قول سدید‘ تحریر: ابو الہاشم ربانی
1965ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنی قوت کا لوہا منوایاجس سے بھارت کی ساکھ
کوبین الاقوامی طور پرایک زبردست دھچکا لگا۔ اسی کا انتقام لینے کے لیے
انڈیا نے مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ مشرقی پاکستان میں
نفرت کے بیچ بوئے پھر ان کی آبیاری کے لیے مختلف حربے آزمائے ۔ مشرقی
پاکستان کے عوام کو مغر بی پاکستان کے استحصال کا تصور دیا۔ سینکڑوں ہندوؤں
کو مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا جنہوں نے جلسے جلوسوں میں نہ صرف ملک کے
خلاف نعرہ بازی کی بلکہ اکھنڈ بھارت کے نعرے بھی لگائے۔ تعلیمی اداروں میں
ہندواساتذہ کے ذریعے طلبہ کے اذہان میں مغربی پاکستان کے خلاف منفی نظریات
پھلائے گئے۔ اس تعصب، نفرت اور تنگ نظری نے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا۔ انڈیا نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں شدید نفرتیں پیدا کر
دیں ۔ انڈیا مشرقی پاکستان میں وطن دشمن تلاش کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا ۔
عوام کی معاشی بدحالی کی وجہ سے شیخ مجیب کے 6نکات کو بھرپور پھیلنے کا
موقعہ مل گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی دوستی کا روپ دھارلیا اور انہیں
مغربی پاکستان کے تسلط سے نام نہاد آزاد کرانے کا مژدہ بھی سنادیا۔ عوامی
لیگ کوبھارت پہلے ہی شیشے میں اُتار چکا تھااس کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنا
ہم نوا بنایا۔ نومبر 1971ء کو بھارت نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے تانے بانے بنے جارہے تھے، مایوس کن اور نفرت
انگیزپراپیگنڈے کے ساتھ بھارت کی دراندازیاں ننگی ہورہی تھی۔ بھارت جنگ کے
لیے راستے ہموار کررہا تھا۔اس طرح انڈیا نے مشرقی بازو کاٹنے کے لیے ایک
طرف بڑی طاقتوں سے جدید ترین اسلحہ لیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر اس ’’
جرم‘‘ کی حمایت بھی حاصل کر لی۔
انڈیا نے بھر پورفوجی طاقت کے ساتھ مشرقی پاکستان پر حملہ اور مغربی
پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ شروع کردی۔ بڑی طاقتیں بشمول امریکہ
پرزور مشورے دیتے رہے کہ پاکستان سخت ملٹری ایکشن کی بجائے پرامن حل کی
تلاش کے لیے اقدامات کرے تاکہ مزید قتل وغارت کو روکا جاسکے۔ انڈیا بڑے
دھڑلے کے ساتھ مشرقی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کوروند کر فوجی غاضبانہ
قبضہ کر رہا تھا۔ انڈیا کا مروڑ شدت سے بڑھ رہا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ
بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 15 جون 1971ء کو یہ اعلان کیا کہ بھارت
مشرقی پاکستان کے مسئلے کا ایسا کوئی سیاسی حل قبول نہیں کرے گا جس کا
نتیجہ بنگلہ دیش کی موت ہو۔اسی لیے بھارت مسلسل حالات کو بے قابو کر رہا
تھا ہر طرف ہنگامے کھڑے کرنے میں اس کے ادارے مصر وف عمل تھے۔ بظاہر سارے
