ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور ہندو سوچ
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
ہندوستان کو اپنے قیام کے وقت سے ہی
بہت سی آزادی کی تحریکوں سے واسطہ پڑاتا رہا ہے۔جن کی وجہ سے ہندوستان
ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔آزادی کے تیسرے عشرے کے بعد سے تو ہندوستان
ہر معاملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہونے کے الزامات لگانے میں پل بھر کی
بھی دیر نہیں کرتا ہے۔ان تحریکوں میں سکھوں کی خالصتان تحریک جو ہندوستان
کے (مشرقی پنجاب)پنجاب کی سب سے مضبوط تحریک کے طور شروع سے ہی جڑپکڑرہی
ہے۔سُنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والہ کا تعلق ایک سکھ مذہبی تنظیم’’دمدامی
ٹکسال‘‘نامی تحریک سے تھا۔جس نے 1970 کے بعد ہندوستانی پنجاب میں اپنی
تحریک کا آغاز کردیا تھا۔1980کی دہائی میں بھنڈراں والہ سکھ یوتھ میں بے حد
مقبول ہوچکے تھے۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈارں والہ در حقیقت ہندوستان کے پنجاب
میں سکھوں کی ایک مذہبی ریاست خالصتان کے قیام کی غرض سے سر گرمی کے ساتھ
خالصتان کی تحریکِ آزادی بڑی کامیاب چلا رہے تھے۔جس نے ہندوستان کے ایوانوں
میں ایک تہلکہ مچا دیا تھااور لگتا تھا کہ خالصہ تحریک کامیابی حاصل کرنے
کو ہی تھی کہ بھنڈراں والہ شہیدکو کر دیا گیا ۔
24 ،اپریل 1980کو ایک سکھ رہنما نر نکاری بابا نے خود کوقتل کر لیا تو اس
اس قتل کے الزام میں بھنڈراں والہ اور ان کے بیسیوں ماننے والوں کو گرفتار
کر لیا گیا۔مگر شواہد کے نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی حکومت کو انہیں
باعزت رہا کرنا پڑ گیا۔ اس کے باوجودبھی جرنیل سنگھ پولیس کی سخت نگرانی
میں رہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستانی حکومت 1947میں سکھوں سے کئے گئے وعدے
بھلا چکی تھی ،کہ جس میں پنجابی کو ہندوستان کی زبان تسلیم کرنیاور سکھوں
کو حق خود اختیاری دینے کا وعدہ بھی شامل تھا۔جس کی وجہ سے سکھوں کا احساسِ
محرومی بڑھا اور سکھ نوجوانوں میں ہندوستان سے مکتی کی تحریک نے جنم لے لیا۔
1954میں سکھ رہمنا ماسٹر تارا سنگھ نے جب پنڈت جوہر لال نہرو کوسکھوں سے
کئے گئے وعدے یاد دلائے تو نہر نے جواباََ کہا کہ ’’اب حالات تبدیل ہو چکے
ہیں‘‘یوں کانگرسی لیڈر شپ نے آزادی کے وقت سکھوں کو دھوکے میں رکھ کر اپنا
مقصد تو حاصل کر لیا مگر سکھوں کا احساسِ محرومی کم نہ کیا۔جب نہرو اپنے
کئے گئے وعدوں سے پھر گئے تو سکھوں کے اندر ایک بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
اور سکھوں نے خالصتان کی آزادی کی تحریک شروع کرنے کا مصمم پروگرام بنا
لیا۔اندرا گاندھی نے 1980 میں ہندووں اور سکھوں کو لڑا کر اپنا ہندو ووٹ
بینک مضبوط کرنے کی غرض سے سکھوں کی خالصتان تحریک کے خلاف نرنکاری تحریک
کا آغاز کرا دیا اس کے ساتھ ہی دربار سنگھ کی پنجاب حکومت نے سکھوں کے خلاف
پولیس تشدد شروع کردیا تو سکھوں نے پولیس کے لوگوں کو چن چن کر قتل کرنا
شروع کردیا۔جس سے مشرقی پنجاب کے تما م سکھ گروپ میں متحد ہو گئے مگر اندرا
گاندھی نے مستعفی ہونے والے سکھوں سے ساز باز کر لی تاکہ جرنیل سنگھ
بھنڈران والہ کو دھر م یدھ(مذہبی جنگ)سے الگ کردیاجائے انہیں ان کی چھوڑی
ہوئی وزارتوں اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت بحال کرنے پر حکومت تیار ہے ۔اس طرح
پنجاب کے بعض نا عاقبت اندیش حکومت کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوگئے۔اس کے
بعد اندرا گاندھی حکومت نے ۔
9ستمبر کو پروہندوصحافی جگت نرائن کو قتل کر دیا گیا ۔تو پولیس نے بھنڈراں
والہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئے۔جس کے نتیجے میں 20،ستمبر1981 کو
