہم کے آغاز پر ہی الہ باد کی ریلی میں عوام نے ان کا استقبال
وزیراعظم کی بہ نسبت زیادہ پرجوش طریقے پر کیا جو ان کی زبردست مقبولیت کا
غماز تھا لیکن چونکہ اس سے وزیراعظم کو خطرہ بڑھ گیا تھا اس لئے انہیں دور
رکھا جارہا ہے۔ راجناتھ سنگھ جیسے آرزومند رہنما کیلئے اترپردیش میں باہر
والے امیت شاہ کااس قدر عمل دخل کے کسی کو پوچھا ہی نہ جائے سراسرتوہین
ہے۔ایسا لگتا ہے کہ شاید وزیرداخلہ بھی اپنے عظیم تر مفاد کے پیش ِ نظر
چاہتے ہیں کہ بی جے پی اترپردیش میں ہار جائے تاکہ اس کا بہانہ بناکر پہلے
مرحلے میں امیت شاہ سے نجات حاصل کی جاسکے اورپھر وزارت عظمیٰ کی کرسی کا
راستہ ہموار کیا جائے۔
راجناتھ سنگھ کے علاوہ ادتیہ ناتھ، سمرتی ایرانی اور ورون گاندھی کے نام پر
غور کیا جاسکتا ہے۔ ابتداء میں راجناتھ کے خلاف امیت شاہ نے ادتیہ ناتھ کو
آگے بڑھایا لیکن آگے چل کر انہیں احساس ہوگیا کہ اس سرپھرےسادھو کو قابو
میں رکھنا بے حد مشکل ہے ۔اس کی شدت پسند ی اور بدزبانی قومی سطح پر نقصان
دہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔ سمرتی ایرانی ایک زمانے تک وزیراعظم کی منظور نظر
تھیں لیکن روہت ویمولا کے معاملے میں انہوں کچھ ایسے مایوس کیا کہ وہ اعلیٰ
کمان کی نظر سے گرگئیں ۔ ویسے ان کا وزیراعلیٰ کا امیدوار بن جانا حزب
اختلاف کیلئے کرن بیدی کی مانند وردان ثابت ہوسکتا تھا لیکن شاید بی جے پی
کے ستارے ابھی پوری طرح گردش میں نہیں آئے۔
اکھلیش یادو کے مقابلے بی جے پی کے پاس سب سے زیادہ دبنگ رہنما ورون گاندھی
ہے لیکن نہرو گاندھی خاندان سے اس کا تعلق سب بڑی رکاوٹ ہے ۔ ورون گاندھی
ایک خوددار شخصیت کے مالک ہیں اور وہ امیت شاہ کی چاپلوسی نہیں کرسکتے اس
لئے ان کو کنارے کردیا گیا ہے۔ ایسے میں امیت شاہ کی انانیت پسندی اور
احساس خوف مودی جی کے سہارے اپنے بل بوتے پربی جے پی کا بیڑہ پار لگانے پر
مجبور کررہی ہےجو بظاہر ناممکن ہدف ہے۔ انتخابی مہم میں اکھلیش کی وکاس
یاترا کا رتھ فی الحال بی جے پی کے پریورتن رتھ سے بہت آگے چل رہا
ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج میں اکھلیش کیلئے یہ خوشخبری ہے کہ اگر وہ
کوئی بڑی حماقت نہیں کرتے تو پھر ایک بار عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں
کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ بی جے پی کے کمل کوآگے چل کر
سماجوادی کی سائیکل کچلتی ہے یا مایاوتی کا ہاتھی اس پر حاوی ہوجاتا ہے۔
اتر پردیش کے انتخابی نتائج کا دارومدارکھلیش یادو کی مہارت اور امیت شاہ
کی حماقت پر موقوف ہے۔ جس وقت یہ مضمون تکمیل کے مراحل میں تھا لکھنو کے ۴۰
سالہ سیلیش کمارنے خودکشی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے استدعا کی اس کی موت کے
بعد اہل خانہ کا خیال رکھا جائے اور وزیراعظم کو لکھا کہ ا ٓپ کے اچھے دن
کی حقیقت دیکھنے کیلئے میں زندہ نہیں رہوں گا ۔ وکاس اور پریورتن کی چکی
میں پسنے والے عام آدمی کے مایوسی حکمرانوں کیلئے تازیانۂ عبرت ہے۔ |