اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم الشان شاہکار
(Abul Wafa Syed, Karachi)
مادہ سے مراد وہ عنصرہے جس سے تمام مادی اشیاءبنی ہوئی ہیں۔قدیم یونانی فلسفیوں نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دنیا کس چیز سے بنی ہے ۔انہوں نے ان بنیادی ذرات کا نام ایٹم رکھاجو آج تک رائج ہے ۔بنیادی ذرے کی تعریف سادہ الفاظ میں یوں کر سکتے ہیں کہ یہ مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جو کہ اپنی ساخت میں کامل ہوتا ہے اور اپنے اندر مزید چھوٹے یا ذیلی ذرات نہیں رکھتا۔ایٹم جومادے کے وجود کے لیے بنیادی کردار ادا کرتاہے ،بگ بینگ کے بعد وجو دمیں آیا۔ پھر ان ایٹموں نے یکجا ہو کر اس کائنات کو بنایا جس میں ستارے ،زمین اور سورج شامل تھے۔ بعد ازاں انہی ایٹموں نے کرہ ارض پر زندگی کی ابتدا کی۔ اگر آپ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو سینکڑوں قسم کی چیزیں نظر آئیں گی ۔ان میں سے کچھ ٹھوس ہیں ،کچھ مائع اور کچھ گیس،یہ مادے کی تین مختلف صورتیں ہیں۔وہ ظاہر میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اندرونی طور پر ایسا نہیں ہے ۔بنیادی طور پر وہ ایک ہی ذرے سے تعمیر ہوئی ہیں جسے ایٹم کہتے ہیں۔ |
|
مادہ سے مراد وہ عنصرہے جس سے تمام مادی
اشیاءبنی ہوئی ہیں۔قدیم یونانی فلسفیوں نے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی
کہ دنیا کس چیز سے بنی ہے ۔انہوں نے ان بنیادی ذرات کا نام ایٹم رکھاجو آج
تک رائج ہے ۔بنیادی ذرے کی تعریف سادہ الفاظ میں یوں کر سکتے ہیں کہ یہ
مادے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جو کہ اپنی ساخت میں کامل ہوتا ہے اور
اپنے اندر مزید چھوٹے یا ذیلی ذرات نہیں رکھتا۔ایٹم جومادے کے وجود کے لیے
بنیادی کردار ادا کرتاہے ،بگ بینگ کے بعد وجو دمیں آیا۔ پھر ان ایٹموں نے
یکجا ہو کر اس کائنات کو بنایا جس میں ستارے ،زمین اور سورج شامل تھے۔ بعد
ازاں انہی ایٹموں نے کرہ ارض پر زندگی کی ابتدا کی۔ اگر آپ اپنے چاروں طرف
نظر دوڑائیں تو آپ کو سینکڑوں قسم کی چیزیں نظر آئیں گی ۔ان میں سے کچھ
ٹھوس ہیں ،کچھ مائع اور کچھ گیس،یہ مادے کی تین مختلف صورتیں ہیں۔وہ ظاہر
میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن اندرونی طور پر ایسا نہیں ہے ۔بنیادی طور
پر وہ ایک ہی ذرے سے تعمیر ہوئی ہیں جسے ایٹم کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پھر یہ ایٹم کیاہے ،جو ہر شے کا تعمیری جزو ہے ،یہ کس شے کا
بناہوا ہے اوراس کی ساخت کیا ہے؟
پرانے و قتوں میں ایک نظریہ جو کہ ”نظریہ ایٹم “ کے نام سے جانا جاتا تھا ،کو
وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل تھی۔ اصل میںیہ نظریہ یونان کے ایک سکالر
ڈیموکراطس کا پیش کردہ تھا جو تقریباً (460-370)قبل مسیح وہاں رہتا تھا۔
ڈیمو کراطس اور اس کے بعد آنے والے لوگوں نے بھی یہی نظریہ پیش کیاتھا کہ
ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ایٹم دراصل یونانی زبان کے لفظ
atomos سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ”ناقابل تقسیم “۔یونانی فلاسفرز کا خیال
تھا کہ ایٹم کو تباہ نہیں کیا جاسکتااور اس کی مزید تقسیم ناممکن ہے ۔قدیم
عرب بھی اسی بات پر یقین رکھتے تھے۔ عربی زبان میں ”ذَرَّة“ کا سب سے عمدہ
معنی ”ایٹم “ ہی ہے۔
چناچہ ایٹم کے متعلق یہ نظریہ 2300 سال تک قائم رہا تاآنکہ 1803ء میں
سائنسدان جان ڈالٹن نے عملی طور پر ایک مفید ایٹمی نظریہ پیش کیا اور ایٹم
کوایک ایسا کُرہ قرار دیا جو مثبت برقی قوت کے حامل زروں اورمنفی الیکٹرونز
