بہت سے مغربی ممالک میں اس بات کو لے کر
ریسرچ کی جارہی ہے کہ کیسے عمر کی بڑھوتی کے عمل کو کم کیا جائے۔عمر کے
بڑھنے سے بہت سی بیماریاں جسم کو اپنے شکنجے میں لے لیتی ہیں۔ایک ادارے نے
اس سلسلے میں اپنی ریسرچ کو نو مارچ دوہزار پندرہ میں دنیا کے سامنے پیش
کیا ہے ۔انہوں نے ایک ایسی دوا کو تشکیل دے لیا ہے جو جسم کے خلیات میں
موجود بوڑھا کرنے والے خلیات کو ختم کر دے گی ۔ دی سکرائپس ریسرچ انسٹیوٹ
[ٹی ایس آر آئی ]نے اس سلسلے میں چوہوں پر کامیاب تجربہ کیا ہے لیکن
انہیں شک ہے کہ عمر کو بڑھانے والے جسمانی خلیے موت کو شکست دینے اور
بیماریوں سے لڑنے کی صلاحت رکھتے ہیں جو جسم کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے
ابھی وہ اس دوا کو انسانوں پر استعمال سے متعلق نہیں سوچ رہے اور اس سلسلے
میں مزید کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی دوا کی تخلیق
کریں جو جسم کے بہترین عوامل میں شریک خلیات کو نقصان نہ پہنچائے۔ بڑھاپا
اگرچہ موت کی طرح اٹل حقیقت ہے آپ اگر اسی سال تک زندہ رہیں گئے تو لازم
ہے کہ بڑھاپے سے بھی آشنا ہوں گئے لیکن میں یہاں جس بات کو لے کر آپ کی
توجہ چاہ رہی ہوں وہ وقت سے پہلے بڑھاپے کا شکار ہونا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم
تیس کے بعد ہی اپنی صلاحتوں کو کم ہوتا پاتے ہیں۔ وقت سے پہلے جو ہماری
ہڈیوں کو زنگ لگ جاتا ہے اس کی وجہ کیا ہے۔
ہمارے ہاں عمر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ایسی اہمیت کہ ہماری سوچ اس کے حساب
سے تبدیل ہونے لگتی ہے۔لوگ ملتے ہیں تودوسری باتوں کے ساتھ بچوں کی عمر کا
ضرور پوچھتے ہیں۔آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت ذیادہ جلد
بوڑھی لگنے لگتی ہیں اس کی بڑی وجہ کیا ہے۔اس کی بڑی وجہ ان کی عمر نہیں
بلکہ ان کی سوچ ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اگرکس عام گھریلو عورت سے پوچھا جائے کہ
آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے تو عموماْ ان کا جواب بچے پالنا ،ان کی تربیت
کرنااور گھر سنبھالنا ہی ہوتا ہے ۔اگر ان کے بچے جوان ہیں تو لاشعوری طور
پر وہ خود کو بوڑھا سمجھنے لگتی ہیں۔ بعض تو شعوری طور پر مان لیتی ہیں کہ
بچے اب جوان ہو گئے ہیں تو ہمیں تو بوڑھا ہونا ہی ہےاور بعض شعوری طور پر
اس کا اقرار نہیں کرتیں۔بہت سے مرد حضرات بھی اسی طرح ہی سوچتے ہیں یہی وجہ
ہے کہ تیس کے ہوتے ہی آدمیوں کا پیٹ باہر اور عورتیں تو پوری ہی آپے سے
باہر ہو جاتی ہیں۔یہ ایک بہت اہم مسلہ ہے جس کی اگر وجوہات تلاش کی جائیں
تو ہم زندگی کو بھرپور طریقے سے جی سکتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ
کیسے ایکٹر لوگ اپنے آپ کو ٹھیک جسامت میں رکھ پاتے ہیں ،آخر کیا وجہ ہے
کہ چین میں پچاس سالہ آدمیوں کا پیٹ بھی بیس سالہ لڑکے کی طرح ہی رہتا
ہے۔آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کچھ لوگ اسی سال میں بھی چالیس سال جیسے
لوگوں کی سی جسامت اور کام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟
ایسا صرف اس لیے ہے کہ وہ ایسا چاہتے ہیں ۔جو جیسا چاہتا ہے ویسا پا لیتا
ہے اور جو جس قدر ذیادہ شدت سے کسی چیز کو چاہتا ہے ویسا پا لیتا ہے۔آپ کے
اندر کی کمیاں اصل میں آپ کی خواہش کی کمزوری ہیں آپ کی خواہش میں شدت ہی
نہیں ہوتی جو آپ سے عمل کروا سکے۔جب آپ کسی بھی چیز کے لیے پورے دل سے
خواہش کر کے کوشش کرتے ہیں تو وہ آپ کو ضرور ملتی ہے۔آپ کتنی جلدی بوڑھا
ہونا چاہتے ہیں ،یہ آپ خود طے کر سکتے ہیں۔ آپ کی خوراک ،آپ کی خود کو
ہر پل کی جانچتی نظر کبھی آپ کو بوڑھا ہونے ہی نہیں دے گئ یا پھر بوڑھاپے
کی رفتار کواس قدرکم کر دیتی ہے کہ آپ کے اندر کا بچہ کبھی نہیں مرتا۔
اپنے آپ کے لیے ایک تصور تخلیق کیجیے کہ میں کچھ عرصہ بعد ایسا لگوں گا یا
