خبری خبر نہ دے؟
(Syed Shahid Abbas, Rawalpindi)
خبری اور ہرکارہ دونوں کا کام خبر دینا اور
پکار بلند کرنا ہوتا تھا۔ خبری چپ چپیتے خبر دے دیتا تھا جب کہ ہرکارہ نہ
صرف خبر دیتا تھا بلکہ کوشش کرتا تھا کہ خبر کو وسیع پیمانے پر ایسے
پھیلانے کا انتظام بھی کرئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی اطلاع مل
جائے۔ بظاہر دونو ں کا کردار ملتا جلتا تھا بس کام کی نوعیت کے حساب سے اس
میں تھوڑی بہت ترامیم کر دی گئی تھیں۔ اہمیت بہر حال خبری کی اپنی جگہ مسلم
رہی کہ اس کا بنیادی کام خبر ڈھونڈ کر نکالنا تھا۔ اور ہرکارے کا کام تو
صرف اور صرف اس کو پھیلنا تھا۔ پاکستان میں بھی آج کل دلچسپ صورت حال پیدا
ہو چکی ہے۔ یہاں خبری اور ہرکارہ دونوں زیر عتاب ہیں۔ اور نزلہ دونوں پہ نہ
صرف گر رہا ہے بلکہ اس کا خمیازہ مزدور طبقے کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اسی تیزی سے تنزلی بھی کی ہے۔
چمک دھمک سے مزین سکرینیں کھوکھلا درخت ثابت ہو رہی ہے۔ بہت چند چینلز ایسے
ہیں جن کی شہرت اس حوالے سے داغدار نہیں ہے کہ وہ وقت پر تنخواہیں ادا نہیں
کرتے۔ ورنہ کم و بیش اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں کے مصداق تمام ہی میڈیا
گروپس تنخواہوں کے معاملے میں کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ چوہدراہٹ صرف ایک ضرب
المثل ہی نہیں بلکہ عملاً نافذ بھی ہے۔ چوہدری کا صرف ایک خبری بھی تھا اور
ہرکارہ بھی ۔ پورا گاؤں اس پہ ہی انحصار کرتا تھا۔ یعنی کہ سرکاری ٹی وی۔
یہ خبری خبر بھی اپنی مرضی سے لاتا تھا۔ اور ہرکارہ اطلاع بھی اپنی مرضی سے
ہی عوام تک پہنچاتا تھا۔ اور نیرو چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ کسی قسم کا
ہنگامہ نہیں تھا کسی قسم کی دھکم پیل نہیں تھی۔ نہ ہی پھٹے پہ پھٹہ چلتا
تھا نہ ہی فشوں، شوں، شاں کی آوازیں ٹیلی ویژن اسکرین پہ ابھرتی تھیں۔ پھر
ایک نئے چوہدری صاحب آئے انہوں نے دنیا کے روشن خیالی کے دستر خوان سے پلیٹ
اٹھائی تو اس میں رنگ برنگی اسکرینیں جگمگا رہی تھیں۔ اور برفیاں، رس گلے،
قلاقند بھی رال بہنے کا باعث بن رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ جب دنیا نے اتنی
ترقی کر لی تو ہم کیوں پیچھے رہیں۔ لہذا انہوں نے اکلوتے خبری سے ذمہ
داریوں کا بوجھ کم کرنے کے کے لیے مزید کئی خبری گاؤں(پاکستان) میں رکھ
لیے۔ یا یوں کہہ لیں کہ خبریوں کو ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت دے دی( اور
ایک طالبعلم کی حیثیت سے آج بھی اُن کے اس اقدام کو میڈیا کے لیے اچھا خیال
کرتا ہوں) ۔ اور یوں خبریوں یعنی پرائیویٹ نیوز و انٹرٹینمنٹ چینلز کا ایک
جال سا بن گیا۔جب خبری کچھ آزاد ہوئے تو چوہدراہٹ خطرے میں پڑتی ہوئی محسوس
ہونے لگی ، چوہدراہٹ کے خاتمے کے لیے بھی ایک پنچائیت بنائی گئی یعنی کہ
پیمرا، مگر شومئی قسمت کہ پنچائیت یکطرفہ ہو گئی اور اس کی کاروائیاں بھی
یکطرفہ ہوتی گئیں۔
پنچائیت یعنی پیمرا کی تازہ ترین کاروائی نیو ٹی وی جیسے مضبوط چینل کو
