تلور کے شکار پر خیبر پختون خواگورنمنٹ نے
بندی عائد کردی جس کے بعد قطری شہزادے اب یہاں (ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ )
میں تلور کا شکار نہیں کرسکیں گے۔
تلور بھی ایسے پرندوں میں شامل ہے جس کی نسل تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ یہ اب
نایاب پرندوں میں شامل ہے۔ خیبرپختون خوا گورنمنٹ نے پرندے کی نسل کو
معدومی سے بچانے کی خاطر یہ فیصلہ عمل میں کیا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تلور ہمارے خطہ کا پرندہ نہیں ہے۔ یہ ایک پردیسی
پرندہ ہے۔ پاکستان میں مہمان بن کر آنے والا معصوم سا پرندہ ہے۔ جو اپنی
نسل کی بقاءکی خاطر شاید پاکستان کو اپنے لیے محفوظ علاقہ جانتے ہوئے یہاں
کا رخ کرتا ہے۔
سرد موسم میں ہزاروں تلور پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔ پاکستان میں عام طورپر
یہ پرندہ پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی اور ریگستانی علاقوں میں پایا جاتا
ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ پرندے ڈیرہ اسمعیل خان اور کوہاٹ کے علاقوں
میں ڈیرے ڈالتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے قطر سمیت کئی عرب ممالک کے شاہ زادوں امراءکو اس کے قتل کی
اجازت کا پرمٹ دیا جس پر بلوچستان اور پنجاب نے یقینی عملدرآمد کے لیے
خصوصی اقدامات کئے ہیں مگر خیبر پختون خوا گورنمنٹ نے اس عمل کرنے سے صاف
انکار کردیا۔
ایسا دراصل 18 ترمیم کی بدولت ممکن ہوا ہے جس کے تحت جنگلی حیات کا محکمہ
اب صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت خیبر
پختون خوا گورنمنٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا کہ کسی کی خوشنودی یا مراعات
کی خاطر ایسا کچھ کیا جائے جس کی وجہ سے جگ ہنسائی ہو یا انٹرنیشنل معاہدوں
، کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ آج شاہ زادے اور امراءکو معصوم تلور کے شکار
کی اجازت دی جاتی ہے کل کو یہ کچھ اور تقاضے ، فرمائشیں کریں جوکہ ممنوع
ہوں تو کیا وہ بھی پوری کردی جائیں گی؟۔ ہمارا ملک ہے کوئی کرایہ کی شکار
گاہ نہیں کہ جوبھی آئے کچھ درہم ، دینار، ریال، ڈالر ، پونڈ ، یورو، کے
بدلے یہاں شکار کرے۔ یہ صرف تلورکے شکار کی اجازت اور پابندی کی بات نہیں
ہے۔
بات ہے ہماری لکچدار پالیسی کی ، مہبم پالسی کی بات ہے دوہری پالیسی کی بات
ہے۔ کسی کے لیے خاص قانون یا پالیسی اور کسی کے لیے روٹین میٹرز۔ اداروں کو
بچانے کی بات کی جاتی مگر اداروں کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکا
نہیںجاتا۔
اس ضمن میں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ پرندوں جانوروں کا شکار کرنے والوں
نے پرندوں اور جانوروں یعنی وائلڈلائف کی بقاءان کے تحفظ کی خاطر
فاؤنڈیشنیں بھی بنارکھی ہیں۔اسی طرح کی ایک فاؤنڈیشن ہوبارہ فاونڈیشن بھی
ہے جس نے پاکستان کے کئی شہروں میں وسیع رقبہ پر پارک بنا رکھے ہیں۔ جہاں
نایاب پرندوں اور جانوروں کی نسل بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کئے جانا
تھے۔
تھے اس لیے کہ راقم ایک ایسے ہی پارک کے بارے علم رکھتا ہے جہاں اج تک ایسے
اقدامات نہیں کئے گئے۔ڈیرہ غازیخان میں بھی ایک ایسا منصوبہ بنا تھا جہاں
دیگر نایاب پرندوں اور جانوروں کے علاوہ ہرن کی ایک نایاب نسل کو بچانے کا
منصوبہ تھا۔ مگر کئی سال ہوگئے ہیں اس پارک میں نایاب نسل کے ہرن تو ایک
طرف گلی محلہ میں آوارہ گھومنے والا کتا، تک نہیں چھوڑا گیا۔ ایک وسیع و
عریض اراضی کو نوگو ایریا بنا دیا گیا ہے۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ
یہاں موجود قدرتی چراہگاہ سے مقامی گلہ بان یہاں اپنے مال مویشی چرانے سے
محروم ہوگئے ہیں ۔ بارانی ایریا ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے یہی چراہ
گاہ اہم تھی جہاں وہ اپنے مال مویشی چراتے تھے۔ یہاں اب بڑی بڑی باڑ لگادی
گیئی ہے۔ جہاں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔
موضوع سے دور تو ہم نہیں گئے تاہم تلور کی جان بچانے والے خیبر پختون خوا
گورنمنٹ کے اقدامات کے ارد گرد ضرور ہیں۔ تلور کو بچانے کی پالیسی آگے چل
کر خودداری ، خود مختیاری بچانے کا سبب بنے گی۔ جیسے ماضی میں کبھی خلیجی
ممالک میں اونٹ ریس میں معصوم بچوں کا استعمال تھا جس کو روکا گیا۔ اور اس
کے بعد ایسے قوانین بنے کہ اونٹ ریس بھی غیر قانونی اور اس کے لیے بچوں کا
استعمال بھی غیر قانونی قرار پایا۔ کیمل جوکی بچوں کی بحالی کا ایک پرگروام
آج بھی جاری ہے۔ ماضی کے کیمل جوکی بچوں کی کفالت ان کی محرومیوں کا اذالہ
ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی شدید مخالفت ہوئی اور پاکستان میں بھی ایک
تحریک چلی آج پاکستان سے معصوم بچے عرب ممالک میں بطور چارہ بطور ہھتیار
بطور سوار نہیں جاتے۔ تلور پر بھی رحم کرو خدا تم پر رحم کرے گا۔ |