پاک فوج کی تقرریاں جو کہ کافی عرصہ سے زیر
بحث تھیں وہ با لآخر کشمکشوں اور واہموں سے نکل کر اپنے انجام کو پہنچ چکی
ہیں وزیرا عظم نواز شریف نے جنرل قمر باجوہ کو بری فوج کا نیا سپاہ
سالاراور جنرل محمود حیات کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا
ہے‘اور پاکستان کے تمام اعلیٰ عہدے داران ، صحافتی ،تجارتی،کاروباری اور
سیاسی برادری نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی ہے کہ
دونوں عہدے داران ملک و قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے اس میں کوئی دورائے
نہیں کہ سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنے ارادوں اور فیصلوں میں مضبوط
نکلے ہیں ۔وطن عزیز نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعدیہ ایک ایسا جری اور
با اصول شخص دیکھا ہے جوکہ ایک طرف تو عوام کے دلوں پر راج کرتا رہا‘ کہ
بچہ بچہ ان کے نام اور کارناموں سے پرفدا تھا اور دوسری طرف ہمسایہ دشمن ان
کے نام سے کانپتے تھے ۔جہاں وہ جاہ و جلال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے
وہاں انکی باوقار اور با رعب شخصیت بھی تمام دنیا کی افواج کے سربراہان پر
بھاری تھی۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں وزرا ،سربراہان
،عہدے داران اورانکے محکمہ جات کے نام اکثر عوام کو کم ہی آتے ہیں سوائے
چند پڑھے لکھے افراد کے کہ جو خبروں میں دلچسپی رکھتے ہوں مگر یہ کریڈیٹ
جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے کہ ان کا نام تاریخ کے اوراق کھولنے کا محتاج
نہیں ہوگا ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے اکثر مبصرین اور تجزیہ نگار جمہوریت
کے ڈی ریل ہونے کا عندیہ دیتے رہے مگر جنرل راحیل شریف نے سیاست کے کیچڑ
میں کودنا مناسب نہ سمجھا حالانکہ اقتدارانکے قدموں میں تھامگر ٹھکرا دیا
جبکہ عوام کی ایک بڑی تعداد سمیت اکژکو آخری دن تک امید تھی کہ یا تو ان کی
مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے گی یا وہ بالآخر عوامی سطح میں کوئی قدم
اٹھا لیں گے مگر وقت کی گھڑیوں نے دیکھا کہ انھوں نے جو کہا وہ پورا کر
دکھایا اور مقررہ وقت پر با عزت رخصت ہوگئے یہی وجہ تھی کہ آخری ملاقات میں
جناب وزیراعظم کی خوشی دیدنی تھی کہ جیسے کوئی ملک فتح کر لیا گیا ہو ویسے
وزیراعظم نواز شریف پاک فوج کے پانچ سربراہوں کی تقرری کر کے ایک منفرد اور
قومی ا عزاز کے بھی مالک بن گئے ہیں اورایک ماہ تک جناب چیف جسٹس بھی
ریٹائر ڈ ہو رہے ہیں بلاشبہ آپ ہر طرح سے اپنے ارادوں میں فاتح ٹھہرے ہیں
مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ بھی دلوں کو فتح کرتے کہ فاتح کی آزمائش اور
امتحان بڑھ جاتے ہیں شاید یہی سبب تھا کہ عسکری تقرری کے دو دن بعد ہی
سیاسی تقرریاں بھی کرنا پڑی ہیں اور مزید برآں دوسرے محکموں میں بھی عہدے
بانٹے گئے ہیں ،آج کل نوازنے کا موسم ہے مگریہ دریا دلی بھی وفاداران اور
قرابت داران تک محدود ہے کہ گھاٹے کا سودا تو کاروباری حضرات نے کبھی کیا
