جی ہاں آج آرمی پبلک سکول میں شہید
ہونیوالے 133بچوں سمیت143افراد کی دوسری برسی منائی جا رہی ہے،معصوم بچوں
پر حملے کے بعد قوم متحد ہوئی،سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے
کا عزم کیا،سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان کو سخت پیغام
دیا،ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن شروع کئے
گئے،2016کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا گیا،16دسمبرکا دن قومی عزم
کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا جس کا مظاہرہ پہلی برسی پر تو کیا گیا اب
کی بار دیکھتے ہیں کیا کیا جاتا ہے۔عمران خان نے حکومت کیخلاف 126دن سے
جاری دھرنا ختم کر کے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ دینے کا
اعلان کیا،وزیراعظم نواز شریف نے بھی وعدہ کیا خان صاحب انتخابات میں
ہونیوالی دھاندلی سے متعلق آپ کے خدشات کو دور کیا جائیگا۔افسوس کا مقام
تھا جب میاں صاحب اور خان صاحب قوم کو متحدکرنے کی بجائے ایک دوسرے کی
حمایت یا پھر اپنے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ پاک فوج نے ہمت اور کوشش دونوں کیں مگر دہشت گردی کا جن بوتل میں بند نہ
کر سکی،سیاست دان اپنے فوائد اور نقصانات ڈھونڈتے رہے۔افسوس کا مقام یہ بھی
ہے کہ 2سال گزرنے کے باوجود بھی شہداء کے لواحقین کے خدشات اور تحفظات دور
نہیں کئے گئے بلکہ صوبائی اور وفاقی حکومت نے شہداء کے لواحقین کو تنہا
چھوڑ دیا ایک طالبعلم چند روز قبل 2سال تک زندگی و موت کی کشمکش میں رہنے
کے بعد چل بسا۔اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے دہشت گردوں سے خون کے
ایک ایک قطرے کا حساب لے لیاتو جواب ملے گا نہیں،دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
کیا گیا،کیا دہشت گردی کو ختم کیا گیا ،جواب ہے نہیں۔2دہائیوں سے جاری
آپریشن مکمل کئے گئے؟جی نہیں۔دہشت گردوں کا ایک ہمارا ایک ہی مشن ہے،ان کا
کام دہشت گردی کرنا اور ہمارا کام دہشت گردی کو روکنا،وہ تعداد میں کتنے
ہیں اور ہم کتنے،ان کے پاس کتنی طاقت ہے اور ہمارے پاس کتنی ؟اب تک وہ
کامیاب ہو رہے ہیں یا ہم؟ان کے جواب ہم سب کو پتہ ہیں مگر نہ ہی بتائے
جائیں تو اچھا ہے خود کو کب تک طفل تسلی دیتے رہیں گے۔اب تک دہشت گردی
کیخلاف جنگ کیلئے بہت سے اقدامات کئے گئے ہونگے مگر کامیابی نہیں حاصل کی
جا سکی۔امریکہ میں ایک نائن الیون کا سانحہ ہوا اور اس نے پوری دنیا میں آگ
لگا دی مگر وہاں دہشت گردی کا اتنا بڑا واقعہ پھر پیش نہ آیاکیونکہ انہوں
نے دہشت گردوں کا نہ صرف پیچھا کیا بلکہ ان کو پکڑ کر عبرت کا بھی نشان بھی
بنایااور اچھے ،برے دہشت گرد کے چکروں میں بھی نہیں
پڑے،برطانیہ،فرانس،بھارت،سری لنکا سمیت درجنوں ملک دہشت گردی کیخلاف جنگ
میں کامیابی حا صل کر چکے ہیں ۔جہاں تک رہی ہماری بات تو کئی جماعتیں دہشت
گردی کی مذمت کرنا بھی گوارہ نہیں کرتیں،اچھے اور برے طالبان ڈھونڈنے لگ
جاتے ہیں،ڈرون حملے میں امریکہ کسی طالبان رہنما کو مارتا ہے تو کوئی حق
اور کوئی مخالفت میں سامنے آجاتا ہے۔اکیلے فوج دہشت گردی کیخلاف جنگ میں
کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی،تمام ریاستی اداروں پارلیمنٹ،عدلیہ
مقننہ کو ساتھ دینا ہوگا،معذرت کے ساتھ یہاں یہ بھی کہنا چاہونگا کہ قوم تو
ہمیشہ سے فوج کے ساتھ رہی ہے چاہے فوج نے کوئی بھی روپ دھارا ہو مگر سیاست
دان جن کو فوج نے ڈسا بھی ہے وہ کبھی بھی ساتھ نہیں رہے۔امریکی صدر باراک
اوبامہ نے شاید درست ہی کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہونے میں
ابھی بھی کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں،مسٹر اوبامہ ہمیں اچھی طرح جان چکے ہیں
ان کو پتہ ہے ہم کیا ہیں ،ہماری کتنی پاور ہے،اوبامہ کی بات تو سچ ہے مگر.............خیر
ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ دہشت گرد آتے کہاں سے ہیں ،رہتے کہاں
