غداروں کی نسل
(Muhammad Saghir Qamar, )
یہ سرینگر کا اقبال پارک ہے ۔یہاں لاکھوں
لوگ جمع ہیں ‘ جوش و خروش کا عجب عالم ہے ۔اچانک ایک کہن سال آدمی سٹیج پر
نمودار ہوا اور جلسہ گاہ کی طرف دونوں ہاتھ لہرا کر اپنے ہی ہونٹوں سے چوم
لیے ۔ مجمعے پر پہلے ہی سحر طاری تھا ۔ اس ادا نے مجمعے کا جوش بڑھا دیا ۔
اس نے دونوں ہاتھ ایک مرتبہ پھر فضا میں بلند کیے اور گلے میں پڑے پھولوں
کے ہار نوچ کر ہجوم پر نچھاور کر دیے اور واپس اپنے ہاتھ چوم لیے ۔ اب تو
گویا جلسے میں آگ سی لگ گئی ۔ لوگ کھڑے ہو گئے ‘ غل سا مچ گیا ‘کان پڑی
آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ بس ایک ہی نعرہ تھا ‘ ایک ہی آواز سمجھ آ رہی تھی
۔
ال کرے وانگن کرے
شیخ کرے شیخ کرے
(شیخ چاہے ہمیں کدو بنائیں یا بینگن ہمارا سب کچھ شیخ کے حوالے )
ربع صدی تک اہل کشمیر شیخ عبداﷲ کے اسی سحر میں محسور رہے ۔ وہ ایک زمانہ
تھا جب شیخ عبداﷲ شیر کشمیر کہلاتے تھے ‘ آزادی کی آواز ‘ حریت کی آگ دلوں
میں لگانے والا خوش الحان قاری قرآن ۔ کون کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کے مقدر
میں میر جعفر اور میر صادق کی روحوں کو بھی شرمانا لکھا ہے ۔ ایک زمانہ تھا
جب انگریزوں نے کشمیر اور کشمیریوں کو ڈوگرہ راجے کے ہاتھ ۷۵ لاکھ نانک
شاہی سکوں کے عوض بیچا تھا …… پھر شیخ نے ایک کروڑ کشمیریوں کو بھارت کے بے
رحم بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا ۔یہ اہل کشمیر کی الم ناک تاریخ کا سیاہ ترین
باب ہے ۔ سادہ لوح اہل کشمیر شیخ کی خوب صورت آواز اور شخصیت کے جاود میں
مبتلا تھے ‘ ان کو شیخ کی خاطر بینگن اور کدو بننا قبول تھا …… کشمیریوں کو
شیخ عبداﷲ کی شکل چاند میں نظر آتی اور اس کا نام درختوں کے پتوں پر لکھا
نظر آتا تھا ۔ شیخ عبداﷲ کو خدا کا اوتار سمجھا جاتا تھا ۔ وہ لاکھوں
کشمیریوں کے دلوں کا حکمران تھا ۔
شیخ عبداﷲ کی طویل اداکاری میں لاکھوں ایسی ادائیں ہیں جن پر کشمیر کے نجیب
اور شائستہ لوگ قربان ہو تے چلے گئے ۔ شیخ عبداﷲ اپنی اس مقبولیت کا ذکر
کرتے خود نوشت میں رقم طراز ہیں :
’’ میں جب باہر نکلتا تھا تو کشمیر کی جوان لڑکیاں میرے راستے میں اپنے سر
رکھتی تھیں اور میری راہ میں اپنے بال بچھاتی تھیں تا کہ میں ان پر سے
گزروں ۔‘‘
اقبال پارک‘ لال چوک اور حضرت بل کے درجنوں جلسوں میں یہ ’’ اداکار قاری ‘‘
تلاوت کلام پاک کرتا تو لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ پھر وہ اپنے بیان کا
جادو جگاتا تو لوگ سرمستی میں سردھنستے اور نعرے لگاتے تھے ۔
شیخ کو لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھنا خوب آتا تھا …… وہ ان کی دکھتی رگ پر
ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا :
’’ پاکستان سے رشتہ کیا ؟ لا الہ الا اﷲ۔‘‘
وہ عوام کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا گر خوب جانتا تھا ۔ اپنی شیر وانی کی
جیب سے سبز رومال نکال کر لہراتا اور پوچھتا ‘ ’’ یہ سبز رومال تمہیں نظر آ
تا ہے ؟‘‘
’’ ہاں ……‘‘ میں جواب سن کر کہتا ……’’ میں اور میرا سب اس رومال پر قربان
۔‘‘ لوگ سبز رومال کو پاکستان کا جھنڈا سمجھتے اور شیخ کی اس جھنڈے سے محبت
دیکھ کر جذباتی ہو کر رو پڑتے ‘پھر وہ پکارتا۔
’’ لوگو ! ادھر دیکھو ‘ جس سے تمہیں محبت ہے ‘ مجھے اس سے عقیدت ہے ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ جیب سے نمک کی ڈلی نکالتا (کوہستان نمک کھیوڑہ کا نمک کشمیر