حالات اتفاقی معلوم ہورہے تھے اصل میں یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ اور منصوبہ
بندی کے مطابق ہو رہا تھا۔ مکتی باہنی گوریلا تنظیم کی تشکیل بھارتی فوج کے
میجر جنرل اوبین نے ملٹری اکیڈمی میں کی۔ اس گوریلا تنظیم نے اپنے ہم وطنوں
اور بہاریوں کا قتل عام کرتے ہوئے دہشت گردی اور وحشت ناکی کی تاریخ رقم
کی۔ ’’مکتی باہنی ‘‘جس نے پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے
میں نہ صرف انڈین مقاصد کو پورا کیا بلکہ اپنے اور اپنے بھائیوں کے لہوسے
انڈین دہشت گردی کو بھی سینچا۔ حالات تیزی سے بگاڑے جارہے تھے۔ پاکستانی
فوج کئی محاذوں پر لڑرہی تھی جبکہ سرحدوں پر شدید دباؤ تھا۔ بھارتی فوج نہ
صرف مکتی باہنی کے باغیوں کو اسلحہ مہیا کر رہی تھی بلکہ ان کی نگرانی کے
ساتھ ساتھ بھارتی فوجی اہلکار سادہ لباس میں ان سے زیادہ تخریبی کاروائیوں
میں خود شامل تھے ۔ عمارتیں اور ذرائع مواصلات خاص طور پر ان کے نشانہ بن
رہے تھے اور غیر بنگالی مسلمان تو بالکل غیر محفوظ تھے۔ ہندوستانی فوج اور
مکتی با ہنی خود کارہتھیار سنبھالے بازاروں میں آزاد نہ پھرتے اورجو چاہتے
کرتے۔ اتحاد پرزور دینے والوں کو ’’کانٹا‘‘ سمجھا جاتا جہاں ان امن پسندوں
سے آمنا سامنا ہوجاتاان کا صفا یا کر دیتے تھے۔ بین الاقوامی سازشیں اصلاح
کی کوششوں کو ناکام کر رہی تھیں۔16دسمبر کی وہ سیاہ صبح دلوں پرلرزہ طاری
کرنے والی جسم کو چیر کر دو حصوں میں تقسیم کرنے والے اُس لمحہ کے ساتھ آہی
گئی جس کے بارے میں افواہیں جاری تھیں سرنڈر سرنڈر۔ جو پاکستان کی محبت میں
فدا ہو رہے تھے ان پر بجلی گر رہی تھی، آسمان ٹوٹ رہا تھا ۔ محمد پور
اورمیر پور کی گلیاں لہو لہو کر دی گئیں۔ سرنڈرکی خبروں کی تصدیق ہو چکی
بھارتی افواج نے بنگالی فوج اور عوام میں اپنے پالتوؤں کے ذریعے ڈھاکہ پر
قبضہ کرلیا ۔ 90 ہزارپا کستانیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا پاکستان کا مشرقی
بازوں کٹتے ہی پاکستان اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے اعزاز سے بھی
محروم ہوگیا ۔مغربی اور مشرقی پاکستان جو ایک دل و جان تھے کٹتے رہے ، جلتے
رہے ، کڑتے رہے جبکہ ہندو خوش ہوتا رہا اور اپنا کام کرگیا۔بنگلہ دیش کی
کامیابی پر بدحواس انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دہلی میں اپنی پارلیمنٹ
میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’یہ کامیابی جو ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ ہماری افواج
کی نہیں بلکہ ہمارے نظریے کی کامیابی ہے ۔ ہم نے کہا تھا کہ ان کانظریہ غلط
ہے اورہمارا نظریہ درست ہے۔ لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ان
کا نظریہ غلط تھا۔ ہم نے ان کا نظریہ بحرہند میں غرق کردیا ‘‘ ۔ گزشتہ سال
ہندوستانی وزیر اعظم نریند مودی ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر اپنے بچپن اور
ہندوستانی قوم کے مشرقی پاکستان میں کئے گئے اپنے جرائم کا اقرار کرتا رہا۔
اتنی سفاکیت کہ جب انسانیت کٹ رہی تھی، مسلمان ذیبحہ ہورہے تھے، مشرقی
