ٹرمپ اورامریکی ریاستوں سے علیحدگی کی تحریکیں

بالآخر عالم کفر و عالم صہیونیت نے اسلام اور عالم اسلام کے خلاف اپنا تْرْپ کا پتہ (Trump Card) باہر نکال ہی دیا اور یہ پتہ اسی وقت نکالا جاتا ہے جب کوئی جواری اپنے تمام تر پتے استعمال کرنے کے باوجود بازی ہارتا محسوس کرتا ہے‘ ایسے میں ہر جواری اپنا ایک ایسا پتہ آخری وقت تک سنبھال کر رکھتا ہے جسے وہ انتہائی مشکل یا آخری وقت میں ہاری ہوئی بازی جیتنے کے لئے استعمال کرتاہے۔ اس وقت اس کے پاس یہ آخری پتہ استعمال کرنے کے علاوہ کوئی راستہ (Option) نہیں بچا ہوتا۔ یہ پتہ بڑی دانائی سے استعمال کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بعد یا تو وہ بازی مکمل طور پر جیت جائے گا یاپھرمکمل طو رپر ہار بیٹھے گا۔ کوئی کھلاڑی اس پتے کے ذریعے بازی جیتے یا ہارے‘ اس سے قطع نظر جب کوئی کھلاڑی یہ پتہ باہر نکالتاہے تو اس سے ایک بات البتہ ثابت ہوجاتی ہے کہ اب اس کھلاڑی اور جواری کے پاس ترپ کا پتہ استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ اب وہ انتہائی رسک پر ہے اور حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس طرح غیر متوقع طور پر انتخابات جیت کر سامنے آیا‘ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اب عالم کفر و صہیونیت نے واقعی اپنا ترپ کا آخری پتہ (Trump Card) بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب اس کارڈ کے علاوہ اپنی ہاری ہوئی بازی جیتنے کے لئے ان کے پاس اورکوئی راستہ نہیں بچا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف جنگ کا سرخیل اور سپہ سالار امریکہ اب اپنی بازی بری طرح ہارتا محسوس کر رہا ہے‘ تب ہی تو اس نے اپنا ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا .

ٹرمپ کے انتخاب پر لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیسا ’’روشن خیالوں‘‘ کا امام امریکہ ہے جو ساری دنیاکو تو نام نہاد روشن خیالی ڈکٹیٹ کرتا ہے لیکن آج تک اسے کسی عورت کو امریکہ کا سربراہ بنانا گوارا نہیں ہوا…. جمہوریت کو دنیا کا سب سے بہتر نما ئندہ نظام قرار دینے والوں سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسا نظام جمہوریت ہے کہ جس میں ہلیری کلنٹن ایک دو نہیں‘ پورے 20 لاکھ ووٹ زیادہ لے کر بھی ہار جاتی ہیں‘ یہ کیسا مہذب ملکوں کا سربراہ امریکہ ہے جہاں کالوں اور مسلمانوں کے خلاف گورے متحد ہوکر میدان میں آجاتے ہیں اور ایک نسل پرست کو آگے لے آتے ہیں‘ ایسے میں امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اﷲ نے اگر یہ کہا کہ ٹرمپ امریکہ پر ایک عذاب الہٰی بن کر مسلط ہوا ہے تو یہ بات کسی طرح بھی غلط محسوس نہیں ہوتی بلکہ تمام تر شواہد و حقائق ان کی اس بات کی تصدیق کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہی دیکھ لیں کہ ٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی پورے امریکہ میں اس کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہوگئے۔ امریکی تاریخ میں کسی منتخب صدر کے خلاف اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اس قدر پر تشدد مظاہروں کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کی 50 ریاستیں ہیں اور تقریبا 50 کی 50 ہی ریاستوں اور مقامات پر ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہروں کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پولیس نے ان مظاہروں کو بلوہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ پولیس نے اہم شاہراہوں پر سول نافرمانی کا قانون نافذ کردیا۔ پولیس کو مشتعل مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج ‘ ربڑ کی گولیاں‘ آنسو گیس اور مرچوں کا سپرے تک استعمال کرنا پڑا۔