ہی نہیں ہے -
تاہم پنجاب کابینہ میں 11نئے وزرا ء کی تعیناتی بھی کئی سوال اٹھا چکی ہے
کہ ان سب کی ملک و قوم کے لیے کیا خدمات تھیں اور ان کو دئیے گئے عہدوں میں
کس کی کیا اہلیت تھی ؟ کیا یہ تعیناتیا ں صرف بوجھ نہیں ہونگی ؟ کیا یہ بھی
ویسا ہی فیصلہ ہے جیسا کہ وزیراعلیٰ سندھ کی تعیناتی میں سامنے آیا تھا یا
مستقبل کو مضبوط کرنے کی طرف اک اور قدم ہے ؟ اگر یہ عوامی مفاد میں ہے تو
پہلے وزرا کی کار کردگیاں بھی سامنے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ نئے اور
متعلقہ شعبوں میں کہنہ مشق لوگ سامنے لائے جاتے چہ جائیکہ ان پر چیک اینڈ
بیلنس رکھنا بھی آسان نہیں ہوگا بلاشبہ ان سوالات کا جواب سبھی جاننا چاہتے
ہیں مگر جواب تو صرف آنے والا وقت ہی دیگا۔ چہ جائیکہ وزارت مذہبی امور کی
تقرری پر پورا ملک اور اکثرجید علمائے کرام بھی ششدر رہ گئے ہیں کیونکہ
بیدار میڈیا باطن چھپنے نہیں دیتا ‘چاہے اس افراتفری میں اپنا ظاہر ہی کیوں
نہ سامنے آجائے۔ آج ہی کی مثال لے لیں کہ کالم لکھنے کے لیے قلم تھاما ہی
تھا کہ موبائیل بیل بجی ،واٹس ایپ میسج تھا ،کھولتے ہی ایک روح فرسا منظر
نے حیرت میں ڈال دیا کہ ایک آدمی آگ میں جل رہا تھا اور ٹی وی کیمرہ مین اس
کی ویڈیو بنا رہا تھا اور جب تک وہ گر نہیں گیا وہ ویڈیو بناتا رہا اور
کیمرہ میں تصاویر لیتا رہانیچے عبارت میں درج تھا کہ ملتان میں’’ بیروزگار‘‘
شخص نے خود سوزی کی کوشش کی ہے اس منظر کو دیکھتے ہی خیال آیا کہ پاکستانی
جمہوریت کی تصویر کشی پاکستانی صحافت کی نظر سے ۔۔!وہ بھوک اور ننگ سے
مجبور تھا جبکہ ٹی وی رپورٹرانسانی جزبات سے عاری مگر اپنے پیشے سے وفادار
تھا اور بچا کیمرہ مین تو اس نے شاید سن رکھا تھا ’’کہ اے مصور تجھے استاد
میں مانوں گا ۔۔درد بھی کھینچ لے میری تصویر کے ساتھ ‘‘۔بلاشبہ مسئلہ
اخلاقی تربیت کا ہے اس بے ہنگم ،مفاد پرست ،ناعاقبت اندیش معاشرے کو تربیت
کی ضرورت ہے جبکہ وہ مخلص دینی اور دنیوی اساتذہ ہی کر سکتے ہیں جو کہ
اکثریتی طور پر اپنا فرض بھلا چکے ہیں ۔بریں سبب احساس زیاں سے عاری ،انتہا
پسند معاشرہ ہمیں منہ چڑا رہا ہے اور کسی کو فکر بھی نہیں ہے کہ اکثر ہی سب
خواہشات کے سمندر میں تیر رہے ہیں ہمارا وطن عزیز ہمیشہ سے ہی مفاد پرست ،ابن
الوقت اورا بوالہوس سیاستدانوں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا ہے تاریخ کے
اوراق کو پلٹیں یا موجودہ حکمرانوں کی بابت تذکرہ ہو مجھے تو ہمیشہ وہ فقیر
یادآتا ہے جس کا کاسہ بھرنے کا نام نہیں لیتا تھا جبکہ اس میں بادشاہ وقت
نے پورا ملکی خزانہ ڈال دیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ بہت خوش تھاکہ فقیر آگیا ،بادشاہ نے فقیر سے خوش
ہو کر کہا ـ’’مانگو کیا مانگتے ہو ‘‘؟فقیر نے کہا ’’بس میرا یہ کاسہ بھر
دیجئے ،مجھے اور کچھ نہیں چاہیئے ‘‘بادشاہ ہنسا اور کہنے لگا ’’بس ۔۔۔‘‘
پھر اس نے اپنے سارے پہنے ہوئے جواہرات کاسے میں ڈال دئیے ،مگر کاسہ نہ
بھرا ۔۔بادشاہ بڑا حیران ہوا ،مگر یہ اس کی عزت کا معاملہ تھا ،اس نے