نشانہ بنانا ہے۔ نشانہ بنانا اس لیے کہ اگر اس کے کسی ایک اینکر، کسی ایک
پروگرام، کسی ایک شخصیت، یا کسی فقرے، جملے، پیراگراف، ٹائم سلاٹ سے کسی
بھی قسم کا کوئی مسلہ تھا تو اس کی پاداش میں اس طرح پورے چینل کو بند کر
دینا کسی بھی طرح سے انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ پیمرا کی لاٹھی نے یہ دیکھنا
بھی گوارا نہیں کیا کہ کتنے چولہے بند ہو جائیں گے۔ ہر شخص چینل میں ایسا
اینکر ہی نہیں ہوتا کہ لاکھوں میں تنخواہ لے۔ بلکہ وہاں ایک مالی، چوکیدار،
خانساماں سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک بہت سے لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور
پاکستان میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے چینلز پہلے ہی جس طرح اب ملازمین کو
تنخواہ کے لیے رول رہے ہیں ان حالات میں ایک چینلز جو اپنے ملازمین کا خیال
رکھ رہا اس پہ اس طرح کی قدغن لگانا ہرگز بھی قابل توجیح نہیں ہے۔ جن لوگوں
کو خوش فہمی تھی کہ ایک صحافی پیمرا کا چیئرمین بن جانے سے نہ صرف صحافیوں
کی مشکلات حل ہوں گی بلکہ چینلز کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ مگر اس وقت بھی
راقم کا خیال تھا اورآج بھی ہے کہ جب تک عہدے اندھے کی ریوڑیوں کی طرح
بانٹے جا تے رہیں گے تب تک صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ نیو ٹی وی کے بارے
میں ایک تاثر یہ تھا کہ ملازمین کو وقت پہ معاوضے اور سہولیات ملتی ہیں۔
مگر پیمرا کی لاٹھی کی زد میں بھلا ملازمین کا مفاد کیوں کر بچ سکتا ہے۔
نیو ٹی وی ہو یا دن نیوز یا کوئی بھی اور میڈیا چینل ، پیمرا کے ارباب
اختیار سے صرف اتنی سی گذارش ہے کہ بطور مجموعی تو آپ کو نشان جرات عطا
کرنا چاہے ان چینلز کو کہ تمام عالمی خطرناک جائزوں اور تجزیوں کے باوجود
یہ اس جانفشانی سے ناؤ گھسیٹ رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ریاست کا چوتھا سکون
ہے مگر جس طرح نیو ٹی وی پر حالیہ اور ماضی میں چینلز پر پابندی لگتی رہی
ہے اس سے تو یہ کوئی ستون بھی محسوس نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا کو
وہ لے پالک بیٹا مان لیا گیا ہے جو اپنے سائبان کے بعد بے یارو مددگار ہو
گیاہے۔ خدارا اپنے فیصلوں سے صرف ایک پروگرام ، شخصیت، یا مخصوص ٹائم سلاٹ
پر پابندی لگائیں، مگر لوگوں کے چولہے بند نہ کیجیے۔
خبری جب اکیلا تھا تو اختیارات بھی اسی کے پاس تھے۔ جب خبری زیادہ ہو گئے
ہیں تو اب کچھ برداشت کا مادہ بھی پیدا کیجیے۔اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ
آپ کا من چاہا خبری ہی خبر دے اور باقی خبریں منہ پہ مفاد ، آنکھوں پہ غرض
کی پٹی باندھے خاموش بیٹھے رہیں۔ خبری کا کام خبر دینا ہے تو کیا آپ چاہتے
ہیں ایک کے علاوہ باقی خبری خبر بھی نہ دیں؟ توصیف قبولنے کی روایت تو
پرانی ہے مگر ذرا تنقید کو قبولیت کی سند دینے کی روایت بھی اپنا لیجیے۔ اﷲ
آپ کو مزید بہتر فیصلوں کی توفیق دے۔ |
|