ہیں،پلاننگ کہاں بناتے ہیں،خریداری کہاں سے کرتے ہیں تو ان حالات میں ان کا
راستہ روکنا تو ناممکن سی بات ہے۔ملک چلانے والوں کو معذرت کیساتھ کہنا
چاہونگا کہ آپ دہشت گردوں کے آنے کا راستہ تک نہیں روک سکے ہیں تو ان کا
خاتمہ کیسے کرینگے ۔خدارا قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے حقیقت
بیان کی جائے کہ آیا پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے کہ نہیں،اگر ہے
تو کتنے سال یا دہائیاں مزید قوم کو دہشت گردوں کو جھیلنا پڑے گا۔پاکستان
میں نہ جانے کتنے اے پی ایس کی طرح کے سانحے ہو چکے ہر سانحے کے بعد دہشت
گردی کے خاتمے کا عزم کیا گیا مگر حقیقت میں کچھ نہ ہوا۔مجھ سمیت تمام
پاکستانیوں کی یہی خواہش ہے کہ پیارا ملک دہشت گردی سے پاک ہو،امن و امان
کی فضاء میں رہا جائے۔ملک ترقی کرے،بچوں کے دل و دماغ سے خوف کے بادل چھٹ
جائیں۔قوم تو نائن الیون کے بعد سے قربانیاں دے رہی ہے اور نہ جانے کب تک
دیتی رہے گی مگر ہمارے ادارے ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔2سال کے پہلے کے
پاکستان پر بات کی جائے تو جب آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہوا تودہشت گرد
ایف سی کی وردیوں میں ملبوس تھے ،سکول کے اندر گھس کر فائرنگ شروع کی،بچہ
دیکھا نہ ہی عورت جو بھی سامنے آیا چھلنی کرتے رہے، تمام شہید بچوں کی
عمریں 9سے16سال کے درمیان تھیں ،حوصلہ افراء بات یہ تھی کہ 960افراد کو
بخاظت باہر نکالا گیا ،حملے کو ملکی تاریخ کی بدترین دہشت گردی قرار دیا
گیا،ملک کئی روز تک سوگ میں ڈوبا رہا،قومی پرچم بھی سرنگوں رہا،نیشنل ایکشن
پلان کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں آپریشن شروع کئے گئے جن کو وقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ سیاسی بنایا گیا جس کے باعث قوم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں وہ
کامیابی حاصل نہ کر سکی جس کی امید تھی ۔آخر میں صرف اتنا عرض کرنا چاہونگا
کہ ہمیں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کسی دوسرے ملک
کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے لڑنا چاہئے،کسی کے کہنے
پر آپریشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی بجائے خودسے فیصلہ کرنے کی
پاور پیدا کرنی چاہئے،کبھی مذاکرات کبھی آپریشن کا سلسلہ بھی ختم ہونا
چاہئے کیونکہ وہ ہمارے دوست نہیں دشمن ہیں ان کا مقصد دہشت گردی کرنا اور
ہمارا کام دہشت گردی کا خاتمہ ہے اس لئے ہمیں اپنے کام پر توجہ دینے کی
ضرورت ہے،پسند نہ پسند کا سلسلہ بند کرنا ہوگا،یہ فوج کا پسندیدہ بندہ ہے
یا عدلیہ کا اور یہ سیاستدانوں کااس گیم سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔اگر دہشت
گرد جی ایچ کیو میں گھس کر حملہ کر سکتے ہیں تو کیا ہم میں اتنی طاقت بھی
نہیں کہ ان کا راستہ ہی روک لیا جائے ؟ہم اور کتنے اے پی ایس کی طرز کے
سانحے برداشت کرینگے؟ حکمران کب تک عوام کوطفل تسلیاں دیتے رہیں گے؟جیسا کہ
پچھلے سپہ سالار نے کہا تھا کہ 2016دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہوگا کیا اب
کبھی دہشت گردی نہیں ہوگی؟کیا معصوم ،بے گناہ انسانوں کے جانوں کی کوئی
اہمیت نہیں؟اﷲ کرے ملک سے جلد از جلد دہشت گردی کا خاتمہ ہو،ہر طرف امن کے
گیت گائے جائیں،ہم اختلافات کے بت پاش پاش کر کے پاکستان کے نام پر ایک
ہوجائیں،کاش ہم یہ سوچ لیں کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں یہ ملک نہ ہوگا تو کچھ
نہیں ہوگا۔اس لئے کب کیا اور کیسے کرنا ہے ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا،اﷲ
پاک ہمیں دہشت گردی سے نجات دلائے (آمین)
16دسمبر2014
وہ ڈر کے سامنے ہنستا گیا............
جو اپنا چھوڑکر بستہ گیا.........
یہ ایک کیسی کہانی لکھ گیا وہ
انسانیت شرما گئی............کلی مرجھا گئی
|