پاک سرزمین پارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ؟

گزشتہ 8 ماہ سے کراچی کی سیاست میں جو جوش وخروش اور مقابلے بازی کی فضا دکھائی دے رہی ہے اورمصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کی سرگرمیاں جس تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں ان سے مستقبل میں کراچی کی سیاست میں رونماہونے والی بڑی تبدیلوں کا انداز ہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس سے پہلے کے مصطفی کمال کی نومولود سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے پاکستانی سیاست اور باالخصوص کراچی کی سیاست میں مستقبل کے حوالے سے کوئی بات کی جائے مناسب ہوگا کہ کچھ باتیں ایم کیوایم یعنی متحدہ قومی مومنٹ اور سید مصطفی کمال کے بارے میں بھی کرلی جائیں کہ اس طرح متحدہ اور پاک سرزمین پارٹی میں جو نمایاں فرق نظر آتا ہے وہ مزید واضح ہوکر سامنے آجائے گا جس کے بعد قارئین ،عوام اورتجزیہ کار بہتر انداز میں پاک سرزمین پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرسکیں گے۔

۳مارچ کو پاکستان واپس آکرمتحدہ قائد کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردینے والی شخصیت مصطفی کمال سے کون واقت نہیں کہ جب لوگوں نے پرویز مشرف کے زمانے میں کراچی کے منتخب ناظم کی حیثیت سے مصطفی کمال کو کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے دیکھا تو متحدہ کے مخالف بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ مصطفی کمال نے کراچی جیسے بڑے شہر کے مئیر کے طور پرہر طرح کے لسانی ،قومی اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہوکرکراچی کے تقریباً تمام علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ٹریفک کی روانی کے لیئے جو دوررس عملی اقدامات کیئے اور جس طرح نہایت تیزی کے ساتھ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کو نئے سرے سے بنانے کا بیڑہ اٹھایا اورپھر کراچی میں فلائی اوور ز کاجو جال بچھایا اس نے ان کو کراچی میں بسنے والے ہر باشندے کا ہیرو بنادیا ۔

سید مصطفی کمال 27دسمبر1971 کو کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ،نارتھ کراچی میں ان کی ابتدائی زندگی گزری ،1987 کے بلدیاتی انتخابات سے انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جبکہ 1988 میں وہ باقاعدہ ایم کیوایم کے کارکن بنے ۔2002 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت ملی. 2005میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی اور مصطفی کمال کو کراچی کے ناظم کے طور پر نامزد کیا گیا انہوں نے کراچی کا مئیر بنتے ہی شہر کراچی کا ماسٹر پلان ترتیب دیااور ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا۔۱ور کراچی کی تعمیر وترقی کے لیئے بہت سے قابل ذکرو قابل تعریف منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جن کی وجہ سے انہیں ملک گیر سطح پر شہرت اور عزت حاصل ہوئی بلکہ ان کی کراچی کے ناظم کے طور پر شاندار کارکردگی کی وجہ سے ان کا نام دنیا کے بہترین مئیرز کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ۔2008 کے انتخابات میں مصطفی کمال کی کارکردگی ایم کیو ایم کی انتخابی مہم کا ایک اہم نعرہ بن کر سامنے آئی اور مصطفی کمال ایک ایسی پارٹی کا سافٹ امیج بن کر ابھرے جو سیاست میں تشدد اور جرائم میں ملوث ہونے کی زد میں رہی ہے۔2013 میں مصطفی کمال اچانک بیرون ملک چلے گئے ان کے جانے کے بعد ایم کیو ایم اور ان کے درمیان اختلافات کے حوالے سے باتیں ہونے لگیں لیکن ان کی جانب سے مکمل خاموشی رہی جس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتوں میں ان کی شمولیت کے حوالے سے افواہیں بھی گردش کرتی رہیں لیکن 3 مارچ2016 کو وہ 3 سال بعد کراچی میں اچانک منظر عام پر آئے اور ایک دھواں دار پریس کانفرنس کرکے نہ صرف ایم کیو ایم متحدہ سے تعلق ختم کرنے کا اعلان کیا بلکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی عائد کیئے اورپھر چند ہفتوں بعد انہوں نے نہ صرف ایک نئی سیاسی جماعت ’’پاک سر زمین پارٹی ‘‘قائم کرنے کا اعلان کرڈالابلکہ کراچی میں پاکستان ہاؤس کے نام سے اپنا آفس کھول کر زور وشور کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بھی کردیاجن کا دائرہ اب کراچی، حیدرآباد ،میرپور خاص سے نکل کر ملک گیر سطح تک وسیع ہوچکا ہے اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں نے پاکستان کے بہت سے شہروں کا نہ صرف کامیاب دورہ کیا بلکہ وہاں بھی اپنی پارٹی کے دفاتر قائم کرکے بہت سے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔کراچی ،حیدرآباد اورمیرپور خاص کے بعد پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی مصطفی کمال اور ان کی پاک سرزمین پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا جس طرح استقبال کیا گیا اورعوامی سطح پر انہیں جو پذیرائی حاصل ہوئی وہ بہت سوں کی توقعات کے برخلاف تھی ۔

