سقوط ڈھاکہ

 ترک خلافت اسلامیہ کو توڑ کرمال غنیمت کی طرح انھوں نے اسے آپس میں بانٹ دیا ۔پاکستان کے خلاف بھی یہی ذہنیت کام کرتی رہی ہے۔اسی ذہنیت نے14؍ اگست 1947ء کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دنیا کی واحد اسلامی مملکت کو 25سال بعد 16؍دسمبر 1971ء کودو لخت کر دیا ۔آج بھارت کا وزیر داخلہ دریائے راوی پر کھڑا ہو کر دھمکی دے رہا ہے کہ بھارت پاکستان کو 10ٹکڑوں میں تقسیم کر دے گا۔ راج ناتھ سنگھ پہلے بی جے پی کے صدر تھے۔ اب وزیر داخلہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کٹھوعہ میں کل یہ دھمکی دے رہے تھے۔ کھٹوعہ ہندو اکثریتی ضلع ہے۔ یہاں قریب سے دریائے راوی بہتا ہے۔وہ دریائے راوی جس پر لاہور میں کبھی کشتیاں چلتی تھیں، آج وہاں ریت ہے۔ دریا کا رخ بھارت نے موڑ لیا۔ اسی کٹھوعہ سے بھارت نہرین نکال کر امرتسر اور گورداسپور کو سیراب کر رہا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کے زخم اس بار ایک بار پھر ایسے موقع پر تازہ ہو رہے ہیں جب بھارت ملک توڑنے کی دھمکیاں ہی نہیں دے رہا بلکہ یہ دلچسپ پیشکش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی ختم کرنے کے لئے بھارت مدد کر سکتا ہے۔ یہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارتی ہاتھ کا اعتراف ہے۔بھارتی سلیپر سیلز کی موجودگی اور انہیں تباہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے معاونین کی ناکہ بندی کی جائے۔دوسری طرف بنگلہ دیش میں بھی اسلامی ملک کو ٹکڑے کرنے کے مخالفین کو چن چن کر پھانسیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں کال کوٹھریوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی پارلیمنٹ میں فخر سے اعلان کیا تھاکہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا گیا ہے۔افغانستان بھی بھارتی بہکاوے میں آ رہا ہے۔آج افغان قیادت کھل کر بھارتی گیت گا رہی ہے۔

پاکستان کے قیام کی سلور جوبلی بھی نہیں منا ئی جا سکی تھی جب اُس کا ایک بازو کاٹ دیا گیا۔ہم امریکہ کے ساتواں ایٹمی بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔وہ بحر ہند میں داخل ہوا تو سوویت یونین نے اپنا نوواں بحری بیڑہ روانہ کر دیا۔جس طرح سوویت یونین نے بھارت کا کھل کر ساتھ نبھایا اس طرح امریکہ کردار ادا نہ کر سکا۔آج امریکہ بھارت کی جھولی میں گر چکا ہے ۔ روس نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدوں کا آغاز کیا ہے۔اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی مملکت کو توڑناایک بڑی سازش تھی جس کا ایک مقصد سیکولر ازم کی آڑ میں بھارت کو ٹوٹنے سے بچانا تھا ۔اس سازش کو حقیقت کا روپ پہنانے میں پاکستان کے طالع آزما او راقتدار کے بھوکے حکمرانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی۔ مخبریاں کیں اور انگریزوں سے انعام میں جاگیریں وصول کیں اور القابات وخطابات حاصل کئے۔المیہ یہ ہے کہ یہ جاگیر دار اور زمیندار آج بھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ میں سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا لیکن کسی کے خلا ف کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔کمیشن ذوالفقار علی بھٹو نے تشکیل دیا تھا۔جس کے سربراہ پاکستان کے چیف جسٹس حمود الرحمٰن تھے۔جسٹس شیخ انوار الحق اور جسٹس طفیل علی عبد الرحمٰن اس کے ممبر تھے۔کمیشن نے جولائی 1972ء کو ابتدائی رپورٹ تیار کی جس کی ایک کاپی ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی گئی اور دیگر کو تلف کیا گیا۔1974ء میں انکوائری دوبارہ شروع کی گئی۔رپورٹ میں جنرل یحیٰ خان کو زانی اور شرابی قرار دیا گیا۔جنرل یحیٰ،جنرل عبد الحمید خان،لیفٹننٹ جنرل پیرزادہ،لیفٹننٹ جنرل گل حسن،میجر جنرل عمر،میجر جنرل مٹھا سمیت جنرل امیر عبداﷲ خان نیازی،جنرل عابد زاہد،جنرل محمد جمشید،جنرل ایم رحیم خان،جنرل ارشاد احمد خان،جنرل بی ایم مصطفٰے،بریگیڈئر جی ایم باقر صدیقی،بریگیڈئر محمد حیات اور بریگیڈئر محمد اسلم نیازی کے خلاف سر عام مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی۔سفارشات پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے رپورٹ کو کلاسیفائڈ کرکے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ 25سال بعداگست 2000ء میں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے بعض حصے بھارتی انگریزی میگزین انڈیا ٹو ڈے کو افشاء کئے گئے۔