وزیروں کو بھی حکم دیا ،وہاں موجود سارے وزیروں اور درباریوں نے اپنے اپنے
جواہرات اتار کر کاسے میں ڈالے مگر کاسہ پھر بھی نہ بھرا ۔اب بادشاہ نے
خزانے کا منہ کھول دیا ،سلطنت کا سارا خزانہ کاسے میں ڈال دیا مگر کاسہ پھر
بھی نہ بھرا ۔فقیر مسکراتے ہوئے واپس جانے لگا ،بادشاہ ہاتھ باندھ کر کھڑا
ہوگیا اور یوں گویا ہوا ،میاں صاحب ! بس اتنا بتادیں کہ یہ پیالہ ہے یا
کونسی چیزہے ؟فقیر نے جواب دیا :’’بادشاہ سلامت ! یہ خواہشات کا پیالہ ہے
اسے قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر نام کے مسلمان ہیں اور مقابلہ ہم ترقی
یافتہ اقوام سے کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم کھلے عام کرپشن بھی کرتے ہیں ،بے
حساب اور ناجائز تنخواہیں بھی لیتے ہیں لیکن تساہل پسندی اورغیر ذمہ دارانہ
غفلتوں کی کوئی حد ہی نہیں ہے اس پر طرہ یہ کہ اضافی مفادات کا تو حساب ہی
الگ ہے۔ پھر دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف کا تو شمار ہی نہیں ہے یعنیـ’’
بدلے‘‘ میں دئیے گئے تحائف کا بھی شمار نہیں ہوگا! حالانکہ مقروض اور غریب
ملک کے شہری ہیں جبکہ امریکہ میں یہ قانون ہے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو
ملنے والے تحائف اس کی نہیں بلکہ قوم کی امانت ہوتے ہیں اگر حکومتی عہدیدار
ان ان تحائف میں سے کوئی چیز رکھنا چاہیں تو انھیں اس کی موجودہ قیمت کے
مطابق حکومت کورقم ادا کرنا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما
نے تمام تحائف جو کہ بیش قیمت اور نایاب تھے سبھی قومی خزانے میں جمع
کروادئیے تھے یعنی وہ تحائف بھی ملک و قوم پر ہی لگتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں
آئین کی عملداری چونکہ صرف غریب عوام تک محدود ہے اس لیے وفاداریاں تبدیل
کرنے کا رحجان عروج پر ہے سیاسی اکابرین کسی بھی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں
ترجیح بر سر اقتدار پارٹی کو دی جاتی ہے احتساب کرنے والا کوئی ہے نہیں کہ
جو پوچھے کہ اتحاد کیوں ٹوٹا ہے؟ بس سبھی مل بانٹ کر کھاتے ہیں اپنی اپنی
جیبیں بھرتے ہیں اورمنظر سے غائب ہو جاتے ہیں ۔دکھاوا یہ کہ گلے میں کاسے
لٹکائے ملکوں ملکوں پھرتے ہیں جو کہ درحقیقت خواہشات کے کاسے ہیں جو کبھی
نہیں بھر سکتے اور جس کے بوجھ تلے ملک دھبتا چلا جا رہاہے ۔
انہی کرم نوازیوں کی بدولت آج ملک کو اندرون اور بیرون بہت سے چیلنجز کا
سامنا ہے ضرب عضب سے کسی حد تک دہشت گردی کی کمر ٹوٹ چکی ہے مگر ابھی خطرات
ٹلے نہیں ہیں اور ضرب عضب تاحال جاری ہے اسی طرح بھارت جیسے انتہا
پسند،افغانستان ،اور ایران جیسے نادان ممالک سے بھی خطرات سے انحراف ممکن
نہیں ہے سب سے اہم یہ کہ بھارت کی جارحیت ، اشتعال انگیزیاں اور لائین آف
کنٹرول کی خلاف ورزیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں جو کہ کسی امتحان سے کم
نہیں ہیں اس لیے پائیدار امن کے قیام کے لیے مشکل فیصلوں کی بھی ضرورت ہوگی
تاہم بھارت کے سابق آرمی چیف نے اپنی افواج کو جو تنبیہ کی ہے وہ خوش آئیند
