وطن پاک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود
مسائل کے گرداب میں ہے۔ مسائل کی لمبی فہرست ہے ۔ پاکستان کے بانی قائد
اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد ملک بدترین بحران کا شکار رہا ۔ مسلسل
بحرانی صورتحال نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا ۔ یعنی قائد کی وفات سے جو
قیادت کا خلا پیدا ہوا اس کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت نے پورا کیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکا لا اور دنیا میں
باوقار کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ دوسری جانب اندورنی مسائل کو حل کیا ۔
آج تک پاکستان کی عوام کو جو حاصلات ہیں وہ بھٹو کی قیادت کی ہیں ۔ ضیاء
مارشل لا سے ایک بار پھر ملک بحران میں چلا گیا۔ عوام کی حقیقی قیادت کی
بجائے جعلی اور مصنوعی قیادت ابھارنے کی عوام دشمن کوشش کی گئی۔ ترقی کا
سفر تو رکا ، پاکستان سو سال پچھے چلا گیا۔1988کے بعد پاکستان کے عوام کو
محترمہ بینظیر بھٹو کی شکل میں قیادت نصیب ہوئی ۔ آمریت کی باقیات نے ہزار
ہا مشکلات کھڑی کیں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا میڈیا ٹرائل کیا گیا ۔ حالات
ایسے بنا دیے گئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کیلئے ہر قدم محال ہوگیا۔ آمریت
پسند چین سے نہ بیٹھے جب تک پرویز مشرف کی شکل میں ایک آمریت مسلط نہیں
ہوجاتی ہے۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہی کی قیادت کا کرشمہ تھا ۔ جب بی بی نے
میاں نواز شریف کو دعوت میثاق دی اور پھر سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
سیاسی قیادت کو آمریت کے خلاف ابھارا گیا ۔ جمہوریت کی بحالی کیلئے تمام
جمہوری قوتوں میں نئی روح پھونکی گئی۔ جمہور کی طاقت سے بوکھلا کر آمریت
پسندوں نے دہشت گردی کا سہارا لیکر پاکستان کے عوام کو ایک بار پھر قیادت
سے محروم کر دیا۔ قیادت کے بحران نے پھر سر اٹھا لیا۔ شدید ترین بحرانی
کیفیت میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے بھاری ذمہ
داری نبھائی اور قیادت کے خلاء کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ مگر آصف
علی زرداری متبادل ثابت ہو سکے اور نہ ہی ریاست اور عوام نے انہیں قبول کیا۔
آصف علی زرداری جب تک صدر مملکت رہے ۔ ان پر میڈیا اور عدالتوں کی یلغار
جاری رہی ۔ اس دوران ریاستی اور غیر ریاستی قوتوں نے آصف علی زرداری ، میاں
نواز شریف ، الطاف حسین کے مقابلے میں اپنی من پسند سیاسی قیادت تخلیق کرنے
کیلئے کام کا آغاز کیا ۔ عمران خان اور طاہر القادری پر طبع آزمائی کی
گئی۔تحریک انصاف متبادل کے طور پیش کیا گیا ۔ جس میں پیپلزپارٹی بالخصوص
اور المعموم دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور لیڈرشپ کیلئے بہتر چوائس
تحریک انصاف کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ بڑے پیمانے پر بھرتی بھی کی گئی ۔ اس کے
علاوہ بھی کئی پہلوؤں سے متبادل قیادت ابھارنے کی بھر پور کوشش ہوئی ۔ لیکن
تمام حربے ناکام ثابت ہوئے ۔عوام نے پیراشوٹ سے اتاری گئی قیادت کو یکسر
مسترد کر دیا ۔ بلکہ عوامی سطح پر یہ یقین پختہ ہوگیا کہ عمران خان سمیت
کوئی دوسرا لیڈر محض وقتی ہے۔ جن کا عام عوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
عام عوام کی روایت کوئی ہے تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی ہے ۔ قیادت کے بحران
میں جب بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے طور پر سیاسی منظرنامے
پر نمودار ہوتے ہیں تو سیاسی فضا میں ایکدم سے بھونچال سا آتا ہے۔ دھرنے
کامیاب ہوتے ہیں اور نہ دھرنے والوں کی وہ چڑتل رہ گئی ہے۔ ہر سیاسی سرگرمی
میں عوام نے بلاول میں بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی جھلک دیکھی ۔
اقلیتوں نے اپنا رہبر جانا۔ روشن خیال طبقے نے راہنما مانا۔ مزدور ، کسان ،
ہاری اور غریب عوام کو کھوئی ہوئی قیادت مل گئی ۔ بالا مندرجات سے انکار
ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف اپنی آخری اننگز کھیل رہے ہیں ۔ عمران سمیت تمام
منظرعام پر لیڈر وں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اب وقت صرف بلاول کا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری ہی واحد سیاسی شخصیت ہیں ۔ جنہوں نے شہید بی بی کی قیادت
کا خلاء پورا کیا ہے۔ جو بھٹو شہید کا پرتو بھی ہیں۔ جس کی سیاست بھٹو ازم
ہے۔ |