پاکستان جل رہاتھا ، مکتی باہنی کے قتل عام کا سلسلہ جاری تھا، جلاؤ گھیراؤ
اور عصمتوں کی پامالی ہورہی تھی تو نریندرمودی کہتا ہے کہ وہ اس کی زندگی
کے یاد گار لمحات ہیں۔ اقبالِ جرم کررہا ہے کہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج
میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔
آج ایک بار پھر ہندوبنیا پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں آن
ریکارڈ ملوث ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند خود کہہ رہے ہیں ہمیں انڈیا
فنڈنگ کرتا ہے۔ کلبھوشن یادیو اور اسلام آباد میں بھارتی سفارت کار دہشت
گردی اور جاسوسی میں ملوث پائے گئے۔ ٹی ٹی پی ، داعش اور دیگر تکفیری
گروہوں کے تانے بانے انڈیا کے ساتھ کسی سے چھپے نہیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول
پشاور، کوئٹہ کی عدالت اور کوئٹہ کے ہی پولیس ٹرینگ سکول میں دہشت گردی اور
سفاکی کرنے والے افغانستان میں انڈین کیمپوں سے تربیت اور سامان لے کر آئے
۔ انڈیا پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف تخریب کاری میں مصروف ہے کہ گوادر
پورٹ ناکام ہوجائے۔ پاکستان میں دہشت گردی میں اندھا پیسہ بہا کر امن تاراج
کر رکھا تھا۔ نہ کبھی انڈایا مذاکرات چاہتا ہے اور نہ کرنے کا کوئی ذہن اور
سوچ رکھتا ہے۔ کشمیر میں ظلم و جبر ، شہادتیں ، حریت قائدین کی نظر بندیاں
اور کئی ماہ سے کرفیو لگا رکھا ہے۔ پیلٹ گن، مرچی بم اور دیگر خطرناک اسلحے
کے استعمال سے بچے آنکھوں اور سماعت سے محروم ہو رہے ہیں، انڈین فوج بدترین
تشدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ LOC پر بلا اشتعال فائرنگ سے معصوم شہری شہید ، ان
کے جانور مارے جارہے ہیں۔ انڈین حکومت میں کوئی انسانیت باقی نہیں رہی۔
الحمدﷲ کشمیریوں کا ذوق شہادت اور عزم حریت آسمان کی وسعتوں کو چھو رہا ہے۔
انڈین سرکار اور انڈین دہشت گرد غاصبانہ افواج بے بس ہیں، کشمیری انڈیا سے
کسی قسم کا پیکج قبول کرنے سے انکاری ہیں۔مودی حکومت نے انڈیا کے اندر
مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے ۔
پاکستانیوں اور بنگالیو! تمہارا اﷲ، رسولؐ اور قبلہ ایک ہے۔ اﷲ کی عزت و
جلالت کی قسم تمہا رے مفادات، معاملات، رسوم ورواج ایک ہیں۔ آج بھی کچھ
نہیں ہواایک اُمت اور ملت بن جاؤ۔ہندو مکار جواپنے شُودر اورردلت کو انسان
ہی نہیں سمجھتا وہ تمہارا بھائی اور اعتماد والا نہیں ہو سکتا۔ آج پھر وہی
جذبے ، جوش، ولولے،شعور بیدار کریں جو دل کی اتھا گہرائیوں سے نکلیں ۔ کفر
کے الحاد کے معاشی اور اقتصادی نظام بکھر رہے ہیں۔ سیاسی جکڑ بندیاں ٹوٹ
رہی ہیں۔ اسلام اتحاد و یکجہتی کی علامت بن کر اُبھر رہاہے ۔ اُمت مسلمہ
صحیح سمت کروٹ لے رہی ہے۔ ملت کی نشاۃ ثانیہ کا وقت بہت قریب ہے۔ منزل دور
نہیں ۔۔۔۔۔تیری صبح کا آغاز ہورہا ہے ۔ ایک بار پھر سب یہ نعرہ بلند کریں
’’ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا ﷲ محمد رسول اﷲ ‘‘۔ اسلام زندہ باد، ملت
مصطفیؐ پائندہ باد۔
|