میں پاکستان کی علامت تصور ہوتا ہے ) اور پھر وہ بھرے مجمعے میں نمک چاٹنے
لگتا ۔ پاکستان کے عاشق زار کشمیری اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر بیک آواز پکارتے۔
سبز دستارس خدا چھی راضی
پاکستانک غازی آؤ
( سبز دستار سے اﷲ راضی ہے ۔پاکستانی غازی آ گیا ہے )
یہ نشہ نصف صدی کے بعد ٹوٹا ‘ شیر کی کھال اتری تو اندر سے تعفن پھیلاتا
گیدڑ برآمد ہوا ۔ اہل کشمیر نے جسے ٹوٹ کر چاہا تھا ‘ وہی اب ان کی نفرتوں
کا نشانہ بن گیا ۔۲۱ اگست ۱۹۸۱ء کو اپنی ساری اداکاری ‘ منافقت ‘ بد دیانتی
‘غداری اور سیاہ زندگی کا تاج اقبال پارک سری نگر میں اتار کر اپنے بیٹے
فاروق عبداﷲ کے سر پر رکھ گیا اور جاتے ہوئے کہہ گیا ۔
’’ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایسے بازی گروں کا انجام عبرت ناک ہوا
ہے ‘ جنہیں سیاست گردی اور مال و منال کے معیار پر بڑا ہوشیار خیال کیا
جاتاتھا۔خدا کی بار گاہ میں ایسے فریب کار جو سادہ عوام کے اعتماد سے کھل
کھیلیں رسوا و خوار تو ہو جائیں گے ہی لیکن اس دنیا میں بھی ان کا انجام
کچھ کم برا نہیں ہوتا ۔(۲۱ اگست اقبال پارک سری نگر )
اپنی ہی پیشن گوئی کے عین مطابق یہ مداری ۸ ستمبر ۱۹۸۲ء کو رسوا اور خوار
ہو کر اس دنیا سے چلا گیا ۔ نسیم باغ سری نگر کے پہلو میں اس کی قبر ہمیشہ
کے لیے عبرت کا نشان بن گئی ۔ کشمیر کے کوہ ودمن میں آزادی کے نعرے گونجے
تو بپھرے ہوئے کشمیری غدار عبداﷲ کی قبر کو اکھاڑنے کے درپے ہو گئے‘ وہی ان
کی غلامی کا سب سے بڑا ذمے دار تھا ۔ آج شیخ عبداﷲ کی قبر پر بھارتی فوج کا
پہرہ ہے ۔ ادھر اس کے اداکار بیٹے فاروق عبداﷲ نے کشمیریوں کو بھر پور
دھوکہ دینے اور بھارت کو خوب بلیک میل کرنے کے بعد گندگی کا تاج اپنے بیٹے
عمر عبداﷲ کے سر پرسجایا تو عمر عبداﷲ نے یہ تاج پہنتے ہی چیخ کر کہا تھا۔
’’ جس بھارت کے لیے میرے دادا اور باپ نے قربانیاں دیں ‘ آج وہی بھارت اور
اس کے حکمران ہمیں حقیر جانتے ہیں اور ہماری حیثیت اتنی بھی نہیں جتنی ان
کے کتوں کی ہے ۔‘‘ غداروں کی نسل کا سردار فاروق عبداﷲ پھر سے کسی نئی چال
کے لیے تیار ہے ۔بی بی سی کے مطابق ’’اس نے نیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس
میں بھارت کو علیحدگی پسند ہونے کا تاثر دیتے ہوئے حریت کانفرنس کے لیے نرم
لہجے کا استعمال کیا ہے۔ مداری نے اپنی مداری سے چند چندپہلے بھارت سے کہا
تھا کہ وہ پاکستان کو طاقت سے ڈرا نہیں سکتا اور یہ کہ کشمیر کا مسئلہ
اقوام متحدہ میں ۱۹۴۸ء سے موجود ہے ۔جس کا حل بھارت کو نکالنا چاہیے۔ فاروق
عبداﷲ کہتے ہیں کہ اگر حریت کانفرنس حق کی بات کرے تو میں اس کے ساتھ ہوں۔‘‘
غداروں کی نسل کا یہ مہرہ اب کسی نئی چال کی تلاش میں ہے ؟ حریت کانفرنس کے
قائدین کو خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں غدار ان کی صفوں میں تو نہیں گھس آئے۔
سترسال کا عرصہ بیت گیا کشمیر میں غداروں کا کھیل جاری ہے ۔ ایک طرف معصوم
کشمیری ہیں اور ان کی بے مثل جدوجہد اور دوسری طرف یہ ٹولہ …… ایک طے شدہ
فطری اصول کے مطابق یہ معرکہ سرعت کے ساتھ انجام پذیر ہوا چاہتا ہے ۔ آج
پھر کچھ مفاد پرست کشمیریوں کے اندر سے شیخ عبداﷲ کے جانشین تلاش کرنے میں
مصروف ہیں ۔ اب یہ اہل جموں و کشمیر کی بصیرت اور بصارت کا امتحان ہے کہ وہ
اپنی صفوں کو منظم کر کے غداروں کا راستہ روکتے ہیں یا پھر اگلی صدی تک کسی
اور ’’ شیخ عبداﷲ ‘‘ کے سحر میں مبتلا ہونے کو تیار ہیں ۔ |
|