ذمہ داریوں سے منھ موڑنے والے

مادیت پرستی اور دنیاوی عیش و عشرت کے حصول نے آج کے انسان کی آنکھیں چکا چوندھ کردی ہیںاور اس ظاہری چمک دمک میں وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سےبھی منھ موڑچکا ہے ۔یہاں تک کہ والدین جیسی نعمت پاکر بھی وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اپنی نافرمانیو ں سے اللہ کے غضب کو دعوت دیتا رہتا ہے ۔
عام لوگوں کا ذہن اب ایسا ہی بن گیا ہے کہ انہیں ماردھاڑ ،قتل و غارت گری یا پھر سیاسی خبروں سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، انہیں اخلاقی خبریں کم اپیل کرتی ہیں۔ فی الحال تو نوٹ بندی اور اس سے ہونے والی عوامی پریشانیوں کی خبرو ں نے تو ساری باتوں اور اہمیات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔اخبارات اور ٹی وی چینل دن رات ایسی ہی خبریںاکٹھاکرنے اور سنانے میں مصروف ہیں ۔گذشتہ ۲۸؍ نومبر کو تقریباً سبھی اخبارات نے یہ خبر شائع کی لیکن معمول کے مطابق وہ خبر بھی نوٹ بندی اور ہماری بےتوجہی کی نذر ہوگئی، کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی ۔ ماں اپنی اولادوں پر جان چھڑکتی ہے اور اس کے ہاتھ کبھی ان کے خلاف بددعا کیلئے نہیں اٹھتے لیکن رتلام( مدھیہ پردیش ) کی رہنے والی ۱۰۲؍سالہ ضعیفہ گلشن بائی آج اپنی ہی کوکھ سے جنمے اس بیٹے کو گالیاں دے رہی ہے جس نے اسے ضعیفی کی حالت میں دردر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے مجبور کردیا ۔ گلشن بائی گورکھپور ریلوے اسٹیشن پر ۵؍ دنوں سے بھوکی پیاسی اور بے آسرا پڑی ہوئی ہے ۔اس کے ہاتھ میں زخم ہونے کے سبب کیڑے پڑگئے ہیں ، اس کی حالت پر رحم کھاکر کچھ مقامی لوگوں نےاین جی اوز کی مدد سے علاج کیلئے ضلع اسپتال داخل کرادیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس ضعیفہ کی آنکھوں سے رہ رہ کے آنسو چھلک پڑتے ہیں، کیونکہ اسے دھوکہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود اس کے جگر کے ٹکڑے نے دیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ اس کی ہی کوکھ سے پیدا ہوا بیٹا اسے علاج کے بہانے کانپور لے گیا اور اسے کانپور کے بجائے گورکھپور ریلوے اسٹیشن پر اتاردیا اور فرار ہوگیا ۔یہی نہیں بلکہ اس کے پاس رکھے چار ہزار روپئے بھی چھین لے گیا ۔گلشن بائی بیوہ ہے، اس کے شوہر نور کا کافی پہلے انتقال ہوچکا تھا اس کے بعد وہ اپنے بڑے بیٹے سلیم کے ساتھ رتلام ہی میں رہتی تھی ۔کچھ دنوں قبل اس کے بائیں ہاتھ میں پھوڑا نکل آیا تھا اور علاج نہ ہونے کے سبب اس میں انفیکشن ہوگیا تھا، زخم میں کیڑے پڑگئے ۔بیٹے کی اس کرتوت سے وہ بے حد دکھی اور پریشان ہے، اس کی آنکھیں جیسے خلا میں کچھ ڈھونڈھ رہی ہوں، جس میں بے چینی اور انتظار دونوں شامل ہیں ۔تبھی کچھ لوگوں نے اس ضعیفہ کی پریشانیوں کو جی آر پی کے جوانوںکو بتایا لیکن ان لوگوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی تب روٹی بینک کے رضاکار آزاد پانڈے اور گوروداس نے اسے ضلع اسپتال میں داخل کرادیا۔

