حکومت ترکی نے بین الاقوامی کشمیر کانفرنس
کے انعقاد کا اعلان کیا ہے وہ جلدغالباً اگلے ماہ ہی عالم اسلام کے تمام
راہنماؤں کو صرف اور صرف کشمیر میں چار ماہ سے جاری بھارتی بر بریت پر
احتجاج اور اس کو مستقلاً حل کرنے کے لیے اکٹھے کریں گے ۔ہمارے ہاں تو طارق
فاطمی اور بزرگ سرتاج عزیز ہی خارجہ امور کی گاڑی کو ہانک رہے ہیں۔مکمل
وزیر خارجہ مقرر نہ کرنے پر نہ جانے حکمرانوں کو کیا حکمت آڑے آرہی ہے ؟اصل
خارجہ امور کا قلمدان خود وزیر اعظم کے ہی پاس ہے اسطرح دنیا کو تو کیا ہم
عالم اسلام کے راہنماؤں کی بھی تو جہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول نہیں کراسکے
کیونکہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور صنعتکار حکمران کے نزدیک اپنا
کاروباری مفاد بڑی ترجیح ہوتا ہے۔پھر مودی کی یاری بھی ان کے آڑے آجاتی ہے۔
بھارت دو مونہی سپنی کی طرح ادھر کشمیر پر مظالم کی انتہا کیے ہوئے ہے اور
ادھر پاکستانی بارڈروں پر شدید گولہ باری کرکے مسئلہ کشمیر سے عالمی
راہنماؤں کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے ۔ان حالات میں پاکستان کے عظیم دوست ترکی
کی طرف سے اپنے ہاں عالمی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا
ثابت ہو گا۔ کاش ہم کہ ایٹمی پاکستان ہیں پورے عالم اسلام و دیگر غیر ملکی
راہنماؤں کو اپنے ہاں مدعو کرتے کہ ہم کشمیر پر بھارتی مظالم کے براہ راست
متاثرین میں شامل ہیں ۔بھارت کی طرٖف سے پانی کو مکمل روک کر پاکستان کو
ریگستان بناڈالنے کاا علان پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہی تصور کیا جانا
چاہیے ۔موثر اور قابل ترین پاکستانی قائدین اور زعماکے وفود بیرون ممالک
بھجوائے جائیں اور مولانا فضل الرحمٰن جو کہ مستقلاً کشمیر کمیٹی کے چئیر
مین ہیں انھیں بھی خدا اور رسول ﷺ کا واسطہ دے کر مجبور کیا جائے کہ وہ بھی
پاکستان کی دھرتی ماں کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے کشمیر کے مسئلہ پر آواز
اٹھائیں ویسے بھی یہ ان کا اخلاقی قانونی حق اور ان کے فرائض منصبی میں بھی
شامل ہے پوری قوم نئے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ
کشمیر میں مظالم سینکڑوں نوجوانوں کی شہادت اور ہماری سرحدوں پر اعلانیہ
جنگ کا کیا توڑکرتے ہیں۔پانامہ لیکس کی بیماری نے پورے ملک کو مریض بنا
رکھا ہے کاش پاکستانی وزیراعظم اپنی جگہ کسی دوسرے کو نامزد کرکے اس مسئلہ
سے جان چھڑا لیتے۔امید قوی ہے کہ ترکی میں کانفرنس میں عالم اسلام مل کر
بھارت کا بائیکاٹ کر ڈالے گا تو ہی موذی مودی کی بڑھکیں بند ہو سکیں گی۔اس
کانفرنس کے انعقاد کی کوششوں پر آزاد کشمیر کے سیاسی راہنماؤں بالخصوص امیر
جماعت اسلامی کی تگ و دو کی تعریف نہ کرنا بھی کم ظرفی ہوگی کہ انہوں نے ہی
بالآخریہ راستہ ڈھونڈھ نکالا ہے اگر حکمران مصلحتوں کا شکار ہیں تو چلو
ترکی جو کہ ہمارا برادر ملک ہے اس نے ہی ایسی کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے
بھارت پر پابندیاں عائد کردیں تو آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیا جنتا
پارٹی کو دن کو تارے نظر آنے لگیں گے کشمیریوں کا درینہ حق خود ارادیت کا
مطالبہ بھی پورا ہو گاپہلے بھی اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے پیش کردہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر
لی گئی ہے۔قرار داد پیش کرنے میں ایران سعودی عرب ،مصر ،چین ملائیشیا ،برازیل
نائیجیریا ،لبنان ،جنوبی افریقہ سمیت72ممالک نے تعاون کیا جس کی اقوام
متحدہ کی سماجی انسانی ثقافتی امور کی 193ارکان پر مشتمل کمیٹی نے منظوری
دی جس میں عوام کو حق خود ارادیت دیا جاناعالمی سطح پر ایک موثر ضمانت اور
انسانی حقوق کی علامت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے قرار داد میں فوجی مداخلت
،علاقوں پر جبری تسلط ،امتیازی سلوک اور تشدد کی مذمت کی گئی ہے ۔ قرار داد
کو آئندہ ماہ تو ثیق کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیے جانے
کا امکان ہے۔ترکی کے صدر طیب اردگان کا تاریخی استقبال تو ہوا مگراسمبلیوں
کے مشترکہ اجلاس سے ان کے خطاب میں عمران خان کے بائیکاٹ نے رنگ میں بھنگ
ڈال دیا کیا ہی بہتر ہوتا کہ بھٹو دور میں کرنل قذافی کے پاکستان دورہ پر
دونوں راہنماؤں کے لاہور میں قذافی اسٹیڈیم میں مشترکہ خطاب کی طرح اب بھی
جلسہ عام منعقد کیا جاتاتو پوری دنیا کو پاکستانی موقف سے آگاہی ہو جاتی ۔اب
بھی پاکستان کو سفارتی محاذ پر خامشی اختیار کرنے کی بجائے بھارت کی مذمت
اور کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنے اور ان پر کیے جانے والے بہیمانہ تشدد
اور سینکڑوں شہادتوں پر بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور ورلڈ بنک جو کہ پانی
کے مسئلہ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان گارنٹی تھا اس کو بھی بھارتی آبی
دہشت گردی پر مطلع کر کے بھارت کوکسی ایسے مذموم اقدام سے باز رکھنا ہو گا۔ |