انقلاب؟

 آڈیٹوریم عالیشان تھا، تقریب پُر وقارتھی اور موسم دلکش ۔ اندر اور باہر کاماحول خوبصورت تھا، سکیورٹی کا فول پروف اہتمام تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ یہ تقریب ’’پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ‘‘ کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ کے خطاب نے حسبِ روایت سماں باندھ دیا، غریب اور مستحق بچوں کو تعلیمی فنڈز دینے کے حوالے سے اظہارِ خیال ہوا تو آنکھیں دھندلانے لگیں۔ تقریب کے تمام شرکا بھی چونکہ خود کو خاص مہمان تصور کئے ہوئے تھے، اس لئے ماحول کا خمار ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ انتہائی متاثر کن پروگرام تو اپنے انجام کو پہنچ گیا، کہ حالات جس قدر بھی دلربا کیوں نہ ہوں، دل جتنا بھی خواہش کرے وقت کبھی رکتا نہیں۔ تقریب کے دوران الفاظ کی تاثیر ساتھ لئے سب وہاں سے روانہ ہوگئے۔ مگر جذبات کی تمام تر اثر انگیزی ایک طرف اور دل میں اٹک جانے والی کانٹے کی نوک ایک طرف۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو شعروادب سے بھی شغف ہے، باتوں میں ادبی چاشنی بھی ہوتی ہے اور جب ان میں آپ بیتی کا رنگ بھی ہو تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔ ان کی کارکردگی کی سند بیرونِ ملک سے بھی آنے لگی ہے، اپنے پرائے ان کے متحرک ہونے کی عاد ت کے قائل ہیں۔
جب وزیراعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں، تو انسان دل گرفتہ ہو جاتا ہے، وہ حکمرانی کی ہر ادا کو جانتے ہیں، وہ ایسی باتیں بھی بیان کرتے ہیں جو ہونی چاہئیں، مگر نہیں ہوتیں، ان باتوں پر انہیں بھی افسوس ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کی باتوں پر سننے والوں کو بھی افسوس ہوتا ہے۔ حقیقت اور تخیل میں تضاد ہے۔ اگر ستّر برس سے ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، اور اس اشرافیہ نے ہی ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہونے دیا، تو اس میں خود میاں برادران کا کتنا حصہ ہے، اس کے بارے میں انہوں نے کبھی قوم کو آگاہ نہیں کیا۔ وہ ہر وقت اشرافیہ کے خلاف جذبات کا اظہار کرتے ہیں، مگر عوام نہیں جان سکے کہ اشرافیہ سے وزیراعلیٰ کی کیا مراد ہے؟ ورنہ عام معانوں میں موجودہ حکمران بھی اشرافیہ کی سب سے اعلیٰ قسم میں شامل ہیں۔ موجودہ حکمران مختلف وقفوں سے مرکز اور پنجاب پر تقریباً بیس برس سے حکومت کر رہے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ستر برس میں غریب اور امیر کی خلیج میں انہوں نے خود کتنی کمی کی ہے؟ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ ’اشرافیہ نے اپنی تقدیر تو بدل لی، مگر قوم کی تقدیر نہ بدلی جاسکی‘۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ہر حکمران دعویٰ یہی کرتا ہے کہ میں تو عوام کا سب سے بڑا خیر خواہ ہوں، ہم سے پہلے آنے والوں نے کچھ نہیں کیا، سوائے خزانہ لوٹنے کے، چنانچہ اب خزانہ خالی ہے۔

’پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ ‘ شہباز شریف کا 2008میں دیکھا ہوا خواب ہے، اب جس میں رنگ بھرا جارہا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ’’ اب ڈیڑھ لاکھ بچے اور بچیاں اس سکالر شپ سے مستفید ہو رہے ہیں، جبکہ سال کے آخر تک ان کی تعداد دولاکھ تک پہنچ جائے گی، اس مد میں سترہ ارب روپے خرچ ہونگے۔ اگر یہ کام ستر برس قبل شروع ہو جاتا تو اب کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہوتا․․‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سترہ ارب کی بجائے ستّر ارب بھی اس مد میں خرچ ہو جائے تو ملک میں شرح خواندگی پر ایک فیصد بھی فرق نہیں پڑے گا ، کیونکہ یہ فنڈ اُن بچوں کو مل رہا ہے جو سکولوں ، کالجوں میں زیر تعلیم ہیں اور بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ اچھی کارکردگی کے حامل بچوں کی حوصلہ افزائی نہایت ضروری اور قابلِ تحسین قدم ہے، مگر جو بچے سکولوں سے باہر ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، اس وقت صرف پنجا ب میں اسّی لاکھ بچہ سکولوں سے باہر ہے، جو یا تو کچرا چُن رہا ہے، یا آوارہ گردی کر رہا ہے، یا پھر جرم کی دنیا میں قدم رکھ کر معاشرے کا ناسور بن رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس کے لئے خزانے کے منہ کھولنا اس وقت ظلم کی صورت اختیار کر جاتا ہے، جب لاکھوں بچے ایک نعمت سے محروم ہوں ۔ کچھ یہی عالم لیپ ٹاپ کی تقسیم کا ہے، حکومت اربوں روپے اس پر خرچ کر چکی ہے، ابھی کر رہی ہے، مگر شرح خواندگی میں لیپ ٹاپ سے بھی ایک ذرہ جتنا اضافہ ممکن نہیں۔ کچھ فنڈ دے کر غریب بچوں کو جذبات بھڑکانے کے لئے تو استعمال کر لیا جاتا ہے۔ دانش سکولوں کے چند ہزار بچوں یا پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ لینے والے ڈیڑھ لاکھ بچوں کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے، مگر وہ اسّی لاکھ جن کے مقدرمیں سکول کا دروازے میں قدم رکھنا بھی نہیں، اُن کے جذبات سے کون آگاہی حاصل کرے گا؟ انقلاب ایک یا دو لاکھ بچے لائیں گے؟ جو تعلیم تو حاصل کر ہی رہے ہیں، اُن اٹھہتر ہزار بچوں کا اس انقلاب میں کیا کردار ہوگا ، ان پڑھ رہنا ہی جن کا مقدر ہے۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ سے توپنجاب حکومت کا ایک اور ادارہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہزار درجے بہتر ہے، جولاکھوں غریب بچوں کو مفت تعلیم کا بندوبست کرتا ہے۔

وزیراعلیٰ نے سعودی عرب کے ڈرائیور اور برطانیہ کے ہیئر ڈریسر کی مثال دی، جن کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، کیونکہ وہاں کی حکومتیں مفت تعلیم کی ذمہ دار ہیں۔ تو کیا آپ نے پاکستان کے سب سے بڑے اور باوسیلہ صوبہ کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے سکولوں سے باہر بچوں کو سکول میں لانے کی کوئی کوشش کی؟ سوائے چند روز بھٹہ جات پر سختی کرنے کے۔ شہروں میں کونسی جگہ ہے جہاں بچے سکول جانے کی بجائے ورکشاپوں، ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر محنت مزدوری کے لئے نہیں جاتے۔ ان کو روکنے کے لئے قانون تو موجود ہے، مگر عمل کوئی نہیں۔ تعلیمی ماحول میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو بھی انہوں نے یاد کیا اور بتایا کہ’’ سابق ڈکٹیٹر اربوں روپے لے کر چلا گیا، جب راز کھلا تو شرمندگی سے کہا کہ مجھے شاہ نے رقم دی‘‘۔ اب بھلا اپنے حکمرانوں سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جناب ساڑھے تین برس سے آپ ملک کے مضبوط اور مقبول حکمران ہیں، مشرف سے رقم کی وصولی کس کے ذمہ تھی ، یا ہے؟ برطانیہ کے بارے میں یوں گویا ہوئے،’’․․․ برطانیہ کا سوشل ویلفیئر نظام اسلام کی عظیم، پاکیزہ اور درخشندہ تعلیمات کی بنیادوں پر استوار ہے، اجتماعی سماجی اور معاشی عدل اور شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے ایک مثالی نظام ہے․․‘‘۔ جواب بھی خود ہی دے دیا، ’’ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی، جس کی وجہ سے پاکستان اسلامک ویلفیئر سٹیٹ نہیں بن سکا․․‘‘۔ دراصل حکمرانوں کی اپنی ترجیحات ہیں، وہ جانتے سب کچھ ہیں، کرتے اپنی مرضی ہیں۔ جن بچوں کی اب تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہے، وہ ہمیشہ کے لئے اس نعمت سے محروم ہوگئے۔ میٹرو،میگا پروجیکٹس، مراعات، پروٹوکول پر کروڑوں کے اخراجات وغیرہ جیسے معاملات کو کچھ عرصہ موخر کر کے سکولوں کی حالت بہتر کردیجئے، تعلیم کو عام اور مفت کردیجئے، جب یہ(پاکستان بھر میں کروڑوں) ننگ دھڑنگ، گندے،میلے بچے سکولوں میں جانا شروع ہو جائیں گے، چند ہی برس میں انقلاب خود آجائے گا، ورنہ جیسی کاروائیاں ہو رہی ہیں، ان سے انقلاب صدیوں تک نہیں آسکتا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473327 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.