بھنڈراں والہ نے پولیس کے سامنے اپنے آپ کو اُس وقت پیش کر دیا جب گردوارا
گرو درشن پرکاش میں کاروائی جاری تھی۔مگر سکھ نوجونوں کی تحریک کے پیشِ نظر
15،اکتوبرکو ایک ہیرو کے طور پر بھنڈراں والہ کو فیروز پور جیل سے رہا کر
دیا گیا۔ اسی دوران لونگووال نے جولائی 1982میں انہیں گولڈن ٹیمپل کے
کمپاؤں میں قیام کی اجازت دیدی ۔اس وقت جرنیل سنگھ بھنڈراں والہ کے ساتھ
ایک بڑا سکھ مسلح گروپ گولڈن ٹیمپل کے مہمان خانوں میں موجود تھا۔جن کی
تعداد اور اسلحہ میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔15دسمبر
1983کوبھنڈراں والہ اور ان کے ساتھیوں نے اکال تخت کی جانب بڑھنا شروع
کردیا تو اس طرح گولڈن ٹیمپل ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کر رہا تھا۔جہاں
پتہ بھی جرنیل سنگھ کی مرضی کے بغیر نہیں گر رہا تھا۔کہ سکھوں کا قتل عام
کرانے کی غرض سے ہندوستان کی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی نے آپریشن ’’بلیو
اسٹار‘‘3 جون 1984کوشروع کر کے ہندوستانی فوجیوں کو گولڈ ٹیمپل کوروندنے
اور سکھوں کے خون سے لہو رنگ کا موقع فراہم کر دیا دیا۔اس معرکے میں ہزاروں
سکھ نوجوانوں کے ساتھ جرنیل سنگھ بھنڈراں والہ کو بھی شہید کر کے سکھ تحریک
کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ مگر سکھوں کی آزادی کی یہ تحریک آج
بھیچنگاریکی طرح سُلگ رہی ہے۔جو دنیا میں ہندو راج کے خلاف زندہ ہے اور
خالصہ آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہے۔جس میں سب سے بڑادخل ہندو توا کی سوچ
کا ہے۔
ہندوستانی پنجاب میں مسلح حملہ آوروں نے کی پٹیالہ جیل میں خالصا تحر یک کے
سربراہ سنت ہرمندر سنگھ منٹو کو ان کے چار ساتھیوں سمیت جیل پر دس مسلح
افراد نے چاقووں سے حملہ کر کے آزاد کراکے اپنے ساتھ لے گئے۔توہندوستانی
حکام نے ہر مندر سنگھ منٹو جو سکھوں کی آزای تحریک کی ’’تنظیم خالصتان
لبریشن فورس‘‘کے سربرا ہ بتایا گیا ہے۔ہندوستانی حکام کے مطابق حملہ آوروں
نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں جو کاروں میں سوار ہو کر نابھا جیل کے
مرکزی دروازے پر(مین گیٹ) پر متعین محافظوں کو چاقووں سے شدید زخمی کر کے
جیل میں داخل ہوگئے جہاں ان لوگوں نے اندر موجود پولیس گارڈ کو فارنگ کے
بعد یر غمال بنا کر اپنے ساتھیوں کو شدید مقابلے کے بعد کامیابی سے رہا
کرالیا۔ہریانہ،ہماچل پردیش، اتُر کھنڈنئی دہلی اُتر پردیش اور مقبوضہ کشمیر
جہاں ہندوستان مسلسل نہتے کشمیریوں کی لاشیں گرا رہا ہے میں ہائی الرٹ جاری
کر دیا گیاہے۔ پنجاب کے پولیس ڈائریکٹر مسٹر ای ایس ڈہلون نے کہا ہے کہ
حملہ آوروں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس حملے کے حوالے سے پنجاب میں جیلوں کے
سربراہ اور جیل سپرٹینڈینٹ سمیت چار افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔پولیس کا
کہنا ہے کہ ہر مندر سنگھ پاکستان کی جانب فرار ہوسکتے ہیں۔
ہندوستان میں ہونے والا ہر معاملہ پاکستان پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ہندوستانی
پنجاب کے نائب وزیرِ اعلیٰ سگھبیر سنگھ بادل نے ا س کاروائی کا الزام
پاکستان پر لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ہے اوریہ بھی ہرزہ سرائی کی ہے
کہ لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی فوج کی جانب سے سرجیکل اسٹرائک کے بعد
پاکستان نے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔مگر یہ
بھی عجیب باٹ ہے کہ دو دن کے بعد ہی سنت ہر مندر سنگھ منٹو کو انکی ٹیلیفون
ٹریس کر کے دوبار ہ ہندوستان سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔مگر پاکستان کے
خلاف پروپیگنڈے کا ایک گھناؤنا بابہندو میڈیا پر کھولدیا گیا ہے |
|