اس افشاء میں کس کا ہاتھ تھا کوئی نہیں جانتا۔ اس افشاء کے چار ماہ بعدپرویز مشرف نے دسمبر 2000ء کورپورٹ ڈی کلاسیفائیڈ کر دی۔ رپورٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ جنرل نیازی نے شکست تسلیم کرنے کے بعد بھارتی جنرل اروڑہ کا ائر پورٹ پر استقبال کیا اور اسے گارڈ آف آنر کیوں پیش کیا۔ اگر جنرل نیازی کا مورال گر گیا تھاتو جی ایچ کیو نے کردار کیوں ادا نہ کیا۔ کور کمانڈر جنرل ارشاد خان نے سیالکوٹ کی شکر گڑھ تحصیل کے 500دیہات دشمن کو کیوں دے دیئے۔آج ایک بار پھرپاکستان ٹوٹنے کے زخم تازہ ہو رہے ہیں۔دسمبر کا مہینہ ان زخموں کو ہرا کر دیتا ہے۔اس سے پہلے ہم نے بابری مسجد کی شہادت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور دسمبر آنے پر گریہ زاری کی ہے۔ مگر پاکستان ٹوٹنے کا زخم بہت بڑا ہے۔ اس سے آج بھی لہو ٹپک رہا ہے۔ اس پر مرہم رکھنے سے ازالہ ہو سکتا تھا۔ پاکستان کا ایک بازو بنگلہ دیش اور دوسرا افغانستان ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بنگلہ دیش میں محصورین کی درماندگی کا تذکرہ کیا جانا ضروری ہے۔جن کے بارے میں اطلاعات گردش کرتی رہتی ہیں کہ وہ تنگ آکر کشمیر کی جنگ بندی لائن سے پاکستان میں داخل ہونے پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا گرفتار ہو جاتے ہیں۔1947ء میں بہار کے اردو بولنے والوں نے مشرقی پاکستان کی طرف ہجرت کی اور انھوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دیا ۔ تب سے وہ بنگلہ دیش کے 66کیمپوں اور دیگر علاقوں میں درماندہ ہیں۔یہ لوگ بے وطن ہیں۔آخر انہیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔پاکستا ن اور بنگلہ دیش انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔2008ء میں ڈھاکہ ہائیکورٹ نے ڈیڑھ لاکھ بہاریوں کو ووٹ کا حق دیا جو 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران کم عمر تھے ۔یہی لوگ ہیں جنھیں شر پسندوں ہندوؤں نے حکومت کی سر پرستی میں آگرہ کے قریب ایک مندر میں بلا کر ان کو زبردستی ہندو مذہب قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈالا۔

پاکستان توڑنے میں بنگالی اور اردو میں لسانی منافرت نے کردار ادا کیا۔ لسانی بنیادوں پر قوموں اور ملکوں کی تقسیم ایک خطرناک رحجان ہے جس کا زیادہ تر ایندھن مسلمان بنے ہیں حالانکہ دنیا بھر کے مسلمان قرآن پر متحد ہیں لیکن ان میں عربی و عجمی، پنجابی، سندھی، بنگالی، اردو، پشتو، کشمیری وغیرہ جیسی تقسیم کی وبا پھوٹ پڑی ۔اس وبا سے بلاشبہ سب سے زیادہ پاکستانی اور کشمیری متاثر ہوئے ہیں ۔کشمیر کے قد آور لیڈر شیخ محمد عبداﷲ اور چودھری غلام عباس کی اسی وجہ سے راہیں جدا ہوئیں جس کا خمیازہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک بڑا تنازعہ زبان کا پیدا کیا گیا۔ بنگالی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ 54 فیصد لوگ بنگالی تھے اس لئے ملک کی سرکاری زبان اردو قرار دینے پر وہ بجا طور پر نالاں اور ناراض ہوئے۔ان کی ناراضی کو دور کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دیا جاسکتا تھا۔1954ء میں قومی اسمبلی نے اردو، بنگالی اور اسی طرح کی زبانوں کو ملک کی سرکاری زبانیں قرار دینے کی بات بھی کی تھی۔

پاکستان ٹوٹنے کے سر سری اسباب کا جائزہ لیا جانا چاہئیے۔16؍دسمبر 1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو پاکستان ٹوٹنے کے دن ہی قتل کیا گیاجس کے بعد ملک عدمِ استحکام کا شکار ہوا تو فوجی و سول بیورو کریسی نے ملک کے سیاسی معامالات میں مداخلت شروع کر دی۔ قانون ساز اسمبلی بالکل غیر موثر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک عشرہ تک ملک بے آئین رہا، لیاقت علی خان کی جگہ بنگالی گورنر جنرل خواجہ نظام الدین وزیر اعظم بنے تو پنجابی سول سروس کے غلام محمد کوگورنر جنرل بنایا گیا۔ 1953ء میں گورنر جنرل نے بنگالی وزیراعظم کو برطرف کرکے پنجاب میں مارشل لاء نافذکیا تو مشرقی پاکستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ ایک بنگالی گورنر جنرل کو پنجابی وزیر اعظم کی جانب سے بر طرف کرنے کا مسئلہ دشمنوں کے لئے اتنا معمولی واقع نہ تھا بلکہ پاکستان کے خلاف زبان کو منافرت کے لئے استعمال کرنے کی جڑیں اس مسلے نے اور مظبوط کیں۔