مارشل لاء جیسے پرانے اقدامات کی نئی بحث

ملک میں ٢٢اگست ٢٠١٠ سے ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے یہ بحث فوج کو ایک بار پھر دعوت حکمرانی دینے اور مارشل لاء جیسے اقدامات کرنے کی سفارش کرنے پر شروع ہوئی ہے۔ ملک میں جب بھی فوج نے سرحدوں سے اقتدار کی طرف قدم بڑھایا اور مارشل لاء یا ایمرجنسی لگا کر جمہوریت اور جمہوری قوتوں کا بستر گول کیا تو اس کے پیچھے کوئی اور نہیں ملک کی جمہوریت کی دعودیدار سیاسی جماعتوں یا سیاسی شخصیات کا ہی ہاتھ رہا ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کی مرحومہ چیئر پرسن نے میاں نواز شریف سے اقتدار چھیننے کے لئے فوج کو ان الفاظ کے ساتھ دعوت دی کہ آخر فوج کب اپنا کردار ادا کرے گی، کیا جب شیر سارا آٹا کھا جائے گا تب فوج آگے آئے گی پھر کچھ دن بعد پرویز مشرف آگے آئے اور فوج کے جرنیل کی حیثیت سے جو اقتدار کا سفر انہوں نے سفر اکتوبر ١٩٩٩میں شروع کیا تھا وہ بڑی مشکل سے ٢٠٠٧میں ختم کیا ان کے اقتدار کے خاتمے کے لیئے بے نظیر اور میاں نواز شریف نے دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ ملکر چارٹر آف ڈیموکریسی تیار کیا اور اس پر دستخط کیئے اس سی او ڈی میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ آئندہ کوئی بھی جماعت فوج کی جانب سے کیے جانے والے غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کرے گی اور فوج ہمیشہ سرحدوں تک محدود رکھا جائے گا۔ اس معاہدے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں نے تو دستخط کیے تھے لیکن جنہوں نے اس چارٹر پر سائن نہیں کیے ان میں ایم کیو ایم یعنی متحدہ قومی مومنٹ بھی شامل تھی، شائد یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اس بار جمہوریت کے خلاف مارشل لاء جیسی کاروائی کے لئے محب وطن جرنیلوں کو دعوت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس ہی نہیں کی۔۔

ماضی میں فوج کو اقتدار سنبھالنے اور ملک بچانے کی دعوت جن حالات کی وجہ سے دی جاتی رہی تقریباً وہ ہی یا اس سے کچھ زیادہ خراب حالات کا آج کل بھی قوم کو سامنا ہے، اس بار قدرتی آفت سیلاب کی وجہ سے بھی قوم بہت ہی زیادہ پریشان ہوگئی ہے اور یہ پریشانی اس لیے بڑھ گئی ہے کہ عوام حکمرانوں کو اس صورتحال میں بھی اپنے سے بہت دور دیکھ رہے ہیں بے حسی نئی نئی مثالیں اس جمہوری دور میں دیکھنے میں آرہی ہیں۔

اس بار الطاف حسین کی جانب سے فوج کی طرف دیکھنے یا محب وطن جرنیلوں کو مارشل لاء جیسی کاروائی کرنے کی دعوت پر سیاسی ایوانوں میں کتنی ہی ہلچل مچی ہے اور خود ایم کیو ایم کے رہنماء اپنے قائد کے بیانات پر کیسی ہی وضاحتیں پیش کریں عام عوام کو کم از کم جمہوریت کے موجودہ نظام سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی اور خود پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ بھی اب ذہنی طور پر اپنی جماعت کو خداحافظ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔ سندھ کارڈ جس کو استعمال کر کے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی وہ کارڈ سیلاب میں گیلا ہوکر شائد بہہ چکا ہے اور نہیں تو اس کے چیتھڑے بن گئے ہیں۔

نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لوگوں اور پیپلز پارٹی کے با اثر حلقوں میں فوج کی طرف دیکھنے پر بہت تشویش ہے لیکن جس طرح موجودہ حکومت چل رہی ہے جس طرح اس حکومت کے ارکان وزرا اور مشیران نے جو گند مچا رکھی ہے اس سے چھٹکارہ بھی تو عام لوگوں کی نظر میں ضروری ہوگیا ہے۔ اگر قوم جمہوریت کے کانٹے دار سائے کو برداشت کرتے رہے تو آئندہ مزید تین سال تک تو ملک ان کانٹوں کے زخموں سے چور چور ہوجائے گا تو کیا ایسی صورت میں کوئی جمہوری قوت اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟؟

میں کسی طور پر بھی جمہوریت کے خاتمے کی حمایت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ ہی مجھے آمرانہ دور جمہوریت کے بدلے میں پسند ہے لیکن ایسا دور بھی پسند نہیں جو جمہوریت کے لبادے میں آمرانہ ہو۔ آج بظاہر تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن صوبوں اور وفاق میں خالصتاً ڈکٹیٹر شپ ہے، سب جانتے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ آصف زرداری یا ان کے چند دوستوں کی مرضی کے بغیر ایک کاغذ ادھر سے ادھر نہیں ہوسکتا چاہے وزیر اّعظم کا حکم ہو یا کیسی وزیراعلٰی کا۔ قوم کو یقیناً ایسی جمہوریت سے کوئی سروکار نہیں اور ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو عوام کے مفادات کا خیال رکھنے کے علاوہ سب کچھ کررہی ہے۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152889 views I'm Journalist. .. View More