میرے بچے جب جوان ہوں گئے تو میں اس کے ساتھ کھڑا ایسا لگوں گا۔اپنی سوچ کے
آئینہ میں خود کو روز دیکھیں۔آپ یوں بھی سوچ سکتےہیں کہ پانچ سال بعد میں
اس سے بھی ذیادہ مستعد اور چاق و چوبند ہو جاوں گا یا ہو جاوں گی کیونکہ
میں روز ورزش کرتا یا کرتی ہوں۔ یہ صرف کہنے کی حد تک نہ ہو بلکہ آپ سچ
میں روز اپنے لیے وقت نکال کر ورزش کریں یا یوگا کریں ۔آپ اگر خود کے لیے
وقت نہیں نکالیں گئے تو آپ کا جسم اور آپ کی روح بہت سی بیماریوں کا شکار
ہو جائے گئی۔ہماری سوچیں نہ صرف ہماری روح پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ
ہمارے جسم کی تخلیق میں بھی اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔ہر نئے سال میں ہمارے
جسم کے پرانے خلیے ٹوٹ کر ختم ہو جاتے ہیں اور نئے خلیے ان کی جگہ لے لیتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے زخم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ہم اپنے روح کے زخموں اور
جسم کے خلیوں کو اپنی سوچ سے اچھا یا برا کر سکتےہیں ان کا بہترین علاج کر
سکتے ہیں۔اگر آپ کو موقع ملے تو اس کتاب کو پڑھیں۔جو آپ کی سوچوں کو ایک
نیا رُخ دے گی۔
AGELESS BODY TIMELESS MIND BY DEEPAK CHOPRA
کسی نے ایک بہت فطین اور اعلیٰ آدمی سے پوچھا کہ کیا تم بتا سکتے ہو کہ
میری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کونسی ہے تو اس بھلے آدمی نے اسے سچ بتاتے
ہوئے کہا۔تم خود ۔تمہاری یہ سوچ کہ میں ترقی نہیں کر سکتا۔آپ کیسے ہیں؟ اس
کی وجہ آپ کا ماضی ہے۔ آپ کیسے ہوں گے؟وہ آپ آج طے کریں گئے۔کچھ لوگ یہ
سوچیں گئے کہ وقت کے ساتھ بوڑھا ہونا فطری عمل ہے۔لیکن یہ فطری عمل کس قدر
تیزی سے اور دھیرے سے وقوع پذیر ہوتا ہے یہ انسان طے کرتا ہے ۔اللہ تعالی
نے فطرت کے قوانین سب کے لیے یکساں بنائے ہیں ۔جو جس چیز کے لیے محنت کرئے
گا اسے عطا کر دی جائے گی۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ انسان کے لیے
وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔جہاں اسلام میں دوسرے بندوں کے حقوق ہیں
جو ہم بچبن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں لیکن ہماری ذات کا بھی ہم پر حق ہے
اور وہ حق کیا کیا ہے۔یہ ہمیں بتانا سب ہی بھول جاتےہیں۔ہم اگر اپنی ذات سے
محبت نہیں کریں گے اس کا حق ادا نہیں کریں گے تو پھر وہی کچھ ہو گا جو
ہمارے ارد گرد ہم ہوتے ہوئے دیکھ رہیں ہیں۔شکوہ کرنے سے گزرا وقت ہاتھ نہیں
آتا اسلیے آج اور ابھی سے کوشش کریں کہ آپ کو اپنی ذات کو سب سے ذیادہ
اہمیت دینی ہے ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو جسم ہمارے لیے ایک مدت تک دیکھنے ،سننے،بوجھ
اُٹھانے کا کام سر انجام دیتا ہے ہم اسے فراموش کر دیتے ہیں۔اکثر لوگوں سے
پوچھیں کہ آپ روز ورزش کرتے ہیں یا عبادت کرتے ہیں تو جواب میں یہی سننے
کو ملتا ہے کہ وقت نہیں ہے۔ ایسا کرنے والے چالیس سال کی عمر میں اپنے بچوں
کو کوستے نظر آتے ہیں ،ہم نے تمہاری خاطر کیا نہیں کیا؟اپنی جوانی برباد
کر دی ۔کوئی ایسے لوگوں سے پوچھے کہ کس نے انہیں کہا تھا جوانی برباد کرنے
کو۔کس نے کہا تھا کہ خود کو سب سے آخر میں رکھیں۔اپنی ذات کو فراموش نہ
کریں کیونکہ آپ سب کی خوشی کے لیے ذمہ دار نہیں بلکہ اپنی خوشی کے لیے زمہ
دار ہیں ۔آج سے اور ابھی سے سوچنا شروع کریں ۔حقائق آپ پر خود بخود کھلنے
لگیں گے۔منزل کے شیدائی ہی نئے نئے راستوں کی کھوج لگاتے ہیں۔ایک کتاب [چکن
سوپ فار دی سول] میں لکھنے والے نے بہترین لکھا ہے کہ کہ تم چاند کو حاصل
کرنے کی کوشش میں لگ جاو ۔ممکن ہے کہ تم کسی وجہ سے چاند تک نہ بھی پینچ
سکولیکن تم ستاروں تک ضرور پہنچ جاو گئے۔لہذا اپنے متعلق اپنی چاہتوں کو
درست اور بڑا کیجئے اور اپنے لیے اچھی سوچوں کا انتخاب کیجئے۔انشاللہ آپ
ضرور کامیاب ہوں گئے۔ |