1954ء میں غلام محمد نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو ایک بنگالی محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نامزد کیا ۔ محمد علی بوگرہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔اس طرح اس نامزدگی میں امریکا کا ہاتھ صاف نظر آنے لگا۔امریکہ نے پاکستانی معاملات میں مداخلت بھی شروع کر دی۔ اس دوران مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بنگالی جماعتوں کے اتحاد یونائٹیڈ فرنٹ نے بدترین شکست دی۔ اتحاد کا 21 نکاتی ایجنڈا تھا جس نے مغربی پاکستان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی۔ حسین شہید سہر وردی کی عوامی لیگ اور فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی نے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ لوگ صوبائی خود مختاری چاہتے تھے۔ وزیر اعظم بوگرہ نے گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فوج اور بیوروکریسی کی حمایت سے اسمبلی کو ہی ختم کر دیا اور نئی کابینہ تشکیل دے دی۔ بوگرہ وزیراعظم بنے لیکن بے اختیارتھے ۔فوجی اور بیورو کریٹ جنرل سکندر مرزاکو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ آرمی کمانڈر جنرل ایوب خان وزیر دفاع اور سابق چیف سیکرٹری چوہدری محمد علی وزیر خزانہ بنائے گئے۔ 1956ء میں مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ایک انتظامی یونٹ قرار دیا گیا۔1966ء میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ (1) حکومت وفاقی اور پارلیمانی ہو، آبادی کی بنیادپرارکان منتخب کئے جائیں۔(2) مقامی حکومت خارجہ معاملات اور دفاع کے لئے اصولی طور پر ذمہ دار ہو۔(3) ہر وِنگ کی اپنی کرنسی اور اکاؤنٹ ہوں۔ (4) صوبائی سطح پر ٹیکس جمع کئے جائیں۔ (5) ہر وفاقی یونٹ کافارن ایکسچینج آمدن پر کنٹرول ہو۔(6) ہر یونٹ اپنی فوج اور نیم فوجی بھرتی کرنے کا مجاز ہو۔شیخ مجیب کا 6نکاتی پروگرام ایوب خان کے گریٹر نیشنل انٹگریشن(National Integration) سے متصادم تھا۔ اس لئے 1968ء میں مجیب کو حراست میں لے لیا گیا۔

25؍ مارچ 1969ء کو ایوب خان نے مسندِ اقتدار آغا یحییٰ خان کو دے دیا۔ یحییٰ خان نے انتخابات کرا ئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 298 ، آزاد نے 2 اور دیگر نے 5 سیٹیں لیں۔ پیپلز پارٹی کو ایک سیٹ بھی نہ ملی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے انتخابات میں عوامی لیگ نے 167، پیپلز پارٹی نے 88سیٹیں حاصل کیں۔ صوبائی الیکشن میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ نہیں لی اور پیپلز پارٹی کی مشرقی پاکستان میں کارکردگی زیرو رہی۔عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایکدوسرے کے منڈیٹ کا احترام نہ کیا۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق حکومت عوامی لیگ نے بنانی تھی اور مجیب الرحمن کو ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا تھا لیکن پارلیمنٹ کا اجلاس کبھی نہ بلایا گیا۔جنرل یحییٰ خان اور اس کے صلاح کاروں نے انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور بنگالیوں کو اقتدار سے دور رکھا ۔شیخ مجیب الرحمن نے ایک اجلاس بلا کر الیکشن میں منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان سے حلف لیا۔ جنہوں نے ان کے 6 نکاتی پروگرام کی حمایت کی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا لیکن مغربی پاکستان کی جماعتوں نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا جو ایک انتہائی افسوس ناک بات تھی۔جنوری؍ 1971ء کو یحییٰ خان ڈھاکہ گئے۔ انہوں نے مجیب کے ساتھ میٹنگ کی۔ یحییٰ خان نے واپسی پر لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی جس کے فوری بعد بھٹو نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے ملاقات کی تاہم انہوں نے واپسی پر اپنے مشن کو ناکام قرار دیا اور راولپنڈی میں جنرل یحییٰ سے ملاقات کی۔ یحییٰ نے اسمبلی اجلاس 3؍ مارچ 1971ء کو طلب کر لیا۔بھٹونے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔یکم مارچ کو یحییٰ خان نے طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں اجلاس ملتوی کرنے پر شدید ردعمل ہوا جس پر فوج طلب کی گئی۔ اُس روز یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنربنا دیا۔ شیخ مجیب نے نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا تو جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ ملاقات میں شیخ مجیب نے تین مطالبات پیش کئے۔