ان دنوں ٹی وی چینلوں کی خبروں اور
پروگراموں سے نجی محفلوں تک پانامہ کیس کے چرچے ہیں، یعنی تذکرہ ہے
بدعنوانی کا۔ اس مقدمے کا فیصلہ تو عدالت کرے گی لیکن فیصلہ جو بھی ہو اس
حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بدعنوانی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے،
یہ ہمارے تمام مسئلوں کی ماں ہے، ایک ایسا عفریت جس سے ہر قسم کی بلاؤں نے
جنم لیا اور وہ ہمارا خون پی رہی ہیں۔ کچھ دنوں قبل انسداد بدعنوانی کا
عالمی دن منایا گیا۔ اس حوالے سے شایع ہونے والی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ
دنیا میں سالانہ کرپشن کا چالیس فی صد رشوت ستانی کی صورت میں عمل پذیر
ہوتا ہے۔ یعنی پاکستان سمیت عالمی سطح پر مالی بدعنوانی میں سب سے بڑا حصہ
رشوت کا ہے۔ ورلڈکرپشن انڈیکس 2015 کے مطابق صومالیہ دنیا کا بدعنوان ترین
ملک رہا، دوسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جب کہ اس فہرست میں تیسرا نمبر
ہمارے ہمسائے افغانستان کا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کرپشن کے
حوالے سے2015 کی درجہ بندی میں ہمارا ملک 117ویں نمبر پر آگیا ہے۔ گذشتہ
دورحکومت میں پاکستان اس فہرست میں 139 ویں نمبر پر تھا۔ اس سے پہلے
بدعنوان ممالک کی فہرست میں پاکستان 2013 میں127ویں اور 2014 میں126ویں
نمبر پر رہا۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ گلوبل کرپشن بیرومیٹر کے مطابق پاکستان
میں سب سے زیادہ کرپشن سیاسی جماعتوں میں ہے، یعنی اہل سیاست اس معاملے میں
سب سے آگے ہیں، جو دیگر شعبے سرفہرست ہیں ان میں کاروباری طبقہ، پولیس،
عدلیہ، میڈیا، ٹیکسیشن، صحت اور تعلیم شامل ہیں۔
دوسری طرف قومی احتساب بیورو سندھ کے سربراہ نے چند ماہ قبل ایک تقریب سے
خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کو کرپشن کی وجہ سے روزانہ 133ملین
ڈالر ملین کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں انسداد بدعنوانی اور احتساب کے
حوالے سے 59 قوانین موجود ہیں، جہاں بدعنوانی کو روکنے کے لیے ادارے قائم
ہیں اور ان کے حکام اور ملازمین اس کام کے لیے قومی خزانے سے تن خواہیں
وصول کررہے ہیں۔ یہ صورت حال اس ملک کی ہے جہاں ہر سیاسی جماعت اور ہر
سیاست داں بدعنوانی کے خلاف نعرے لگاتا نظر آتا ہے، جہاں ہر شخص دن رات
کرپشن کے خلاف گفتگو کرتا ہے۔
درحقیقت یہ ایک اخلاقی بحران ہے جس سے معاشی بحران نے جنم لیا ہے، اور پھر
بحرانوں کا سلسلہ ہر شعبے تک دراز ہوتا چلا گیا ہے۔
اس حقیقت سے ہم سب آگاہ ہیں کہ کرپشن کی میراتھون ریس میں سیاست داں ایک
دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دُھن میں سب سے آگے دوڑ رہے ہیں۔ وہ سیاست داں جو
عوام کے حقوق کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے ہیں، جو ملک کی خاطر تن من دھن
قربان کردینے کا عزم کرتے نظر آتے ہیں، جنھیں عوام اپنے مسائل کے حل اور
ملک میں بہتری لانے کے لیے کڑی دھوپ میں طویل قطاروں میں لگ کر ووٹ دیتے
ہیں، ان کے جلسوں میں جوق درجوق شامل ہوکر اور زورشور سے نعرے لگاکر سیاست
دانوں کو قابل ذکر بناتے ہیں، وہی اہل سیاست عوام کی دولت پر ہاتھ صاف کرکے
اپنے محل کھڑے کرتے ہیں، عیش کی زندگی گزارتے ہیں اور کسی برے وقت کے
اندیشے کے تحت بھاری رقم سوئس بینکوں میں جمع کرادیتے اور آف شور کمپنیوں
میں لگادیتے ہیں۔
سیاست داں اس فہرست میں سب سے آگے اس لیے ہیں کہ انھیں سب سے زیادہ مواقع
میسر ہیں۔ اگرچہ جن دیگر شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کوئی بھی درگزر
کرنے کے لائق نہیں، لیکن سیاست داں تو قوم کے راہ نما ہیں، عوام نہ پولیس
کو منتخب کرتے ہیں نہ منصفوں کو، وہ کاروباری طبقے کو اپنی قیادت سونپتے
ہیں نہ میڈیا کو، وہ تعلیم اور صحت سے متعلق حکام کا تو نام بھی نہیں
جانتے۔ سو ہمارا المیہ یہ ہے کہ جنھیں راہ نمائی کا فریضہ انجام دینا تھا
وہ راہ زنی کی وارداتوں میں مصروف ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہے، ان میں سے
کوئی جاگیردار ہے تو کوئی صنعت کار اور کسی کا کاروبار اس پر ہُن برسارہا
ہے۔ دوسری طرف منتخب ہونے کے بعد وہ خود اپنے لیے ’’جائز‘‘ اور ’’قانونی‘‘
مراعات اور سہولیات حاصل کرلیتے ہیں۔ گذشتہ مہینے ہی وزیراعظم، وزراء،
چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی کے اسپیکر اور پارلیمینٹ کے ارکان کی تن خواہوں
ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کیے گئے اس اضافے سے
حزب اختلاف کی کسی جماعت کو ذرا بھی اختلاف نہیں، کیوں کہ جہاں مشترکہ مفاد
کا معاملہ ہو وہاں اختلاف کیسا، ہاں قومی مفاد اور عوام کے فائدے کے کسی
معاملے پر اختلاف ہوسکتا ہے، احتجاج ہوسکتا ہے، بائیکاٹ ہوسکتا ہے، سیاست
چمکائی جاسکتی ہے۔ بہ ہر حال تمام تر دولت وثروت اور قومی خزانے سے میسر
ہونے والی مراعات کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کی بھوک نہیں مٹتی اور ہوس
زر انھیں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار پر راغب کرتی رہتی ہے۔ انھیں اس بات کا
بھی خیال نہیں ہے کہ اتنا ہی لوٹیں کہ یہ ملک بچا رہے، تاکہ اسے مزید لوٹنے
کا امکان رہے، یعنی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن، مگر وہ یہ
کیوں سوچیں، جس طرح ان کے بینک اکاؤنٹ، جائیدادیں اور کمپیناں ملک سے باہر
ہیں اسی طرح بس ایک پرواز انھیں کسی بھی جائے امان کی طرف لے جاسکتی ہے، تو
انھیں ملک کے نقصان کی پرواہ کیوں ہو؟
صورت حال کے سب سے بڑے ذمے دار ہم عوام ہیں جو سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے
باوجود بدعنوان سیاست دانوں کو ووٹ دیتے ہیں، حالاں کہ ہمارے درمیان دیانت
دار اور بہ صلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستان سے بدعنوانی کا خاتمہ
اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم بدعنوان لوگوں کے بہ جائے دیانت دار افراد کو
منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجیں۔ ہم میں اگر یہ شعور آجائے تو سب کچھ بدل
جائے گا۔ |