ایک طرف مصطفی کمال ہیں جنہوں نے واپس آکر جو باتیں کی ہیں انہیں جھٹلانا اتنا آسان نہیں کہ مصطفی کمال متحدہ کے ایک تعلیم یافتہ ،متحرک ،قابل اور نیک نام لیڈر رہے ہیں جنہوں نے ماضی میں کراچی کے مئیر کے طور پر جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس کا اعتراف پورا کراچی کرتا ہے اب اگر مصطفی کمال کوئی بات کرتے ہیں تو اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے بیانات کی تصدیق ان کی قائم کردہ نئی سیاسی پارٹی میں آنے والے متحدہ کے مزید باغی ارکان کئی بار کرچکے ہیں۔

دوسری طرف ایم کیو ایم یعنی متحدہ قومی مومنٹ کے 30 سال سے زائد عرصہ پر محیط طرز سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ متحدہ نے اپنی سیاست کا آغاز کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے جیسے نعروں اور وعدوں سے کیا تھااور بنیادی طور پر اس کی سیاست کا محور ومرکز شروع سے ہی کراچی اور حیدرآباد میں بسنے والے اردواسپیکنگ یا مہاجر کمیونٹی ہی تھی اور اس نے اپنی سیاست کا ایک طویل عرصہ مہاجر ازم کے کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے بسر کیا ہے البتہ چند سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اسے اپنی جماعت کا نام ایم کیو ایم سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھنا پڑا اور اس نے کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دکھاوے کے لیئے ہی صحیح اپنی پارٹی کے دفاتر قائم کرکے ملک گیر سیاسی پارٹی ہونے کا تاثر دینے کی اپنی سی کوشش ضرور کی لیکن افسوس اسے کراچی اور حیدر آباد کے علاوہ پاکستان کے کسی بڑے شہریا گاؤں میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ایم کیو ایم نے اپنے ابتدائی دور میں کراچی میں بسنے والے دیگر قومیتوں کے لوگوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا تھا اس کے بعد پنجابی ،سندھی ،بلوچی اور پختون قومیتوں کے اکثرلوگ متحدہ کے نام نہاد وعدوں اور دعووں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے اور پھروقت نے بھی یہ بات ثابت کی کہ متحدہ قومی موومنٹ کی بھرپور کوششوں کے باوجود اسے پنجاب ،اندرون سندھ،بلوچستان اور کے پی کے میں پذیرائی اور کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور اسے خود کو زندہ اور مقبول رکھنے کے لیئے انتخابات کے موقع پر ایک بار پھر مہاجرازم کا کارڈ استعمال کرنا پڑا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظراگر نیوٹرل ہو کر دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا متحدہ نے اپنے 30 سالہ دور سیاست میں اپنا کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا کیا یا وہ 30 سال کے دوران ہر آنے والی حکومت میں اقتدار اور وزارتیں حاصل کرنے کے باوجود کوٹہ سسٹم کے خاتمے یا بہاریوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے کی سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل کرپائی ؟حقائق بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی کامیا بی متحدہ حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی تو پھر تحریک کس بات کی اور منزل کیا ہے؟