(1) مارشل لاء ختم کریں (2) قومی اسمبلی کو کام کرنے دیا جائے (3) قومی اور صوبائی سطح پر اقتدار منتقل کیا جائے۔ لیکن ان مطالبات کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا۔ردعمل میں شیخ مجیب نے یوم جمہوریہ کے دن مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا۔ مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ یہی موقع تھا جب بھارت نے حالات کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت نے مغربی پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے لئے بنگالیوں کی تربیت شروع کر دی۔مکتی باہنی کا ظہور ہوا۔ جگہ جگہ ٹریننگ سنٹرز کھل گئے۔ ایک اندازے کے مطابق ابتدائی طور پر 50 ہزار گوریلا تیار کرکے مشرقی پاکستان میں داخل کئے گئے جنہوں نے پاک فوج پر حملے شروع کر دیئے۔ایسٹرن کمانڈکے کمانڈینگ آفیسر جنرل نیازی کو 9 بڑے نکات پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا۔(1) مشرقی پاکستان میں حکومتی رِٹ بحال کرنا (2) انسرجنسی کے خلاف جنگ (3) جغرافیہ کی حفاظت (4) سرحدوں کی بندش (5) محب وطن شہریوں کی حفاظت (6) مواصلاتی رابطے (7) بیرونی حملے سے تحفظ (8) شہری علاقوں میں فوج کی موجودگی (9) دشمن فورسز کو مشرقی پاکستان میں مصروف رکھنا۔ لیکن جب اکتوبر 1971ء سے بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت میں اضافہ ہو گیا تو جنرل نیازی اس سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی کردار ادا نہ کر سکے۔ نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے چٹا گانگ کی طرف پیش قدمی شروع کر تے ہوئے سلہٹ سیکٹر کے اٹگرام اور ذکی گنج پر قبضہ کر لیا گیا۔جنرل نیازی نے 16؍دسمبر 1971ء کوڈھاکہ کے پلٹن میدان میں سرنڈر کرلیا۔ آغا شاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے تھے۔ انہیں بھارتی سرکار اور مکتی باہنی کی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔یا انھوں نے کسی سازش کے تحت ایسا کیا۔دوسری طرف یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آپشن بند کر دیا۔ڈھاکہ میں سرنڈر کی دستاویز پر بھارت کی طرف سے لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ اور پاکستان کی طرف سے لیفٹننٹ جنرل عبداﷲ خان نیازی نے دستخط کئے۔ آج بھی عوام بے اختیار ہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ قومی ایشوز پر سودا بازیاں ہوتی ہیں۔خارجہ اور داخلہ پالیسیاں امریکہ ،عالمی بنک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر تشکیل پاتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ میں خصوصی بحث کبھی نہ ہو سکی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔ بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ہوا۔ کشمیر کو عالمی مسئلے سے دو طرفہ مسئلہ بنا دیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کا سب سے زیادہ نقصان کشمیر کاز کو پہنچا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھاگیا۔ ورنہ بنگالیوں سے فری ٹریڈ اور دفاعی معاہدے کئے جاتے اور غلطیوں کی تلافی کی جاتی ۔شیخ حسینہ واجد کو پاکستان سے محبت کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکانے اور ان کا قافیہ حیات تنگ کرنے کی کبھی جرائت نہ ہوتی۔کیوں کہ یہ بنگالی قوم ہی تھی جس نے مشرقی پاکستان کو ہڑپ کرنے کے بھارتی عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیاتھا۔بھارت آج بھی پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں انارکی پھیلانے اور پانی روکنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ افغانوں کو بھی گمراہ کر رہا ہے۔ہو سکتا ہے یہ خطرے کی گھنٹی ہو کہ ایک طرف سے بنگلہ دیش اور دوسری طرف افغانستان آج بھارت کے بڑے اتحادی ہیں۔لیکن ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔ دوسروں کے خاکوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، چودھری برادران اور دیگر پانامہ پیپرز، کبھی دیگر کی آڑ میں آس پاس سے جیسے بے خبر باہم دست و گریبان ہیں ۔ آج ایک بار پھر ملک کو توڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لیکن ہم توجہ نہیں دیتے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555097 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More