اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے اورآنے پرپابندی
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
اسرائیل نے تواذان پرپابندی لگائی ہے اسلام
قبول کرنے پرنہیں۔اسلام کے نام پرحاصل کیے گئے ملک کے صوبہ سندھ کی اسمبلی
نے اسرائیل پرسبقت حاصل کرنے اورشیطان کوخوش کرنے کے لیے اسلام قبول کرنے
پرپابندی کابل منظورکرکے اغیارکواپنی وفاداری کایقین دلانے کی ناکام کوشش
کی ہے۔کراچی سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبارشائع شدہ اس حوالے سے ایک
خبریہ ہے کہ اسلام کے نام پربننے والے پاکستان میں غیرمسلموں کے لیے اسلام
قبول کرنامشکل بنادیاگیا۔ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کی اسمبلی نے نجی ایکٹ
منظورکرکے قبول اسلام پرشرائط لگادی ہیں۔جس کے تحت ۸۱ برس سے کم عمروالے اس
وقت تک غیرمسلم ہی کہلائیں گے جب تک وہ بلوغت کی عمرکونہیں پہنچ جاتے جب کہ
بالغ فردبھی اکیس روزتک اپنے مسلمان ہونے کااعلان نہیں کرسکے گا۔تاکہ اس
عرصے، تحریص، ترغیب اوردباؤکے ذریعے اسلام قبول کرنے سے بازرکھاجاسکے۔اس کے
علاوہ مذہب تبدیل کرانے پرعمرقیدتک کی سزامقررکی گئی۔نومسلموں کی سماعت ان
کیمرہ اورمقدمات خصوصی عدالتوں میں چلیں گے جو۰۹ روزمیں فیصلہ سنانے کی
پابندہوں گی۔ علاوہ ازیں ایکٹ کے ذریعے نکاح پڑھانے والوں کوبھی خوف زدہ
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نومسلموں کانکاح پڑھانے پرتین برس قیدکی سزارکھی
گئی ہے اوران کی ضمانت بھی نہیں ہوسکے گی۔جب کہ نومسلموں کودباؤمیں رکھنے
کے لیے نفسیاتی دباؤ کی شق بھی شامل کی گئی ،جس کے لیے کوئی پیمانہ نہیں
ہوتانہ ہی اس بل میں کوئی اس کی تشریح کی گئی ہے۔اس لیے خدشہ ہے کہ اس شق
کے ذریعے نومسلموں کوانفرادی کیسوں میں نفسیاتی دباؤ کاشکارقراردے کرواپس
کفرکی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔متنازع بل کے لیے پی پی قیادت نے
بھرپورسرگرمی دکھاتے ہوئے قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے صوبائی معاون کے
ذریعے بل اسمبلی میں پیش کرایا۔جسے سرکاری ارکان نے سات منٹ کے
اندرمنظورکرادیا۔تحریک انصاف ،مسلم لیگ ن ،ایم کیوایم سمیت کسی جماعت نے بل
کی مخالفت نہیں کی اورنہ ہی اس میں کوئی ترمیم پیش کی۔ذرائع کے مطابق سابق
صدرآصف علی زرداری کے پرانے دوست اورصوبائی معاون خصوصی اقلیتی
امورڈاکٹرکھٹومل کی جانب سے متنازع ایکٹ منظورکرانے کے لیے پارٹی کے
چیئرمین بلاول زرداری اورآصف زرداری سے رابطہ کرکے اقلیتی حقوق ایکٹ
منظورکرانے کی درخواست کی گئی۔جس پرآصف زرداری، بلاول زرداری نے سپیکرسندھ
اسمبلی آغاسراج درانی اورسینئر صوبائی وزیرنثاراحمدکھوڑو سے رابطے کرکے
انہیں جمعرات کے اسمبلی کے اجلاس سے متنازع اقلیتی ایکٹ منظورکرانے کے
احکامات جاری کیے۔ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں نثاراحمدکھوڑوپارٹی کے
پارلیمانی اجلاس میں بلاول زرداری ،آصف زرداری کے احکامات سے آگاہ
کیا۔اورارکان اسمبلی سے کہاکہ جمعرات کے اجلاس کے آخرمیں اقلیتی حقوق کمیشن
ایکٹ منظورکرواناہے اس لیے تیاررہیں۔اسلام کے نام پرحاصل کیے گئے ملک کے
ایک صوبے میں اسلام قبول کرنے پرپابندی کابل پاس ہوجائے اورعلماء کرام