یہی وہ نکتہ ہے جسے مصطفٰی کمال نے نہایت بے خوفی کے ساتھ کراچی میں واپس آنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کھل کربیان کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ طویل جدوجہد اور بیشتر وقت ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہنے کے باوجود ایم کیوایم نے اپنے چاہنے والوں ،ووٹرز اور کارکنوں کو کیا دیا؟ہڑتالیں ،جلاؤ گھیراؤ ،شور شرابے اور ڈراما بازیوں سے بھرپور سیاست کے لیئے تو اردو بولنے والوں نے ایم کیوایم کو ووٹ نہیں دیے تھے ؟لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر اندھی عقیدت اور لسانی تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو متحدہ کی 30 سالہ سیاست میں سے اگر مصطفی کمال کے5 سال نکال دیئے جائیں تو جو کچھ باقی بچتا ہے وہ بھتہ خوری ،بدامنی ،خوف و دہشت کا راج ،بوری بند لاشیں ،ٹارچر سیلز ،سیاسی مخالفوں کی ٹارگٹ کلنگ اورنت نئے سیاسی ڈرامے ہیں جن سے لوگ اس قدر تنگ آئے ہوئے ہیں کہ غیر تو غیر اب تو اردو بولنے والے کھلم کھلا یہ باتیں کرتیں ہوئے نظر آتے ہیں کہ اردو اسپیکنگ کمیونیٹی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدارجماعت نے اردو بولنے والوں کے لیئے کو ن سا ایسا قابل فخر کام کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا ساتھ دیتے رہیں۔؟ اردو بولنے والوں نے آپ کو 30 سال تک اپنا ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا آپ نے ان کے لیئے کیا کیا؟

افسوس سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اردوبولنے والوں کے ووٹ لے کر کامیابیاں سمیٹنے والوں نے اپنی پارٹی کو درست راستے پر چلانے کے بجائے غلط طرز سیاست کا انتخاب کیا اور انہوں نے نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم پکڑوانے کی بجائے ہتھیا رتھمادیے اور اردوبولنے والی کمیونیٹی جس کی عزت پورا پاکستان کرتا تھا اس کے نوجوانوں کو گمراہ کرکے بدمعاش ،غنڈہ ،قاتل ،دہشت گرداور بھتہ خور بنادیا۔
پہلے اردو بولنے والے پاکستان کے کسی بھی صوبے میں جاکر آباد ہوتے تھے تو ان کو عزت اور احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا لیکن سیاسی دہشت گردوں کی مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے اردو بولنے والوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ہر اردو بولنے والے کی طرح اس بات کا قلق مصطفی کمال کو بھی تھا جس کا اظہار انہوں نے متحدہ سے بغاوت کے بعد اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں کھل کر کیا ۔درحقیقت مصطفی کمال نے یہ سب باتیں کرکے اردو بولنے والی خاموش اکثریت کی ترجمانی کی ہے جو خوف ودہشت کی وجہ سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی رہی لیکن مصطفی کما ل نے نہایت بے خوفی اور بہادری کے ساتھ متحدہ کے قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں اور ان کی نجی زندگی کے حوالے سے دل کھول کر بہت سے پوشیدہ حقائق اردو بولنے والوں کے سامنے رکھے۔

