مشتاق عاجز نصف صدی سے اٹک شہر سے ملحقہ
آبادی مہر پورہ غربی میں بیٹھے شعر گوئی میں مصروف ہیں مگر شعر گوئی تو ان
کی شخصیت کا صرف ایک رُخ ہے۔ وہ بلا کے مصوّر اور ماہر موسیقی بھی ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے معلمّ ہیں۔ اصل نام مشتاق احمد خان ہے ۔ یکم اپریل ۱۹۴۴ء
کو جنڈ (ضلع اٹک) میں پیدا ہوئے تاہم آپ کاقریہء اجداد سیدھن (چھچھ) ہے۔
مشتاق عاجزصاحب کو میں نے پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب وہ گورنمنٹ مڈل
سکول (حالیہ ہائی سکول)حطاّر میں بطور ہیڈ ماسٹر تعینات تھے۔یہ ستر (۷۰) کی
دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے۔ میں اسوقت اسی سکول میں پہلی جماعت کا
طالب علم تھا اور میری عمر چھ یا سات سال تھی۔ میرے والدِگرامی عبدالخالق
صاحب بھی ان دنوں اسی سکول میں معلمّ کے فرائض انجام دے رہے تھے او ر مشتاق
عاجز سے اُن کے دیرینہ مراسم تھے اس لئے مجھے مشتاق عاجز کی شخصیت کا بہت
قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملاکیونکہ وہ کافی عرصہ ہمارے گاؤں حطاّر کے
گورنمنٹ مڈل سکول (حالیہ ہائی سکول)میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ
اسوقت بھی نہایت وجیہ اور خوش لباس آدمی تھے اور آج تک اُن کی یہ وجاہت اور
خوش لباسی قائم ہے۔ نصف صدی سے تدریسی امور انجام دے رہے ہیں اور اب تک کئی
نسلوں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کر چکے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا
ہوں کہ مشتاق عاجز کی شخصیت کے کئی رخ ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں انہیں
بحیثیت استاد دیکھا مگر ان کی شعر گوئی کا علم مجھے تب ہوا جب ۲۰۰۰ء میں
اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’آئینے سے باہر‘‘شائع ہوا۔ یہ مجموعہ اُن کے شعری
سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔ اس شعری مجموعے میں مشتاق عاجز کی نظمیں ، غزلیں اور
قطعات شامل تھے۔ افتخار عارف نے مشتاق عاجز کی شعر گوئی کے متعلق اظہارِ
خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مشتاق عاجز کی شاعری میں اظہار و ابلاغ کی
ایسی جہتیں اور فکرو خیال کی ترجمانی و صورت گری میں تعبیر وتفسیر کے ایسے
رُخ نظر آتے ہیں جو زبان و بیان پر ان کی دسترس کی گواہی دیتے ہیں‘‘جنابِ
افتخار عارف کی درج بالارائے کو سچ ثابت کرنے کیلئے آئیے مشتاق عاجز کی
شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تازہ گلوں کی باس ترے شہر کی ہوا
آئی مگر نہ راس ترے شہر کی ہوا
اک عمر کٹ گئی ہے ترے شہر میں مگر
اب تک ہے ناشناس ترے شہر کی ہوا
پھر آج تیری یاد نے بے کل کیا مجھے
پھر لے اُڑی حواس ترے شہر کی ہوا
٭٭٭٭٭
میں نے سیکھا نہ منت سماجت کا فن
جو خفا ہوگیا سو خفارہ گیا
تو نہیں تیرے دامن کی خوشبو نہیں
میرے گھر میرے آنگن میں کیا رہ گیا
٭٭٭٭٭٭
دعوے بلند بانگ جنہیں دوستی کے تھے
مشکل پڑی تو لشکرِ اعدا میں جا ملے
جو بھی خوشی ملی وہ بڑی عارضی ملی
غم جسقدر ملے وہ بڑے دیر پا ملے
مشتاق عاجز کے شعری سفر کا دوسراپڑاؤ اُن کا شعری مجموعہ’’ الاپ ‘‘ تھا جو
نومبر ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں مشتاق عاجز نے اپنی غزلوں کا
اثاثہ قارئینِ ادب کی خدمت میں پیش کیا ۔ اس مجموعے میں کوئی نظم موجود
نہیں۔ کسی بھی شاعر کی فنی پختگی کا اندازہ اس کی غزل کو دیکھ کر لگایا جا
سکتا ہے کیونکہ غزل وہ ضفِ سخن ہے جس میں اظہار و ابلاغ کیلئے ریاضت درکار
ہوتی ہے۔ اندازِ بیان میں سادگی کے ساتھ پرُ کاری کا تڑکہ بھی لگانا پڑتاہے
اور عصری تقاضوں کو غزل کے اشعار میں نہایت ہنر مندی سے سمونا پڑتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ غزل کہتے وقت اچھے اچھے شعراء کا سانس پھولنے لگتا ہے مگر
مشتاق عاجز اس کڑے امتحان میں سرخرونظر آتے ہیں اور ان کی غزل گوئی واقعی
زبان و بیان پر ان کی دسترس کی گواہی دیتی ہے۔ ان کی غزل میں موضوع کی یک
رنگی نہیں بلکہ اُن کے رجحانات کی بوقلموتی سمیٹے نہیں سمٹتی۔ ہجر و وصال ،
شیشہ و ساغر، یاس و امید اور دیگر معاشرتی دکھوں کا بیان اُن کی غزل میں جا
بجا نظر آتا ہے۔
دل میں چُبھے نہ جن کو کبھی خارزیست کے