خاموش ہوجائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کراچی سے شائع ہونے والے قومی اخبارکی
رپورٹ مزیدبھی جاری ہے۔تحریرطویل ہوجائے گی اس لیے یہاں تک لکھنے
پراکتفاکیاجاتاہے۔ تنظیم وفاق المدارس پاکستان کے سربراہ رویت ہلال کمیٹی
کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے سندھ اسمبلی سے اقلیتی بل واپس لینے
کامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متنازعہ بل کے خلاف ۹ دسمبربروزجمعہ کوصوبے
بھرمیں بھرپوراحتجاج کیاجائے گا۔ان کاکہناتھا خلاف شریعت بل پاس کرنے
پرسندھ حکومت اورسندھ اسمبلی کی مذمت کرتے ہیں۔ جماعت اہلسنت کے مرکزی
امیرصاحبزادہ سیّدمظہرسعیدکاظمی اورمرکزی ناظم اعلیٰ علامہ سیّدریاض حسین
شاہ کیاپیل پرجماعت اہلسنت کے مفتیان کرام نے جاری کیے گئے اپنے اجتماعی
شرعی اعلامیہ میں اقلیتوں کے تحفظ کے نام پرمنظورکیے گئے بل کوشریعت اسلام
کے منافی قراردے دیا۔شرعی اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب
کوروکنے کے نام پرمنظورکیاگیابل خلاف قرآن،خلاف اسلام اورخلاف شریعت
ہے۔جبری تبدیلی مذہب کے مشکوک واقعات کوبنیادبناکراشاعت اسلام کاراستہ
روکنے کے لیے غیرشرعی بل ناقابل قبول اورناقابل برداشت ہے۔یہ غیرشرعی بل فی
الفورواپس لیاجائے۔سندھ اسمبلی کے بل میں اٹھارہ سال کے کم عمرافرادکوقبول
اسلام سے روکنااوراٹھارہ سال سے زائدعمرکے شخص کواکیس روزتک قبول اسلام کے
اعلان سے منع کرنااسلامی تعلیمات واحکامات کے منافی ہے۔ایسالگتا ہے کہ بل
غیرمسلموں کومنظورکرانے کے لیے منظورکرایاگیا۔ تنظیم اتحادامت کے چیئرمیں
محمدضیاء الحق نقشبندی کی اپیل پرتنظیم کے شریعہ بورڈ کے پچاس سے
زائدمفتیان کرام نے اس بل کوقرآن وسنت کی روشنی میں غیراسلامی،غیراخلاقی،
غیرقانونی اوراخلاق باختہ قراردیتے ہوئے اپناشرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے
کہا ہے کہ یہ بل جہاں شریعت مطہرہ کی روشنی میں غیرشرعی ہے وہیں پریہ بل
آئین پاکستان، دوقومی نظریہ اورنظریہ پاکستان کے متصادم ہے۔وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کے قائدین شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ
خان،مولاناڈاکٹرعبدالرزاق سکندراوردیگرعلماء کرام نے سندھ اسمبلی سے قبول
اسلام کے حوالے سے کیے گئے بل پرردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان
پیپلزپارٹی کی قیادت سندھ حکومت کی اسلام سندھ مخالف پالیسیوں اورسرگرمیوں
کافوری نوٹس لے۔پی پی قیادت سے ایسامطالبہ کرنے والے علماء کرام کومعلوم
ہوناچاہیے کہ یہ بل اسی پی پی قیادت کے حکم پرہی منظورکرایاگیا ہے۔ ۔اہلسنت
جماعتوں کے مشترکہ اجلاس کے اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ تیس اہلسنت جماعتیں
اقلیتوں کے تحفظ کے نام پرسندھ اسمبلی میں منظورہونے والے تبدیلی مذہب بل
کے خلاف تحریک چلائیں گی۔میلادالنبی کے ہرجلسے جلوس میں سندھ اسمبلی کے
شریعت کے متصادم بل کے خلاف مذمتی قراردادیں منظورکی جائیں گی،قبول اسلام
کے لیے اٹھارہ سال کی عمرکی شرط کاقانون مستردکرتے ہیں۔اسلام کسی کوزبردستی
اسلام قبول کرنے پرمجبورکرنے کی اجازت نہیں دیتالیکن برضاورغبت اسلام قبول
کرنے سے کسی کوروکانہیں جاسکتا،سندھ اسمبلی کااجلاس آئین کے منافی ہے ۔سندھ