آفاق احمد ،عامر خان اور عمران فاروق کے بعداب مصطفی کمال ،انیس قائم خانی،ڈاکٹر صغیر،وسیم آفتاب،رضا ہارون،افتخار عالم، انیس خان ایڈوکیٹ ۔افتخار رندھاوا اور دیگر نامور افراد کی متحدہ قائد سے کھلم کھلا بغاوت یہ بات ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کی شخصیت اور ان کے طرز سیاست میں کچھ تو ایسی متنازع بات ہے جس کی وجہ سے ان کے ساتھ 30 سال سے زائد عرصہ گزارنے والے لوگ ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑ کر مصطفی کمال کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں اور یہ سب یک زبان ہوکر الطاف حسین کی شخصی خامیوں اور پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں پر دل کھول کر روشنی ڈال رہے ہیں۔ کراچی کو دہشت گردوں کے چنگل سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش عمران خان نے بھی کی تھی اورانہیں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی لیکن اردو بولنے والوں کی اکثریت نے اردو بولنے والے لیڈروں کو ووٹ دینے کی روایت برقرار رکھی جس کے نتیجے میں عمران خان کو بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی کہ وہ اردو اسپیکنگ نہیں ہیں لیکن اب تو مصطفی کمال کی صورت میں لوگوں کو ایک اردو بولنے والا لیڈر مل گیا ہے جو صرف کراچی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی فلاح وبہبود اور ترقی کی باتیں کررہا ہے۔

مصطفی کمال کی پرکشش شخصیت اور ان کے دل سے نکلی ہوئی سچی باتوں نے لوگوں کے دلوں اور ضمیر کوجھنجھوڑنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے شاید اسی کا اثر ہے کہ کراچی کی خاموش اکثریت کو ہوش آ گیا ہے اور وہ جوق در جوق پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہورہے ہیں، مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی اصل طاقت یہی خاموش اکثریت ہے جو ایک طویل عرصہ سے دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی تھی اور بہت خاموشی کے ساتھ ظلم وستم ،بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ اوربہت کچھ برداشت کررہی تھی لیکن اسے جس مسیحا کا انتظار تھا وہ شاید اﷲ تعالیٰ نے مصطفی کمال کی صورت میں بھیج دیا ہے جس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد رکھ کر انہیں ایک ایسا فعال پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے جس سے وابستہ ہوکر وہ پوری آزادی کے ساتھ پاکستان اور کراچی کے حوالے سے اپنی شکایات اور مشکلات کا حل نکالنے کے لیئے جدوجہد کرکے وہ انقلاب لاسکتے ہیں جس کا کراچی والے بہت طویل عرصے سے انتظار کررہے ہیں۔

اچھوں کی اچھائی اور بروں کی برائی ایک دن ضرورسامنے آتی ہے جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔کراچی کے باشندوں کی اکثریت بہت عرصہ سے سیاسی فرعونوں کو غرق کرنے والے کسی مسیحا کی تلاش میں تھی جو ان کو خوف ودہشت اور بدامنی کی سیاست کے چنگل سے آزاد کروا کر ایک پرامن معاشرہ فراہم کرسکے جہاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اپنی مرضی کے مطابق ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں اور پھر لوگوں کی دعائیں رنگ لے آئیں اور کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال جیسے ہیرو نے آکر وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو کراچی میں رہنے والے تقریباً ہرمحب وطن دل کی آواز تھی ۔

کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی دھماکہ خیز انٹری نے خوف کا بت توڑتے ہوئے بڑوں بڑوں کے ہوش اڑادیئے ہیں اور آنے والا وقت پاکستان اور کراچی کی سیاست میں ان کے نام اور مقام کا تعین کردے گا لہذا ان کے حامیوں اور مخالفوں کو ذرا صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیئے کہ اب مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے کراچی کے مختلف علاقوں کا ہنگامی دورہ کرکے عوامی رابط مہم کا کامیاب آغاز کردیا ہے وہ جہاں بھی جارہے ہیں عام لوگ ان کا بڑی گرم جوشی سے خیرمقدم کررہے ہیں جس سے عوام میں پاک سرزمین پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کے قافلے میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اب تو اے پی ایم ایس او کے سینئر لوگ بھی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں جس کے بعد نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادنے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی ہے جبکہ 24 اپریل 2016 کو مصطفی کمال اور ان کے ساتھی اپنی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے زیر اہتمام کراچی میں ایک بڑا جلسہ عام بھی کرچکے ہیں جو کراچی کی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کرے گا اور اس بات کا تعین بھی کرے گا کہ سیاست میں مصطفی کمال اور ان کی پاک سرزمین پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا ؟کہ کراچی میں پرتشدد سیاست سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کو مصطفی کمال کی صورت میں ایک مسیحا ددکھائی د ے رہا ہے اورمجبوراورمایوس عوام نے مصطفی کمال سے بہت سی امیدیں وابسط کرلی ہیں،اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مصطفی کمال ان کی ا میدوں پر کس حد تک پورا اترتے ہیں؟

کراچی کی سیاست میں دھماکہ خیز انٹری سے لے کر آج تک مصطفی کمال مسلسل سیاسی پیش قدمی کی جانب تیزی سے گامزن ہیں اپنی سابقہ جماعت کے سربراہ پر سنگین نوعیت کے الزامات سے بھرپور تابڑ توڑ حملوں کے بعد انہوں نے ایک ایسا مطالبہ بھی کرڈالا جو شاید کروڑوں دلوں کی آواز رہی ہو لیکن یہ بات کرنے کی ہمت آج تک کسی کو نہ ہوئی۔مصطفی کمال نے چند ماہ قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ’’ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی جائے اور چونکہ متحدہ کے قائد کے بھارتی ایجنسی را کے ساتھ تعلقات اور فنڈنگ کے حوالے سے کافی ثبوت موجود ہیں لہذا ایم کیوایم پربھی پابندی عائدہونی چاہیئے‘‘۔ان کے اس چونکا دینے والے مطالبے کو وقت نے اس طرح قابل عمل بنا ڈالا کہ حالات نے ایسا رخ اختیار کرلیا کہ خود ایم کیوایم کے کراچی میں موجود ذمہ داروں نے نہ صرف ایم کیو ایم کے بانی وقائد کو اس کی بنائی ہوئی پارٹی سے نکال باہر کیا بلکہ بلکہ الطاف حسین کو غدار وطن قراردیتے ہوئے اس سے لاتعلقی اخیتار کرکے فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے متحدہ کا ایک نیا دھڑا بنا لیا۔

مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی مخالفت کرنے والوں سے یہی کہا جاسکتاہے کہ جب وہ 30 سال تک الطاف حسین اور MQM کے طرز سیاست کو برداشت کرسکتے ہیں تو مصطفی کمال اور ان کی پاک سرزمین پارٹی کو بھی تھوڑا وقت دیں کہ وہ جو دعوے اور وعدے کر رہے ہیں ان پر عمل کرکے دکھا سکیں ،صرف باغی اور غدار قرار دے کر کسی بھی سیاستدان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست کی دنیا میں اکثر انقلاب باغی ہی لے کر آئے ہیں اور باغی بھی مصطفی کمال جیسا جس کواپنی جان سے زیادہ مرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونے کا خوف ہے اور اسے اس بات کا ڈرتھاکہ کہیں وہ ۳ مارچ سے قبل مر نہ جائے کہ اگر وہ سچ بولے بغیر اور متحدہ کے قائد کا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کرنے سے پہلے مر گیا تو وہ اﷲ تعالی کو کیا منہ دکھائے گا؟ لہذا مصطفی کمال کا3 مارچ کو پاکستان واپس آکر میڈیا کے سامنے سچ بولنے کے بعد یہ کہنا کہ’’ آج ہم کامیاب ہوگئے اب اگر ہم مار بھی دیے جائیں توہمیں کوئی غم نہیں کہ ہم اب اپنے اﷲ کے سامنے سرخ رو ہوکر جائیں گے‘‘ ۔ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے اور مذہبی لحاظ سے تما م اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدارنیت پر ہی ہوتا ہے لہذامصطفی کمال کی باتوں میں کسی سازش کی بو تلاش کرنے کی بجائے اس کی باڈی لینگویج ،چہرے اور قول وفعل سے عیاں اس کی باتوں میں جو سچ کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے اس کو سمجھا جائے کہ دھن دولت نام ونمود اور عہدوں و مراعات کو لات مار کر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قوم کے سامنے سچ اور حق بات کرنے والے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ایسے سچے لوگوں کی قد کرنی چاہیے کہ ایسے لوگ ہی وطن کی آبرو ہوتے ہیں۔اﷲ تعالی ٰ سچ اور حق کے راستے پر چلنے والے ہر محب وطن پاکستانی کی حفاظت فرمائے (آمین)

