الگ صوبہ؟

 سیاست اور میڈیا میں خود کو نمایاں رکھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، کیسے کیسے بیان دینے پڑتے ہیں؟ سیاستدان اپوزیشن میں ہوں تو اُن کے اور بیان ہوتے ہیں، حکومت میں چلے جائیں تو بیان اور ہو جاتے ہیں، پوزیشن بدلنے سے موقف بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔موقف کی اس تبدیلی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاستدان کسی ایک پوزیشن پر تو ضرور جھوٹ کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہوئے جو کام وہ خود نہیں کر سکتے، اپوزیشن میں آکر دوسری حکومت سے اسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ’’ موجودہ حکمران الگ صوبہ نہیں بنانا چاہتے، ہم اقتدار میں آئے تو سرائیکی صوبہ بنائیں گے․․․‘‘۔ وہ کسی تعزیت کے لئے جتوئی گئے ہوئے تھے، اپنا میڈیا تعزیت میں سے بھی خبر نکالنے کے چکر میں ہوتا ہے، یوں تعزیت بھی ایک رسمی کاروائی ہوتی ہے اور ساتھ ہی میڈیا سے بات چیت کی رسم بھی پوری ہو جاتی ہے۔ سیاستدان بھی جانتے ہیں کہ باتوں میں ایسی بات بھی کرنی ہے جو بیان کی لیڈ بن سکے۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے بہت سے ممالک سے بھی بڑا ہے۔ اس کو انتظامی لحاظ سے صوبوں میں تقسیم کرنا ایک اصولی سی بات ہے، بہت سی سیاسی جماعتوں یا چھوٹی بڑی تنظیموں نے بھی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، حتیٰ کہ پی پی جیسی سیاسی جماعت نے اپنی تنظیم سازی میں پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پنجاب کو انتظامی لحاظ سے کم از کم دو صوبوں میں تو ضرور تقسیم کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں سرائیکی علاقے میں کسی حد تک الگ صوبوں کی تحریک بھی موجود ہے۔ ایک مطالبہ صوبہ بہاولپور کی بحالی کا ہے، تو دوسری طرف سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔حکومت مسلم لیگ ن کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، انہوں نے اِ ن صوبوں کے لئے وعدے تو کئے، مگر جب انہیں اختیار ملا، وہ معاملے کو گول کر گئے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں مسلم لیگ ن نے حیرت انگیز طور پر قرار داد منظور کر لی، جس میں کہا گیا تھا کہ بہاول پور کو صوبہ کے طور پر بحال کیا جائے اور ملتان کے علاقہ میں الگ سے صوبہ تشکیل دے دیا جائے۔ قانونی طور پر اس قرار داد کی روشنی میں وفاقی حکومت نے اس کے لئے ایک بورڈ تشکیل دینا تھا، جو اِس قرار داد کی روشنی میں فیصلہ کرتااور معاملہ کو آگے بڑھاتا، وفاقی حکومت نے بظاہر آئینی تقاضا نبھاتے ہوئے بورڈ قائم کردیا، مگر بدقسمتی سے کسی بھی فریق نے اس بورڈ کو تسلیم نہ کیا، کیونکہ اس میں ممبران کا تناسب متنازع تھا، ان علاقوں سے بھی ارکان نہیں لئے گئے تھے، وفاقی حکومت کے اپنے لوگ زیادہ تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر ممبران نے اجلاس میں شرکت مناسب نہ جانی ، یوں یہ معاملہ اقتدار کے ایوانوں کی راہداریوں میں ہی دیواروں سے سرٹکراتا اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

گیلانی سرکار کا کہنا ہے کہ اُس وقت ہمیں آئینی ترمیم کی مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی، حالانکہ اس وقت معاملہ پنجاب اسمبلی کی قرار داد کے ذریعے وفاقی حکومت کے پاس آیا تھا، اگر اُن کی نیت صا ف ہوتی تو وہ بورڈ تشکیل دیتے وقت تمام متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرتے اور اسے سب کے لئے قابلِ قبول بناتے ، ایسے میں کسی دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ اندازہ یہی تھا کہ جس طرح پنجاب اسمبلی سے متفقہ قرار داد منظور ہو گئی ہے، اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی معاملہ متفقہ طور پر ہی حل ہو جاتا، مگر ایسا نہ کیا گیا۔اب جبکہ پی پی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے ، اس صورت میں وہ دعوے کر رہے ہیں، تاکہ لوگ ان کے ساتھ لگے رہیں۔ مسلم لیگ ن کی اس وقت صوبہ اور وفاق میں حکومت موجود ہے، یہ دونوں پارٹیاں جانتی ہیں کہ وہ اوپر اوپر سے ہی صوبے کے نعرے لگاتے ہیں، اندر سے کسی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اگر دونوں اس کام کے لئے مخلص ہیں تو پھر دیر کس بات کی، حکومت قدم اٹھائے، اپوزیشن ساتھ کھڑی ہوگی، الگ صوبہ قائم ہو جائے گا۔مگر یہ دونوں بڑی پارٹیاں یہ کام کبھی نہیں کریں گی، اگر مسلم لیگ ن الگ صوبہ کی حامی ہے تو پھر دیر کس کی، انتظار کیسا؟ حقیقت یہی ہے کہ الگ صوبے کے قیام یا بحالی کو یہ لوگ صر ف نعروں کی حد تک ہی استعمال کرتے ہیں، اگر اب بھی ن لیگ والے یہی کہیں کہ ہم پنجاب میں الگ صوبہ بنائیں گے تو آخر کب؟ پی پی بھی عملی طور پر اس کی مخالف ہے، کیونکہ سندھ میں وہ کراچی کو الگ صوبہ نہیں دیکھنا چاہتی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427825 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.