نئی آرمی قیادت کو درپیش چیلنجز
(Asif Khursheed Rana, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی عہدہ کو ذمہ داری سمجھے
۔بلا شبہ عہدہ جتنا بھی اہم ہو ذمہ داری بھی اتنی ہے بڑی ہوتی ہے ۔آرمی چیف
جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر باجوہ کو آرمی چیف تعینات کر کے وزیر اعظم
نے تمام افواہوں کا گلا گھونٹ دیا۔جس خوش اسلوبی سے یہ مرحلہ طے کیا گیا ہے
اس کاسہرا وزیر اعظم اور آرمی چیف راحیل شریف کے سر پر ہے ۔جنرل راحیل شریف
نے نہایت پروقار انداز میں دنیا کی بہترین فوج کی قیادت کی اور نئے آنے
والوں کے لیے کئی چیلنج چھوڑ کر گئے ہیں ۔جنرل راحیل شریف کو قیادت سونپی
گئی تو ملک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا ۔ ایک طرف فاٹا میں موجود
دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ملک بھر کے لیے خطرہ تھیں تو دوسری جانب کراچی
میں مسلح افراد کی جانب سے لوٹ مار ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اور اغواء برائے
تاوان کا سلسلہ عروج پر تھا ۔بلوچستان میں علیحدگی پسند بھارت سمیت دیگر
ریاستوں کی سرپرستی میں ریاست پاکستان کے لیے خطرہ بن رہے تھے۔ جنرل راحیل
شریف نے جمہوری حکومت کو موقع فراہم کیا کہ وہ فاٹا سمیت دیگر علاقوں میں
مذاکرات کے ذریعے مسلح جتھوں کو ہتھیار پھینکنے پر راضی کر سکتے ہیں تو فوج
اس کا خیر مقدم کرے گی ۔تاہم مذاکرات میں ناکامی کے بعد جنرل راحیل شریف نے
دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لیے بے رحم آپریشن کا فیصلہ کر لیا اور
آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ۔
آرمی پبلک سکول پر حملوں کے بعد سول ملٹری قیادت نے اتفاق رائے سے نیشنل
ایکشن پلان دیا اور ملٹری کورٹس کے قیام کا فیصلہ ہوا جس میں دہشت گردوں کو
ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے مختلف مقدمات کا فیصلہ کیا گیا اور دہشت
گردی کے واقعات میں ملوث مجرموں کو سزائے موت بھی دی گئی۔ آپریشن ضرب عضب
سے دہشت گردی میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی ۔ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف
رینجرز آپریشن میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی دباؤ تھا جس کو
آرمی چیف نے یکسر مسترد کر دیا اور بلا امتیاز آپریشن جاری رہا جس کے نتیجہ
میں کافی عرصہ بعد کراچی میں امن کا دور دورہ شروع ہوا یہ آپریشن تاحال
جاری ہے۔ بلوچستان میں بیرونی ممالک جن میں سرفہرست بھارت ہے کی سرپرستی
میں علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں کے خلاف بھی موثر کارروائی کا آغاز ہوا یہ
آپریشن بھی کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کا گٹھ
جوڑ میں راحیل شریف نے بے نقاب کیا۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جو اب آخری
مراحل میں داخل ہو چکی ہے نئی قیادت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ابھی
ایسے بہت سے اقدامات باقی ہیں جن کے باعث دہشت گردی کے تابوت میں آخری کیل
ٹھونکنے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت حد تک
بیرونی مدد کو ختم کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی ذیادہ توجہ اندرونی عوامل پر
رہی اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی نہ ہو سکی ۔
اس وقت پاکستان کی مشرقی ومغربی سرحدوں پر خطرناک گیم کھیلی جارہی ہے دونوں
سرحدوں پر پاکستان کو چھوٹے پیمانے کی جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا
رہی ہے ۔ عام طور پر پاکستان ہمیشہ سے جنوب مغرب سے ہمیشہ بے فکر رہا ہے
لیکن کلبھوشن یادو نیٹ ورک نے اسی سمت سے رسائی حاصل کی ۔اس لیے پاکستان اب
اس سمت سے بھی غافل نہیں رہ سکتا بالخصوص ان حالات میں کہ کچھ عناصر پاک
چائنہ اقتصادی راہداری سے خائف ہیں اور اس منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے
بلوچستان ان کا ہدف ہے جس تک رسائی جنوب مغرب سے رسائی سب سے ذیادہ ؤسان
ہے۔جنرل راحیل شریف نے ان سرحدوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جہاں سے دہشت
گردوں کی سرپرستی کی جارہی تھی ۔ اندرونی عناصر کے خلاف کامیاب کارروائی کے
بعد اب اگلا مرحلہ دہشت گردی کے بیرونی تعلق کو ختم کرنا ہے ۔لائن آف
کنٹرول پر جس دہشت گردی کا آغاز بھارت کی جانب سے ہوا ہے اگر اس کا موثر
جواب نہ دیا گیا تو یہ بین الاقوامی سرحد تک بھی بڑھ سکتی ہے ۔ اس لئے دہشت
گردی کے عفریت کو قابو میں لانے کے لیے بیرونی عناصر کے خلاف بھی موثر
کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔نئی قیادت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان
میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو بھارت کی تمام تر دہشت گردی کے باجود
اپنی ہی فورسز کو مطعون کرنے پر تلا ہوا ہے ۔یہ طبقہ ہمیشہ سے پاکستان کی