پاکستانی سیاست میں آج تک ان ہی سیاستدانوں کو بہت تیزی کے ساتھ شہرت ،عزت اور کامیابی حاصل ہوئی ہے جنہوں نے ہر طرح کے لسانی ،قومی اور مذہبی تعصب سے بالا ترہوکر پاکستانیت کے جذبے کو فروغ دینے کے لیئے وفاقی طرز سیاست کو اپنایا۔خوش قسمتی سے پاکستان میں لسانیت ،قومیت اور مذہبی گروہ بندی سے بالا تر ہوکر سیاست کرنے والوں میں حال ہی میں ایک اور دبنگ سیاستدان کا اضافہ ہوا ہے جسے لوگ مصطفی کمال کے نام سے جانتے ہیں۔

مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ابھی کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی البتہ وقت سب سے بڑا منصف ہے اس نے ماضی میں بھی بڑے بڑے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی عوام الناس میں مقبولیت اور کامیابی کو عیاں کیا ہے جیسا کہ ماضی میں پاکستان کو ایٹی قوت بنانے والے عظیم سیاسی لیڈر قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف تحریک چلا کر انہیں ایک آمر کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے تک پہنچایا ان میں سے اکثر نے مرنے سے پہلے اپنے اس فعل پر ندامت محسوس کرکے اس کا عوامی سطح پر اعتراف کیااور پھردنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مردہ بھٹو ،زندہ بھٹو سے زیادہ مقبول اور کامیاب ثابت ہوا اور جیسا کہ بھٹو نے کہا تھا کہ میں اپنی قبر سے بیٹھ کر اس ملک پر حکومت کروں گا ،لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بھٹو کا یہ دعویٰ پورا ہوا لہذا کسی بھی سیاست دان یا اس کی سیاسی پارٹی کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کی جانب سے کہی گئی باتوں اور کیئے گئے وعدوں کی روشنی میں اس پارٹی کے لیڈر یا پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات کرنی چاہیئے کہ انقلابی لوگوں کی بنائی ہوئی انقلابی پارٹیاں وہ کچھ کر گزرتی ہیں جس کا لوگ صرف خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں ،ماضی میں ذوالفقارعلی بھٹو کا ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے کابینہ سے استعفیٰ دے کر ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو قائم کرنا اس وقت کے دور کے لحاظ سے ایک انقلابی کام تھا جو بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے بہت کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا اور پھر ان کی پارٹی نے پاکستان کی سب سے مقبول اور کامیاب سیاسی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل کیا لہذا مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو نظر انداز کرکے ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانے میں جلدی نہ کی جائے کہ وقت ثابت کردے گا کہ مصطفی کمال اوران کی پاک سرزمین پارٹی کا پاکستان اور کراچی کی سیاست میں مستقبل کیا ہوگا۔ ؟
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 126325 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More