کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر دو
پاکستانی گروہ آپس میں گتھم گتھا ہو گئے، انہوں نے ایک دوسرے کو گھونسے
رسید کئے اور لاتیں بھی ماریں۔ وہاں کی مقامی مسلم لیگی لیڈروں اور ان کے
کارکنوں کا آپس میں یوں الجھ جانا وہاں کی پولیس کے لئے حیران کن تھا، ممکن
ہے پولیس یہ سمجھی ہو کہ پاکستان میں کسی بڑی شخصیت کے استقبال کے لئے ایسی
سرگرمی کی جاتی ہے، تاہم بات بگڑنے پر پولیس نے چند افراد کو حراست میں لے
لیا، تاکہ ان کے بیانات ریکارڈ کئے جاسکیں اور انہی کی روشنی میں ان کے
بارے میں فیصلہ کیا جاسکے کہ آیا انہوں نے قانون شکنی کی ہے، یا واقعی ان
کے ہاں کوئی ایسا قانون یا رسم وغیرہ موجود ہے، جس پر انہوں نے مجبوراً عمل
کیا۔ خیر پولیس کی حراست والا معاملہ زیادہ سنگین نہیں لگتا، جلد ہی رہائی
مل جائے گی۔ پاکستان میں کوئی واقعہ اس قسم کا ہو جائے تو ذکر اسی بات کا
ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا کو کیا پیغام دیا، مگر جب ایسا کام خود ہو ہی لندن
میں تو اس میں پاکستان کا نام کس حد تک روشن ہوگا؟
وجہ اس گتھم پیل کی یہ ہوئی کہ پاکستان کے اہم ترین صوبہ (پنجاب) کے وزیر
اعلیٰ کی آمد کے موقع پر یہ ہنگامہ آرائی ہوئی۔بات آگے آنے کی تھی، پہل
کرنے کی تھی، نمبر ٹانکنے کی تھی، صاحب کا قرب حاصل کرنے کی تھی۔’’ پہلے آپ
‘‘کے فرسودہ رواج کو ختم ہوئے ایک عرصہ بیت گیا، اب ’’پہلے میں‘‘ کا زمانہ
ہے، جس نے ہاتھ بڑھا کے اٹھا لیا ، جام اسی کا ہے۔ ان مواقع پر جو لوگ ذرا
شرافت کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ تصویر
سے ہی محروم رہ جاتے ہیں، جس کی تصویر آئے گی، فیس بک پر وہی ڈالے گا،
ڈرائینگ روم میں وہی فریم لگائے گا، اخبارات میں شائع کروانے کی وہی کوشش
کرے گا۔ جس دھکے برداشت ہی نہیں کرسکتا، یا دوسروں کو دھکا دے کر اور کہنی
مار کر پیچھے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ، فی زمانہ اس کے آگے آنے کی
گنجائش ہی نہیں۔ اگر کسی کو آگے لانے اور پیچھے دھکیلنے کی بات ہوتی ہے، تو
یہ عموماً انتظامی معاملہ ہوتا ہے، بہت سے مواقع پر ایسا کیا جاتا ہے، مگر
جب یہ کام انتظامی ترتیب اور ڈسپلن سے کیا جائے تو بظاہر ہنگامہ نہیں ہوتا،
مگر انتظامی لحاظ سے بھی پیچھے دھکیلے جانے والے اس معاملے کو ٹھنڈے پیٹوں
قبول نہیں کرتے، وہ بات کو دل میں رکھتے ہیں اور ایسا ماحول بنانے کی کوشش
کرتے ہیں کہ آئندہ ان کے ساتھ ایسا نہ ہو۔
پاکستان میں بھی جب وزیراعلیٰ پنجاب اپنے صوبے میں کسی علاقے میں جاتے ہیں،
تو جہاں پر گروپ بندی ہوتی ہے، وہاں ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ صاحب
کی گاڑی وہ چلائے، اور سٹیج پر ساتھ وہی بیٹھے، اور جب میڈیا سے بات چیت ہو
تو وہ ساتھ کھڑا سر ہلا رہا ہو، جس کو یہ سعادت مل جاتی ہے، وہ سرخرو ہو
جاتا ہے، وہ نہ صرف پارٹی کے کارکنوں کی نگاہ میں سربلند ہو جاتا ہے، بلکہ
جس شہر میں یہ واقعہ پیش آتا ہے، وہاں کی مقامی انتظامیہ بھی اسی فرد کو
خصوصی اہمیت دیتی اور اس کی خدمت بجالاتی ہے، انتظامیہ کے اس اقدام کی وجہ
سے عوام میں بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں اپنے خاص لوگوں کو عوام میں
مقبول کرنے کے لئے اپنے حکمران انہیں کبھی کبھی قربت کا موقع دیتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے معاملات میں پہل کو ہی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ
معاملہ صرف حکمرانوں کا ہی نہیں، اوپر سے نیچے تک یہی عالم ہے۔ گزشتہ دنوں
سپریم کورٹ سے باہر نکلتے ہوئے جب سیاسی قائدین نے میڈیا سے بات کرنا تھی
تو دو مختلف پارٹیوں کے ترجمان ہی آپس میں بِھڑ گئے تھے، جس کا تماشا قوم
نے ٹی وی کی سکرینز پر دیکھا۔ کہیں کھانا ہو تو ایسے ہی پل پڑتے ہیں، کسی
بھی کام میں ڈسپلن، ترتیب اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان میں
ایسا ہونا روایتی بات ہے، مگرلندن میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔اگر پاکستانی
سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے ڈسپلن وغیرہ کی تربیت کی بات کی جائے تو ایک
مذاق سا لگتا ہے، مگر جو لوگ خود لندن میں آباد ہیں، انہیں تو ڈسپلن کا
مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وہاں پاکستان کے نام کی لاج رکھنا چاہیے تھی۔ مگر
کیا کیجئے کہ نسبت کا خون تو کبھی جوش مار ہی جاتا ہے، ویسے بھی دنیا کو
کیسے معلوم ہو کہ ہم سب سے جدا ہیں۔ |
|