اسمبلی کے ممبران غیرشرعی بل منظورکرنے پرتوبہ کریں۔اہلسنت جماعتوں
کامشترکہ اجلاس جماعت اہلسنت کی دعوت پرکالاشاہ کاکومیں ہوا۔اجلاس کی صدارت
شمس الدین بخاری نے کی۔اجلاس میں جماعت اہلسنت، جے یوپی نورانی،سنی
اتحادکونسل، نظام مصطفی پارٹی، اے ٹی آئی، تحفظ ناموس رسالت محاذ،،پاکستان
فلاح پارٹی، مصطفائی تحریک،تنظیم اتحادامت،انجمن فدایان مصطفی،ادارۃ
المصطفیٰ،جانثاران ختم نبوت،تنظیم المساجداہلسنت پاکستان،شیران اسلام، سنی
علماء بورڈ،انجمن خدام اولیاء،مرکزی مجلس چشتیہ،تحریک فروغ اسلام،تحریک
مشائخ اہلسنت،سنی فاؤنڈیشن،تنظیم السعید،تحریک نفاذفقہ حنفیہ ،بزم محدث
اعظم پاکستان اوردسری اہلسنت جماعتوں کے راہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس سے متعد
دعلماء کرام نے بھی خطاب کیا۔جامعہ نعیمیہ میں علماء کے مشاورتی اجلاس سے
خطاب کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹرمحمدراغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہسندھ اسمبلی سے
منظورکردہ اقلیتوں کے تحفظ کابل پاکستان کے آئین اورشریعت محمدی کی تعلیمات
کے منافی آزادی اظہارحق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔اس طرح کے اسلام مخالف بل
منظورکرناکھلم کھلانظریہ پاکستان کی دھجیاں منظورکرنے کے مترادف ہے۔قبول
اسلام کے حوالے سے دین حنیف میں عمراوروقت کی کوئی قیدنہیں ہے۔علامہ
محمدراغب حسین نعیمی کاکہناتھاکہ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پرسندھ اسمبلی سے
منظورکردہ اسلام مخالف بل کوواپس لیاجائے۔ملک کوسیکولراسٹیٹ بنانے کی کوشش
کی جارہی ہے،جبکہ پاکستان کے آئین کی بنیادشریعت پرہے۔لیکن مغربی قوتوں کی
خوشنودی کے لیے اسلام دشمن قوانین بناکرحکمران آئین واسلام کامذاق اڑارہے
ہیں۔وطن عزیزمیں ا سلامی اقدارکاہرقیمت پرتحفظ یقینی بنایاجائے گا۔پاکستان
کوکسی صورت لادین ریاست نہیں بننے دیں گے۔سنی تحریک کے راہنماعلامہ بلال
قادری نے ایک قومی اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اراکین
نے جوبل پاس کیا ہے وہ اللہ کے عذاب کودعوت دینے کے مترادف ہے۔اوراگراسے فی
الفورکالعدم قرارنہ دیاگیاتوپھراس کے خلاف علماء کرام بھرپوراحتجاجی تحریک
چلائیں گے۔پاکستان اس لیے نہیں بنایاگیاتھاکہ اسلام قبول کرانے والوں
کوسزادی جائے۔اس قانون کی وجہ سے مذہبی جماعتوں میں بے چینی ہے۔سندھ اسمبلی
نے ہوش کے ناخن نہ لیے توپھرسخت احتجاج ہوگا۔صاحبزادہ شاہ محمداویس نورانی
کہتے ہیں کہ سندھ اسمبلی میں سیّدزادوں کی موجودگی میں تبلیغ اسلام روکنے
کی قراردادمنظورہونالمحہ فکریہ ہے۔یہ توعلماء کرام کاردعمل
ہے۔خودکودانشوراوربہت کچھ سمجھنے والاعلماء کے اس ردعمل کومذہبی معاملہ
قراردے کراس کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کرسکتا ہے اس لیے ہم آئینی ماہرین
اورقانون دانوں کی آراء بھی شامل کررہے ہیں۔اٹارنی جنرل آف پاکستان
اشتراوصاف علی نے ایک قومی اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین پاکستان
میں ایسی کوئی شق موجودنہیں ہے جواس بات کی اجازت دے کہ کوئی صوبائی حکومت
کسی نابالغ غیرمسلم کومسلمان ہونے سے روک سکے۔یہ درست ہے کہ آئین وقانون