انہی مظاہروں کے دوران ایک اہم خبر یہ بھی سامنے آئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی ریاست کیلیفورنیا کی علیحدگی کی مہم کیل ایگزٹ بھی زور پکڑ گئی ہے اور وہاں لوگ بڑی تعداد میں امریکہ سے علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اس ریاست کے 60 فیصد شہریوں نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا۔ مہم کی ویب سائٹ کے مطابق کیلیفورنیا کی معیشت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے۔ وہ معاشی طور پر فرانس سے زیادہ طاقتور اور آبادی کے لحاظ سے پولینڈ سے زیادہ بڑی ریاست ہے۔ کینیڈا کے سوشل میڈیا پرکینیڈا والوں نے امریکہ کی 14 جنوبی ریاستوں کو اپنا حصہ بنانے کی پیشکش بھی کردی ہے۔ ان ریاستوں کے عوام نے بڑی تعداد میں ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیئے تھے لیکن ان کی بدقسمتی کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے۔ چنانچہ اب کینیڈا میں یہ مہم زور پکڑ گئی ہے کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمرانی سے نجات دلانے کے لئے کینیڈا کے ساتھ ملا لینا چاہئے۔ کینیڈا کے لوگوں نے جن ریاستوں کو اپنے ساتھ ملنے کی دعوت دی ہے‘ ان میں کیلیفورنیا‘ واشنگٹن‘ اوریگن اور نیواڈا سرفہرست ہیں۔ کینیڈا کے سوشل میڈیا پر نئے نقشے بھی گردش کر رہے ہیں جن میں امریکہ کی جنوبی ریاستوں کو کینیڈا کا حصہ دکھایا گیاہے۔

قارئین کرام! امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں ویسے کوئی نئی بات نہیں۔ یہ عمل تو اوباما کے دور صدارت سے ہی شروع ہوگیا تھا اور امریکہ کی 50 کی 50 ریاستیں ہی علیحدگی کی درخواستیں جمع کراچکی ہیں۔ یہ یاد رہے کہ امریکی آئین کی رو سے علیحدگی کی پٹیشن کے لئے 25 ہزار دستخط ضروری ہیں۔اور اکثر ریاستیں یہ ہدف کئی گنا حد تک پورا کر چکی ہیں۔ امریکی پرچم میں 50 ستارے ہیں اور یہ امریکہ کی 50 ریاستوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح گویایہ سارے ستارے ہی شہاب ثاقب کی طرح بکھرنے کے لئے پہلے سے تیار ہیں۔ انہیں بس اپنی علیحدگی کی تحریکوں کو تیز کرنے کے لئے کسی ٹرمپ جیسے کیٹالسٹ (Catalyst) کی ضرورت تھی‘ سوٹرمپ جیسا کھلا عیاش وفحاش‘ بکنی پہنی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران سرعام ناقابل بیان فحش حرکتیں کرنے والا‘ چکلے (Pub) کا مالک ‘نسل پرست‘ کالوں اور مسلمانوں کا دشمن اور ہر طرح کی کرپشن میں مانا ہوا بدنامِ زمانہ شخص اب ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے حاضر خدمت ہوگیا ہے۔