سے بھرا ہوا ہے ۔چناچہ 1897ءمیں سائنسدانوں نے مزید تجربات کے بعد اس میں
الیکڑونز کو دریافت کیااورپھر 1911ءمیں ایٹم کے مرکزی حصے نیوکلیس کو
دریافت کیا گیا ۔یہ تجربات جاری رہے اور سائنسدان کائنات کے اس چھوٹے سے
ذرے کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے ۔ان کی یہ جدوجہد رنگ لائی اور
1918ءمیں اسی ایٹم کے مرکز میں پائے جانے والے نیوکلیس کے اندر پروٹان کو
دریافت کیا گیا اور پھر چند سالوں بعد 1932ءمیں اسی نیوکلیس کے اندر
نیوٹران کو بھی دریافت کرلیاگیا۔ 1968ءمیں انہوں نے پروٹان اور نیوٹران کے
اندر مزید چھوٹے اجزا کو دریافت کرنے کا اعلان کردیا ۔ان چھوٹے اجزا کو،
کوارکس کا نام دیا گیا ہے ،ہر پروٹون اور نیوٹران کے اندر تین تین کوارکس
ہوتے ہیں جو آپس میں مزید دوسرے اجزا گلونز کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ابھی بھی
سائنسدانوں کی کھوج کی رفتار کم نہیں ہوئی ہے بلکہ ان بنیادی ذرات پر تحقیق
کا بازار گرم ہے اور کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں کوارکس (اور کچھ
اور ایسے ذرات جن کو آج بنیادی کہا جاتا ہے)میں سے بھی مذید چھوٹے ذرات نکل
آئیں ۔
جب ہم ایٹموں کی ساخت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کا ایک
نمایاں ڈیزائن ہے اور یہ ایک خاص ترتیب ونظم کے ساتھ وجود میں آئے ہیں۔ ہر
ایٹم کا ایک نیوکلیس ہوتا ہے جس میں مختلف تعداد میں پروٹون اورنیوٹرون
ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان میں ایسے الیکٹرون ہوتے ہیں جونیوکلیس کے گرد
مخصوص مداروں میں حرکت کرتے ہیں۔ایک ایٹم کے اندر الیکٹرون اور پروٹون
مساوی تعداد میں ہوتے ہیں۔الیکڑون پر منفی چارج جبکہ پروٹون پر مثبت چارج
ہو تاہے۔ جس سے مثبت اورمنفی برقی قوت رکھنے والے الیکٹرون اور پروٹون ایک
دوسرے کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ان اعداد میں سے ایک بھی مختلف ہوتا تو
ایٹم کا وجود ہی نہ ہوتا، اس لیے کہ اس سے برقی مقناطیسی توازن
بگڑجاناتھا۔الیکٹرون ،پروٹون کی نسبت ہلکے ہوتے ہیں ۔ 1836الیکڑونز ایک
پروٹون کے برابر ہوتے ہیں جبکہ پروٹون اورنیوٹران بلحاظ کمیت تقریبا ً ایک
جیسے ہوتے ہیں ۔
کسی ایٹم میں ایک پروٹون کے اضافے سے وہ نئی قسم کا ایٹم بن جاتاہے ۔جو
مادہ ایک ہی قسم کے ایٹمو ں سے مل کر بنا ہو اسے عنصر کہتے ہیں ۔مثلاً
ہائیڈروجن ،آکسیجن اورکاربن وغیرہ عناصر کی مختلف اقسام ہیں ۔اب تک تقریباً
118 عناصر کو دریافت کیا جا چکا ہے ان میں سے زیادہ تر قدرتی طور پر پائے
گئے ہیں جبکہ کچھ لیبارٹری میں تیا ر کیے گئے ہیں ۔سب سے سادہ ترین ایٹم
ہائیڈروجن کا ہے ۔اس میں ایک پروٹون اور ایک ہی الیکڑون ہوتا ہے جبکہ
نیوٹرون نہیں ہوتا۔دو یا دو سے زائد ایٹموں کے ملنے سے مالیکیول تشکیل پاتا
ہے ،مثلاً جب عنصر ہائیڈروجن کے دوایٹم ،عنصر آکسیجن کے ایک ایٹم سے ملائے
جاتے ہیں تو پانی کا ایک مالیکیول تشکیل پاتاہے۔
آئیے اب یہ معلو م کرتے ہیں کہ ایٹم اور اس کے ذرات کتنے چھوٹے ہیں۔
الیکڑون کو وزن کے لحا ظ سے ہلکے ترین اجزاءمیں شمار کیا جاتا ہے ایک قطر ہ
پانی کا وزن ایک الیکڑون کی نسبت اربوںگنا زیادہ ہوتاہے۔اگرہم پینسل سے ایک
سینٹی میٹر لائن کھینچیں تو اس لائن میں 10کروڑ ایٹم سماسکتے ہیں۔اگر ہم
ایٹم کی سکیل کے حساب سے ڈرائنگ بنائیں اور پروٹون اور نیوٹرون کے قطر کا
سائز ایک سینٹی میٹر رکھیں تو الیکڑون اور کوارکس کا سائز انسانی بال کے
سائز سے بھی چھوٹا ہوگاجبکہ پورے ایٹم کا سائز تیس فٹ بال کے میدان کے
برابر ہوگا۔نیوکلیس ایٹم سے اس قدر چھوٹا ہوتاہے کہ اگر ہم ایٹم کو فٹ بال
