سنو میرے دوستو
(Sheeedi Yaqoob Qambrani, Karachi)
کہتے ہیں کہ جھموریت سے ملک و قوم کو
بڑا فائدہ ہوتا ہے ، لیکن ستر سال کے درمیان میں جو بھی جھموریت آئی اس سے
کیا فائدہ حاصل ہوا ، اور اس سےعوام کا کیا حال ہوا ہے یہ کوئی پوشیدہ امر
نہیں ۔ جیسا آمریت کا طویل دور گذرا ہے ایسا ہی جھموریت کا قلیل دور بھی ہے
، ان دونوں ادوار میں کوئی فرق نہیں ماسواء چہروں کے ۔ بڑوں سے سُنا ہے کہ
انگریز کے دور میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، انصاف کا
بول بالا تھا اور ہر کسی کو اپنے عقائد کے مطابق ایک قسم کی آزادی تھی ۔
لیکن آج اس انگریز کے نظام کا جو حشر ہے اس میں شیر اور بکری کے ایک ہی
گھاٹ سے پانی پینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ پہلے سرکاری محکمے خذمت کر
تے تھے تو اُن کی بڑی عزت سماج میں تھی ، آج وہی محکمے وبال جان بنے ہوئے
ہیں ۔ لہذا سماج انہیں مختلف القاب سے پکارتا ہے کیوں کہ یہ خذمت کے نام
رشوت کو فرض سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے
پیدائشی سرٹیفکٹ سے لیکر مرنے کے سرٹیفکٹ تک کسی نہ کسی طور رشوت دینی
لازمی ہوتی ہے ۔ آج کل تو نادرا کی اس بات پر موجیں لگی ہوئی ہیں ۔ یاد رہے
کہ سرکار نے اپنا یہ وطیرہ بنا یا ہے کہ وہ عوام کو ہر طرح سے تنگ کرنے کا
فریضہ بہ احسن و خوبی ادا کریگی، کیونکہ یہ صرف نادرا ہی نہیں ہر محکمہ یہ
کردار بخوبی ادا کر رہا ہے ۔ پچھلے دنوں چودری نثار اسمبلی میں یہ باور
کراچکے ہیں کہ سول سروس میں لوگ آنے سے کترا رہے ہیں ، وہ میرٹ ہی نہیں
میسر ہو رہا ہے جس سے کوئی اس میدان میں آئے ، سی ایس ایس کے امتحان میں
پچانوے فیصد اُمیدوار محض انگریزی کی وجہ فیل ہوگئے ہیں تو لوگ کہاں سے
ملیں جو سول سروس کے خانے کو پُر کریں ۔ یعنی علم کے نام پر جھالت کا
کاروبار عام ہے ۔ اگر ہما را سرکاری تعلیمی نظام اچھا ہو تو اس قسم کی
وجوہات پیدا ہی نہ ہو ۔ یہاں تو چربٹ راج قائم ہے ، پیدل چلو یا گاڑی میں
یہاں کوئی محفوظ نہیں تحفظ کا احساس نہیں کوئی داد رسی نہیں ۔ فریادی بن کے
جاؤ تو ایسا لگتا ہے جیسے خود ہی مجرم ہو ، لوگوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے ،
کوئی شریف آدمی تھانے جاکر رپوٹ لکھانے سے کتراتا ہے وہ عضر یہی دیتا ہے کہ
کیا فائدہ ۔ سرکاری ہسپتال مقتل گاہیں بنی ہوئی ہیں جہاں لوگوں سے اس رویے
سے پیش آتے ہیں جیسے یہ کوئی بڑا احسان کر رہے ہوں ۔ کرپشن کے زہر نے
معاشرے کو محتاج کر رکھا ہے ، ایسے میں جھموریت کے راگ کی کیا معنی ہیں ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کرپشن معاشرے کا ناسور ہوتی ہے ، اور ہمارے نظام
میں اس کی موجودگی اس قدر تو زیادہ ہے کہ اس کے تدارک کرنے کے لئے ایک
مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت پڑے گی ۔ سفارشی اور خوشامدی ماحول کو فرموش کرنے
سے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے ، اعتماد کی فضا کا بحال ہونا ادار وں کی مضبوطی
کا سبب ہوسکتا ہے ۔ ساتھ ہی جتنی بھی مافیاز ہیں اُن کی سرکوبی ضروری ہے ،
اس ضمن میں ایک مربوط قانون سازی کو ممکن بنا یا جائے اور انصاف کے تمام
تقاضے پورے کئے جائیں ۔
|
|