امریکی دانشور کرک پیٹرک نے اپنی کتاب میں ان امریکی جماعتوں اور گروپس کے نام شائع کئے ہیں جو اپنی اپنی ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان تمام جماعتوں اور گروپس کی اپنی ویب سائٹس بھی ہیں او ریہ اپنے اخبارات‘ رسائل او رٹی وی چینل بھی چلاتی ہیں۔ان میں سب سے بڑا گروپ امریکی سیسیشن (Secession) پروجیکٹ ہے جو آزاد الاسکا اور آزاد کیلیفورنیا کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسرا گروپ مڈل بری انسٹیٹیوٹ ہے جو 2004 میں نیویارک میں قائم ہوا اور ا س کامطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی 50 ریاستوں کو الگ الگ خودمختار ریاست تسلیم کرے اور انہیں رکنیت دے۔ گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام ریاستوں کی علیحدگی کا آئینی حق تسلیم کیاجائے۔
٭…. الابامالیگ آف دی ساؤتھ‘ ریاست الا باما کی امریکہ سے علیحدگی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔
٭….الاسکا انڈیپنڈنس پارٹی ریاست الاسکا کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔
٭…. کیلیفورنیا کی آزادی کے لئے دو جماعتیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت کیلیفورنیا ریپبلک ہے اور اس پر حکومت نے پابندی لگادی تھی۔ دوسری تنظیم کا نام کیلیفورینز فار انڈیپنڈنس ہے۔
٭….کساوڈیا کی آزادی کے لئے کام کرنے والے گروپ کا نام کساوڈیا انڈیپنڈنس پروجیکٹ ہے۔ یہ تین ریاستوں واشنگٹن‘ اوریگان اور برٹش کولمبیا کی آزادی کے لئے کام کر رہا ہے۔
٭…. جارجیا کی آزادی کے لئے تین گروپ کام کر رہے ہیں‘ ان میں جارجیا لیگ آف دی سا?تھ ‘ سدرن پارٹی آف جارجیا اور اور ڈکسی براڈکاسٹنگ شامل ہیں۔
٭…. ریاست ہوائی کی آزادی کے لئے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں۔ ان میں فری ہوائی‘ ہوائی کنگ ڈم‘ ہوائی نیشن‘ Ka Lahui Hawai اور انسٹیٹیوٹ آف ہوائین افیرز شامل ہیں۔
٭…. لوزیانہ کی آزادی کے لئے کام کرنے والی تنظیم کا نام لوزیانہ لیگ آف دی سا?تھ ہے۔
ریاست مین Maine کی آزادی کے لئے دو تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ان میں فری مین اور سیکنڈ مین ملیشیا شامل ہیں۔ 2009ء میں امور خارجہ کے ماہر ایک روسی سکالر آئی گورپینارن نے یہ پیش گوئی کی کہ امریکہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ اس نئے عالمی منظر نامے کے بعد روس اور چین دنیا کے نئے لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔ روسی وزارت دفاع کے خارجی معاملات کے لئے قائم ڈپلومیٹک اکیڈمی کے ڈین ’’آئی گور‘‘ کے مطابق امریکہ کے حالات یکدم بہت خراب ہونا شروع ہوجائیں گے اور خانہ جنگی کی نوبت آجائے گی۔

قارئین کرام! یہ ساری ریاستیں امریکہ سے علیحدگی کے لئے کیوں سرگرم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا معاشی بحران ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عراق ‘ افغانستان اور دنیا کے دوسرے کئی ممالک میں امریکہ کی براہ راست فوجی مداخلت سے کھربوں ڈالر کے اخراجات ان سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اگر وہ امریکہ سے الگ ہوجائیں تو انہیں کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑے گا اور ان کے معاشی بحران کے سبب امریکہ میں علیحدگی اور بے چینی ہے‘ ٹرمپ کو تھوڑا موقع ملا اور اس معاشی بحران کے حل کے لئے وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق مسلمانوں‘ ہسپانویوں اور تمام تارکین وطن کو امریکہ سے نکالنے کاکام شروع کرتے ہیں تو اس سے امریکہ کا معاشی بحران تو ختم نہ ہوگا لیکن امریکہ اندرونی طور پر زبردست خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ امریکہ نے عراق و افغانستان اور دیگر مسلم ممالک میں 20 لاکھ سے زائد مسلمانوں کا خون بہایا ہے‘ وہ خون بالآخر اسی طرح اپنا حساب لے گا۔ قدرت شاید ٹرمپ جیسوں کو اسی لئے اقتدار میں لے آئی ہے کہ اس ظالم قوم کو ان کے اپنے ہاتھوں سے ہی تباہ کرنا مقصود ہے۔ ایسے میں ٹرمپ جیسے امریکہ کے دوستوں کے ہوتے ہوئے امریکہ کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے‘ دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اور بقول اقبال
یہ تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
Qazi Kashif Niaz
About the Author: Qazi Kashif Niaz Read More Articles by Qazi Kashif Niaz: 2 Articles with 1390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.