مادیت پرستی اور دنیاوی عیش و عشرت کے حصول نے آج کے انسان کی آنکھیں چکا چوندھ کردی ہیںاور اس ظاہری چمک دمک میں وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سےبھی منھ موڑچکا ہے ۔یہاں تک کہ والدین جیسی نعمت پاکر بھی وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اپنی نافرمانیو ں سے اللہ کے غضب کو دعوت دیتا رہتا ہے ۔اس دلدوزواقعے نے ہمارے ذہن میں ایک اور واقعے کی یاد تازہ کردی جو اس کے بالکل برعکس ہے ۔شمالی ہندسے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک عزیز جو اسی ممبئی میں بحیثیت ٹیچر اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں، ان کی والدہ حیات ہیں ، ان کی ساری ذمہ داریاں وہ خود نبھاتے ہیں اسکول سے لوٹنے کے بعد وہ ایک گھنٹہ اپنی والدہ کے پاس ضرور بیٹھتے ہیں اس دوران وہ ضعیف والدہ کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کی ضرورتوں کی فہرست بناتے ہیں اور ایک ایک کرکے پورا کرتے ہیں یہا ں تک کہ والدہ کا بستر بچھا نا ان کو لٹانا اور پھر دیر تک گفتگو کرتے ہوئے ان کے پاؤں دبانا ان کے روزانہ کے معمولات میں شامل ہے ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والدہ کو کہنا پڑتا ہے کہ بیٹا تم اسکول سے تھک کرآئے ہو اب جاؤ کچھ کھا پی کے اپنے بچوں میں آرام کرو ۔

یہ دو متضاد واقعات ہیں ان میں آخرالذکرواقعہ تو اب شاذ و نادر ہی ہوتا ہے لیکن اول الذکر واقعہ تو عام ہوگیا ہے ، اگر سروے کیا جائے تو اس طرح کے واقعات کم و بیش ہر تیسرے گھر کی کہانی بن گئے ہیں ، جہاں بوڑھے والدین گھر کی سب سے غیر ضروری اشیاءبن چکے ہیں ، بات بات میں ان کو جھڑک دیا جاتا ہے ، گھر کے معاملات میں ان سے کوئی مشورہ تو دور کی بات ان کی شمولیت اور مداخلت تک کو بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بوڑھے والدین کچھ بولنا چاہتے ہیں تو بڑی سختی سے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کردیا جاتا ہے ۔المناک بات تویہ ہے کہ اس طرح کے سلوک ان خاندانوں اور گھروں میں کئے جارہے ہیں جواللہ اور اس کے رسولؐپر ایمان رکھتے ہیں ۔والدین کی عظمت کا حال یہ ہے کہ قرآن ان کے بارے کہتا ہے ولا تقل لھما اف و لا تنہر ھما وقل لھما قولا کریما ( ان کےلئے (والدین ) اف بھی نہ کرواور نہ ہی انہیں جھڑکو بلکہ ان سے بات کرو تو نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ ۔اللہ کے رسول ؐ کی تعلیمات بھی والدین کے احترام و ادب سے پر ہیں،ہادی ٔ برحق سےحضرت اسماءبنت ابوبکر ؓنے پوچھا کہ میری والدہ مشرک ہیں اور میرے والد نے انہیں طلاق دے دیا ہے پھر بھی کبھی کبھی وہ آتی ہیں تو میرے لئے کچھ نہ کچھ تحائف ضرورلاتی ہیں تو کیا میں ان کا تحفہ نہ لیا کروں ، اللہ کے رسولؐ ؐنے کہا ان کے تحفے ضرور قبول کرواور ان کے احترام میں کمی نہ کرو۔ مندرجہ بالا اول الذکر واقعہ کیا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ آج ہمارا معاشرہ کس قدر بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات سے انحراف کی بے شمار مثالیں کیا ہمیں ہر روز اور ہر جگہ نہیں دکھائی دیتیں ۔
Vaseel Khan
About the Author: Vaseel Khan Read More Articles by Vaseel Khan: 126 Articles with 106331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.