اقلیتوں کے حقوق کاتحفظ کرتاہے۔لیکن اس کامطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ کوئی بھی
حکومت اس کوبنیادبناکرآئین سے متصادم قانون بناناشروع کردے۔ایک سوال کے
جواب میں اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ جس طرح کاقانون سندھ حکومت نے بنایاہے
وہ ان کے دائرہ کارمیں نہیں آتا۔یہ نہ صرف قرآن وسنت کے منافی ہے بلکہ آئین
کے آرٹیکل ۸ کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن
وسنت کے منافی نہیں بنایاجائے گا۔یہ قانون وفاقی شرعی عدالت سمیت،ہائی
کورٹس اورسپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاسکتا ہے۔آئین میں لکھاہواہے وفاق
اورصوبوں کوکس حدتک قانون سازی کااختیارہے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے
سینئروکیل اکرام چوہدری،اے کے ڈوگرایڈووکیٹ، ماہرقانون حشمت حبیب
ایڈووکیٹ،جسٹس (ر) میاں نذیراخترنے اس بل کوخلاف آئین وقانون قراردیا ہے
اورکہا ہے کہ یہ قانون اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیاجاسکتاہے۔طاہرالقادری نے
اس بل کوبلاضرورت قراردیتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کامطالبہ کیا
ہے۔یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل بھی نہیں بھیجاجاسکتا کیونکہ اسلام قبول
کرنے اورکرانے سے کسی کونہیں روکاجاسکتا۔طاہرالقادری نے مزیدکہا ہے کہ
دنیاکے کسی ملک میں مذہب کی تبدیلی پرپابندی کاقانون نہیں ہے۔
کسی کو جہالت کے اندھیروں سے ایمان کی روشنی میں لانے پرپابندی اورقبول
اسلام کے حوالے سے عمرکی قیداور اسلام قبول کرنے پرپابندی کے بل کی علماء
کرام اورقانونی ماہرین نے مخالفت کی ہے۔اس بل کی نہ تواسلام میں اجازت ہے
اورنہ ہی پاکستان کے قانون میں۔جس طرح سات منٹ کی عجلت میں یہ بل پاس
کرایاگیا ہے اس سے شکوک وشبہات کواوربھی تقویت ملتی ہے۔اسمبلیوں میں جوبھی
بل پاس ہوتا ہے وہ بحث مباحثہ اورگہرے غوروفکرکے بعدمنظورہوتا ہے۔سندھ میں
موجوددیگرسیاسی جماعتوں میں سے کسی نے اس بل کے خلاف ووٹ نہیں دیااورنہ ہی
اس میں کوئی ترمیم پیش کی ہے۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت مسلمانوں پرکرتے
ہیں جبکہ قرآن وسنت اورآئین پاکستان سے متصادم بل کوپاس کراکے اغیارکوخوش
کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔اس بل میں مذہب تبدیل کرانے اورنکاح پڑھانے
پرسزائیں مقررکرنادین اسلام کی تبلیغ کوروکنے کے مترادف ہے۔اب اگرکوئی
غیرمسلم کوئی اسلام کتاب پڑھ کریاکسی مسلمان کے حسن سلوک سے متاثرہوکراسلام
قبول کرلے توکیااس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔بل میں یہ وضاحت بھی نہیں ہے
کہ مذہب کی جبری تبدیلی کاکیس نومسلم خودخصوصی عدالتوں میں دائرکرے گایا اس
کے ورثاء۔یہ بھی نہیں کہاگیا کہ مدعاعلیہ کودفاع کاحق بھی دیاجائے
گایانہیں۔اس بل میں مذہب تبدیل کرانے پرتوپابندی لگادی گئی ہے۔ مذہب
پرتنقیدکرنے پربھی پابندی لگائی جائے۔جوکسی غیرمسلم کومسلمان بنائے تووہ اس
کے لیے توسزامقررکی گئی ہے۔ اورکسی غیرمسلم اپنی مرضی سے کسی دباؤ کے
بغیراسلام قبول کرلیتا ہے اس کے گھروالے، رشتہ دار، خاندان والے یادوسرے
غیرمسلم لوگ اسے اسلام چھوڑنے پرمجبورکریں توان کے خلاف بھی سزائیں مقررکی
جانی چاہییں۔ |
|