کیا اُن پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے
سیکھا نہیں جنہوں نے سلیقہ کلام کا
تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے
کارِ حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
اُلجھے تو پھر سُلجھ نہ سکے تار زیست کے
٭٭٭٭٭
وہ آنکھیں جن کو ورثے میں ملی جاگیر نفرت کی
محبت کا سبق اُن کیلئے تحریر کرنا ہے
ہزاروں خواہشوں کی بستیاں مسمار کرنی ہیں
اسی ملبے سے پھر اک جھونپڑا تعمیر کرنا ہے
٭٭٭٭٭
کہاں جلتا ہوا سورج ہتھیلی پر لیئے پھرنا
کہاں یہ دن کہ سائے میں جلن محسو س کرتا ہوں
گُلوں کی جستجو میں خار اتنے چن لیئے عاجزؔ
کہ اب پھولوں کی خوشبو میں چھبن محسوس کرتا ہوں
٭٭٭٭٭
دشتِ غمِ حیات مرا حوصلہ تو دیکھ
میں ڈھونڈنے چلا ہوں تیرا دوسرا سِرا
٭٭٭٭٭
وہ میری رہ میں اُگا خار دار پودا تھا
اُلجھ گیا تو مجھے تار تار کر کے رہا
٭٭٭٭٭
مشتاق عاجز کے شعری سفر کا تیسرا پڑاؤ اُن کے دوہوں کا مجموعہ ’’ سمپورن‘‘
ہے۔ سمپورن ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آیا ۔ اس شعری مجموعے میں مشتاق عاجز کی
شخصیت کی تین جہتیں یعنی شاعری، مصّوری اور موسیقی یکجا نظر آتی ہیں۔ سر سی
چھند میں کہے گئے مشتاق عاجز کے دوہوں کو پاکستان و ہندوستان میں تحسین کی
نگاہ سے دیکھا گیا۔ حیدرآباد بھارت سے اعجاز عبید نے مشتاق عاجز کے دوہے کو
اُن کی جمال پسندی اور فن ِموسیقی سے اُن کے گہرے شغف کا غماز کہا ہے۔
پاکستان میں دوہے کے حوالے سے مستند نام ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے بھی ’’
سمپورن‘‘ کو دوہے کے آسمان پر ایک تابندہ تارے سے تشبیہہ دی ہے۔ امین خیال
نے ’’ سمپورن ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس مجموعے میں موجود دوہوں میں فنی
اور فکری لحاظ سے وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے دوہے میں ہونی
چائیں۔ سمپورن کے دوہوں کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب کو
ایک الگ نام دیا گیا ہے۔ ہر باب کا آغاز مشتاق عاجز کی بنائی ہوئی خوبصورت
تصویر سے ہوتا ہے جو باب کے نام کی مناسبت سے بنائی گئی ہے۔ اس طرح شاعری
کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ہم مشتاق عاجز کی مصّوری سے بھی لطف اندوز ہو
سکتے ہیں۔ دوہوں میں ہندی زبان کے الفاظ اور موسیقی کی اصطلاحات جا بجا
استعمال ہوئی ہیں جس سے مشتاق عاجز کی ہندی زبان پر گرفت اور علمِ موسیقی
سے گہرے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین کی آسانی کیلئے ہر صفحے کے آخر پر
ہندی الفاظ کے معانی آسان اردو میں درج کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان اور
ہندوستان میں اردو دوہا لکھنے والوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس
صفِ سخن میں مشتاق عاجز کا مجموعہ ’’ سمپورن‘‘ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ آئیے
ان کے دوہوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جب تک تن کا تو نبا باجے پی کا راگ الاپ
جس نے من کا تار بجایا نام اسی کا جاپ
٭٭٭٭٭
ماٹی کا تو جا یا پالا، ماٹی تیر ی ذات
مٹھی بھر ماٹی کے پُتلے ، تیری کیا اوقات
٭٭٭٭٭
سوناروپا مال سمیٹا ریشم لیا لپیٹ
ہیرے کھائے، موتی چابے بھرا نہ پاپی پیٹ
٭٭٭٭٭
دنیا ظالم جادوگرنی کرے زَبر کو زِیر
اس کے آگے بندر بن کر ناچ رہے ہیں شیر
٭٭٭٭٭
پنکھ پسارے پنچھی بیٹھا اُڑنے کو تیار
اُڑ جائے تو مُڑ نہ آئے اس جھوٹے سنسار
٭٭٭٭٭
مالک کے در بیٹھا کتا چکنی چپڑی کھائے
دَر دَر پھرے تو دُر دُر ہووے بھوکا ہی مرجائے
٭٭٭٭٭
اہل ِفن کواٹک شہرکے مضافات میں بیٹھے اس گوشہ نشیں کی شاعری اور مصوری
پرضرور غور کرنا چاہئے۔پرنٹ میڈیا کی دکانوں پر کیا کچھ نہیں بِک رہا مگر
مضافات میں ہونے والی خوبصورت شاعری کو کوئی در خورِ اعتنا نہیں
سمجھتا۔اسلام آباد،لاہور اور کراچی کی یونی ورسٹیوں میں مشاہیر پر بار
بارمقالہ جات لکھ کر مکھی پر مکھی مارنے کا عمل جاری ہے مگر مشتاق عاجز اور
ان جیسے دیگر گوشہ نشینوں کے فن پرتوجہ دینے والا اور ان کی خبر گیری کرنے
والا کوئی نہیں۔ادب کی سمت متعین کرنے والوں اور ادب کے صحت مند رجحانات پر
نظر رکھنے والوں کے لئے یہ لمحہ
فکریہ ہے۔
|