ہے کہ جنرل قمر باجوہ سے پنگا نہ لینا کیونکہ ان کی زیادہ تر پوسٹنگ آزاد
کشمیر میں رہی ہے اور وہ ایک دلیر ،حب الوطن اور جانثارجنرل ہیں جو کہ
دشمنوں کو چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جناب جنرل باجوہ کی
صلاحیتیں اور خصوصیات مثالی ہیں انھوں نے 1980 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل
کیا آرمی چیف بننے سے قبل وہ بطور آئی جی ٹریننگ اینڈ ایویلیوشن کام کر رہے
تھے جبکہ جنرل زبیر امریکہ اور برطانیہ کے کالجوں سے فارغ التحصیل ہیں باقی
فوج کی ایک ہی پالیسی ہوتی ہے اور یقینا جنرل قمر باجوہ اسی پالیسی کو لے
کر آگے بڑھیں گے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تقرریاں
ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جبکہ ملک کئی بحرانوں سے دوچار ہے -
بہرحال اب جبکہ آرمی چیف اور چئیرمین جوائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا تقرر
کر دیا گیا ہے تو ہمیں نا صرف امید ہے بلکہ ہماری دعا بھی ہے کہ یہ ملک و
قوم کے مفاد میں ہوگا اور ہمارے عسکری سربراہان اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں
سے کام لیتے ہوئے اس عزم کے ساتھ کہ ملک و قوم کے دفاع میں کسی بھی قربانی
سے دریغ نہیں کریں گے لازوال قیادت اور بے مثال کار کردگی کی مثال چھوڑیں
گے کہ جناب راحیل شریف نے اپنی بے مثال کارکردگی سے عوام کے دلوں میں گھر
کیا ہے۔ ہاں ۔۔غریب اور مظلوم عوام میں سے اکثر نے امیدیں باندھ لی تھیں کہ
لطف امین شبلی مزدور راہنما بھی کراچی پریس کلب کے باہر دم توڑ گیا ہے جو
کہ تین ہفتوں سے بھوک ہڑتال پر تھاکہ اگر راحیل شریف کو توسیع نہ دی گئی تو
وہ مر جائے گا ۔سوال یہ ہے کہ اگر وہ بیوقوف تھا تو کیا اس ملک کا کوئی بھی
عقلمندا یسا نہ تھا جو اس کے مسئلے کا حل کرتا۔خطے میں پاکستان کے حالات کے
پیش نظر جناب جنرل باجوہ کو عوام کی بے لوث اور محبتوں بھری چاہت کو پانے
کے لیے جناب جنرل راحیل شریف کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا اور دشمنوں کو یوں
للکارنا ہوگا کہ بھارت جیسے دشمن کے عزائم خاک میں مل جائیں بلاشبہ پاک فوج
کا ہر جوان شوق شہادت کے جذبات سے لبریز بلند ہمت ،مہم جو اور دلیر ہے اور
ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اورجناب چیف صاحب اسی فوج کا حصہ ہیں
یقینا وہ رشکِ قمرہیں کہ ظلم و دہشت کی تاریکی کو اپنی جرات کی روشنی سے
مٹائیں گے اور دہشت گردوں کی کمر بھی توڑیں گے لیکن یہ تب ممکن ہے جبکہ
اندرون خانہ بھی حالات سازگار ہوں سیاسی بحرانوں کا حل نکلے اور عوامی
مسائل ترجیحاتی بنیادوں پر حل کئے جائیں امید ہے کہ جو لوگ ایوانوں میں
اعلیٰ عہدوں پر بیٹھیں ہیں وہ بھی پرانی روش اور تجاہل پسندی چھوڑ کر جزبہ
خدمت لیکرمحنت اور خلوص دل سے کام کریں گے کیونکہ جب تک اغراض سے پاک
پرخلوص حکمت عملیاں نہیں ہونگی تب تک غربت اور تنگ دستی دور نہیں ہوگی اور
مفلوک الحال معاشرے میں بہتری کی توقع کرنا بے سود ہے۔ |