کے میدان جتنا بڑا پھیلادیں تو نیوکلیس ایک انگور کے دانہ کے برابر
ہوگا۔آئیے اب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ الیکٹرون نیوکلیس سے کس قدر دوری سے
مخصوص مداروں میں گردش کرتے ہیں ۔اس کے لیے اگر نیوکلیس کو گولف بال کے
برابر تصور کیا جائے تو اس کے گرد گردش کرنے والے الیکٹرونز کا پہلا مدار
اس سے ایک کلومیٹر دور ہوگا جبکہ دوسرا مدار چار کلومیٹر اور تیسرا مدار نو
کلومیٹر دور ہوگا ۔اسی طرح باقی مداروں کو بھی قیاس کیا جاسکتاہے۔ایک اور
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر چہ نیوکلیس کی جسامت ایٹم کی جسامت سے اس قدر
چھوٹی ہے لیکن اس کی کمیت ایٹم کی کل کمیت کا 99.95% ہوتی ہے ۔ کتنی حیران
کن بات ہے کہ ایک شے ایک طرف تو کمیت کا تقریبا ً سار ا حصہ ہے اوردوسری
طرف نہ ہونے کے برابر جگہ گھیرتی ہے ۔ اورایٹم کا 99.999999999999% حصہ
خالی ہے ۔علاوہ ازیں سائنسدانوں نے نہ صرف ان قوتوں کو دریافت کرلیا ہے کہ
جنہوں نے ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں کو آپس میں جکڑ رکھا ہے بلکہ اس طریقے کو
بھی معلوم کرلیا ہے کہ جس کے ذریعے ان قوتوں کو ان ایٹموں سے جدا کیا
جاسکتاہے ۔اسی طریقہ کو نیوکلیر پاور پلانٹ میں استعمال کرتے ہوئے بجلی
حاصل کی جاتی ہے ۔جو کہ آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے ۔
قارئین کرام آ پ اللہ تعالیٰ کی بے نظیر اور عظیم الشان طاقت وقدرت اورعلیم
وخبیر ہونے کا اندازہ مندرجہ بالا معلومات سے لگاسکتے ہیں کہ اس نے ایک
چھوٹے سے ذرے کے اندر کیا کچھ تخلیق کر رکھا ہے اور اس کے قدر کس قدر قوت
موجودہے کہ ہماری عقلیں اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے
علم کی وسعت کا اعلان چودہ صدیاں پہلے درج ذیل آیت کریمہ میںاس وقت کیا تھا
کہ جب ایٹم کو کائنات کا چھوٹا ترین ذرہ تصور کیا جاتاتھا ۔فرمان باری
تعالیٰ نازل ہوتاہے
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ ۭ قُلْ بَلٰى
وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ۙ عٰلِمِ الْغَيْبِ ۚ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ
مِثْـقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَآ اَصْغَرُ
مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ
منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی ہے !کہوقسم ہے میرے
عالم الغیب پروردگار کی ‘وہ تم پر آ کر رہے گی۔ اس سے ذرّہ برابر کوئی چیز
نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں۔نہ ذرّے سے بڑی اورنہ اس سے چھوٹی
‘سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے۔ ﴿ سورة سبا﴾.
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ
تعالیٰ ان تما م چیزوں کے متعلق علم رکھتاہے جو خواہ چھپی ہوں یا ظاہر۔ اور
اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کے بارے میں بھی علم رکھتا ہے جو ایٹم یعنی ذرے سے
چھوٹی ہو یا بڑی۔ چنانچہ اس آیت کریمہ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ ایٹم سے بھی
چھوٹی چیز کا وجود دنیا میں ممکن ہے جبکہ اس حقیقت کو انسا ن نے بیسویں صدی
میں دریافت کیا ہے۔قرآن کے اس دعویٰ پر جدید سائنس کی تصدیق کی مہر ثبت
ہونے کا مطلب یہ نکلتاہے کہ یہ واقعتا اللہ تعالیٰ کے سچے کلمات سے بھرپور
وہ کتاب ہدایت ہے جو ا س نے اپنے محبوب ترین بندے حضرت محمد ﷺ پر نازل کی
تھی ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر اپنا ایمان مضبوط رکھنے اور ا س کے مطابق عمل
کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔ |
|