بنیادی اساس کے خلاف اپنی سوچ اور فکر کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے لیے
کوشاں ہے ۔ ان کے خیال میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ پالیسی کی
بجائے مفاہمانہ پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے اور اس کے لیے پاکستان کو
مسئلہ کشمیر پس پشت بھی ڈالنا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے ایک اہم نکتہ جس پر جنرل راحیل شریف موثر
انداز میں کام نہیں کر سکے وہ تکفیری اور خارجی سوچ کے خاتمہ کے لیے فکری
محاذ پر ان کا مقابلہ کرناہے۔ دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ اس سوچ کو قرآن و
احادیث سے غلط انداز میں تعبیر کرنے کے بعد تعلیمی اداروں میں پھیلایا جا
رہا ہے جس کی وجہ سے عسکری محاذ پر شکست کے باوجود ایک ایسی سوچ پائی جا
رہی ہے جو دہشت گردی کی اس جنگ کو ناکام بنانے کے لیے اسے دینی طبقے کے
خلاف جنگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہیں سے دہشت گردوں کو سلیپر سیلز
میسر آتے ہیں ۔ اس فکری محاذ پر کام کرنے کے لیے نیکٹا سے ذیادہ موثر ادارہ
نہیں ہو سکتا ۔نیکٹا ابھی تک اس طرح فعال نہیں ہو سکتا تاہم دہشت گردی کی
جنگ میں حتمی کامیابی حاصل کرنے کے لیے نیکٹا کو اس محاذ پر فعال کرنا سب
سے اہم ہے۔اس حوالے سے دینی طبقات اور نیکٹا کا آپس میں مل کر غوروفکر کرنا
اور ان کے تعاون سے ریاست کے خلاف خروج یا کسی طبقے کی تکفیر کے حوالے سے
خالصتاً اسلامی فکر کو عوام تک پہنچانا از حد ضروری ہے ۔
نئی قیادت کے لیے پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج
ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت کھلے بندوں اس منصوبے کے خلاف دھمکی دے
چکا ہے اور اس کو ہر قیمت پر روکنے کا اعلان کر چکا ہے۔ بلا شبہ یہ منصوبہ
پاکستان کے لیے ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کو صرف خطے
میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک اعلی و ممتاز مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
اس منصوبے میں روس کی شمولیت نے اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو چکا ہے
۔بھارت سمیت بہت سی ریاستیں ہیں جو اس منصوبے سے خائف ہیں اور ان کا پہلا
ہدف منصوبے کو ثبوتاژ کرنا ہے ۔ یہ پاک فوج ہی ہے جو اس منصوبے کی حفاظت کی
ضامن ہے چنانچہ نئی قیادت کو اس حوالے سے بہت کام کرنا پڑ سکتا ہے ۔
کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو پہلی دفعہ جنرل راحیل شریف نے بے نقاب
کیا ۔اپنے دور میں وہ کراچی میں یہ گٹھ جوڑ توڑنے میں بہت حد تک کامیاب رہے
تاہم حتمی کامیابی کے لیے اس گٹھ جوڑ کے خلاف مزید کام کرنے کی ضرورت ہے
۔بدقسمتی سے اس حوالے سے سیاسی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے تاہم ملکی مفاد میں ہر
قسم کے دباؤ اور مصلحت سے بالاتر ہو کر شفاف انداز میں اس کے خلاف کارروائی
جاری رکھنی ہو گی ورنہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ کسی صورت حتمی کامیابی
حاصل نہیں کر سکتی ۔ جنرل راحیل شریف کے دورپنجاب میں دہشت گردی کی کمین
گاہوں کے خلاف موثر کارروائی نہ ہو سکی کیونکہ اس وقت تمام تر توجہ فاٹا ،
بلوچستان اور کراچی میں مرکوز تھی اور انہیں وقت نہ مل سکتا اب یہ نئے آنے
والی قیادت کے ذمہ ہے کہ پنجاب میں بھی اسی طرح کے آپریشن کا آغاز کرے۔
مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے اور یہ بات
قابل اطمینان ہے کہ سول ملٹری قیادت اس مسئلہ کے حل کے لیے اتفاق رائے کے
ساتھ آوا ز اٹھا رہے ہیں ۔جنرل راحیل شریف واضح طور پر کہتے رہے ہیں کہ
کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈہ ہے اور آرمی کی نئی قیادت کے لیے
اس فکر کو لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔سول ملٹری تعلقات بھی نئی قیادت کے ایک
بہت بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئیں گے ۔نیوزلیک کیس کی تحقیقات ابھی
درمیان میں ہیں اور نئی قیادت پر اس حوالے سے سیاسی طور پر دباؤ ڈالنے کے
لیے بھی پوری کوشش کی جائے گی تاہم ’’سچ‘‘ کو سامنے لانا خود سول اور ملٹری
قیادت کے مفاد میں ہے۔ میری رائے کے مطابق راحیل شریف کے دور میں بھی اگرچہ
سول ملٹری تعلقات میں بعض معاملات پر تناؤ رہا ہے تاہم یہ خلااتنا بڑا نہیں
تھا جتنا یار لوگوں نے اس عوام کے سامنے پیش کیا ۔ اس خلا کو مزید کم کرنے
کے لیے ضروری ہے کہ نیوز لیک کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔اس تمام
بحث سے اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کو اندرونی و بیرونی
دونوں چینلجز کا سامنا ہے تاہم جن مسائل کا سامنا ہے ان کا ذیادہ تعلق
بیرونی چیلنجز سے ہے اور نئی قیادت کو اندرونی مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ
ساتھ بہت ذیادہ توجہ بیرونی عناصر پر بھی دینی ہو گی جو ان مسائل کی بڑی
وجہ ہیں ۔ |
|